جستجو / حالاتِ حاضرہ
جادُوئی چھڑی!
محمد بن قاسم
برطانوی مُصنّفہ، جے کے رو¿لنگ (جو آن کیتھلین رو¿لنگ )نے ہر عمر کے پڑھنے والوں کے لیے ایک جادوئی دنیا تخلیق کی۔ اس خیالی دنیا میں اس نے ہیری پوٹر کو ہیرو، اور اس کے ساتھیوں ہرمیونی، رون، وغیرہ کو اس کا مددگار بنایا۔ اس خاتون نے جو جہانِ حیرت پیش کیا، اس میں نہ صرف وولڈی مارٹ جیسے خون آشام ولن تھے، بلکہ اس میں ڈمبل ڈور جیسے نیک دل اور ماہر جادو گر بھی تھے۔ محبت، نیکی اور بدی کی کشمکش، چند پراسرار کردار،مافوق الفطرت پرندے ، چرندے، اور حشرات الارض، اور جادوئی کمالات سے پُر، ہیری پوٹر کے سات عدد ناول نشرواشاعت کی تاریخ میںالہامی مذہبی کتابوں کے علاوہ سب کو پیچھے چھوڑ گئے، اور یہاں تک کہ جے کے رو¿لنگ ملکہ ءبرطانیہ سے بھی زیادہ امیراور امریکی ڈالروں کے حساب سے ارب پتی ہوگئی۔ رو¿لنگ نے ایک نئے داستانی کھیل’کوئیڈچ‘ کو بھی متعارّف کرایا، جو جادوئی جھاڑوو¿ں پر بیٹھ کر فضاءمیں بلند ہوکر ہاکی کی طرح کھیلا جاتاہے۔ تمہید کچھ طویل ہوتی جارہی ہے، اور آپ بھی سوچنے لگے ہوں گے، آج ہمیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔ ویسے یہ سوچ ہماری بیگم تو روزِ اوّل سے ہی رکھتی ہیں، اور مزے لے لے کر ہمارے©’ کارنامے اور خامہ خیالیاں‘ اسی انداز میں اپنی سہیلیوں اور ملنے جلنے والوں کو سناتی ہیں، جس طرح ایک خاتون کو جب یہ پتہ چلا کہ فضاءمیں اڑتے نظر آنے والا اجنبی شخص اورکوئی نہیں، بلکہ ان کے شوہرِ نام دار ہی ہیں، تو وہ کہنے لگیں کہ اچھّا، اسی لیے ©تو ٹیڑھے، ٹیڑھے اڑُ رہے تھے آپ۔۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے، ان تمام لذیذ قصائص کو سب سے زیادہ دل چسپی سے ہماری ساس محترمہ ہی سنتی ہیں، اور کانوں کو ہاتھ لگاتی ہیں۔۔۔ جی ہاں، آپ میں سے سمجھ دار قارئین صحیح کہہ رہے ہیں، ان کے ہاتھوں میںوہ کان ہمارے ہوتے ہیں۔ خیر، دیکھیے، اصل بات یہ ہے، کہ ہم یہ سوچ رہے تھے، کہ اگر ہیری پوٹر کے ناولوں میں سے اس کی جادوئی چھڑی Magic Wand کو نکال دیا جائے تو وہ بے چارہ کسی بھی کھاتہ میںنہ رہے گا۔ بالکل اسی طرح، جیسے کہ ہمارے سپہ سالار کے ہاتھ میں روایتی اور جادوئی کمالات رکھنے والی چھڑی Baton ہوتی ہے۔ چنانچہ، جب ہمارے ریٹائر ہونے والے چیف آف اسٹاف جناب جنرل پرویز مُشرّف نے اپنی ایسی ہی تاریخی چھڑی جناب جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالہِ کردی تو اس پر تمام دنیا کے میڈیا نے اس چھڑی پر بھی توجّہ مرکوز کردی، اور یہ امر ڈھونڈ نکالا کہ یہ جادو کی چھڑی رومیوں کے زمانہِ سے اعلیٰ فوجی کماندار کے لیے ایک علامت کا درجہ رکھتی ہے، اگرچہ پاکستان میں اس روایت کو اپنائے رکھنے کے دیگر اسباب بھی ہیں۔ محاورتاّ فوج ڈنڈا چلانے کی ماہرسمجھی جاتی ہے، اگرچہ آج کی پاکستانی پولیس بھی اس عزّت کے لیے مقابلہ کررہی ہے، چنانچہ یہ جادوئی چھڑی سپہ سالار کے ہاتھ میں ہو تو کیا بات ہے۔ جیسا کہ ہم سب پاکستانی جانتے ہیں کہ یہ چھڑی سیدھی ہو تو اس سے صحیح احکامات جاری کیے جاسکتے ہیں، ورنہ اگر یہ ذرا بھی ٹیڑھی ہو تو مشرقی پاکستان جیسا نتیجہ بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔ ہمارے یہ خیالات سن کر جناب کوٹ لکھپتی کہنے لگے کہ ’پرا جی، نیت سدّھی ہو، تے ٹیڑھی جادودی چھڑ ی وی ٹیڑھے سے ٹیڑھے نو سدّھا کرسکدی اے۔ ‘ بہر حال یہ ان کی اپنی ذاتی رائے ہے، ہم نے آپ تک پہنچادی۔دروغ برگردنِ راوی درلاہور۔۔۔
ہم نے پہلے کبھی اس طرح سپہ سالاروں کی تبدیلی ہوتے ہوئے نہیں دیکھی تھی، اسی لیے ہمیں اب یہ سمجھ آئی (پہلے آکر چلی جاتی تھی۔۔۔) کہ دراصل ساری طاقت تو اسی چھڑی میں مُضمِر ہے۔ پاکستانی تاریخ یہ دلائل دیتی ہے کہ جس نے بھی اس چھڑی کا جادو استعمال کیا، وہ ایک طویل عرصہ تک حکمرانی کرتا رہا۔ جب بھی یہ چھڑی کمزور پڑی، اس کا سحر بھی ٹوٹا، اور اس سے قبل سحرزدہ لوگ اچانک بیدار ہوکر کہنے لگے،”ہم کہاں کھڑے ہیں؟!!“ اکثر صورتوں میں یہ پتہ چلا کہ وہ تمام ترلمبی لمبی پریڈوں کے باوجود ابھی تک وہیں موجود ہیں، جہاں سے کئی برس پہلے آغازِ سفر کیا تھا۔ بس اس پر عوام کا دل ٹوٹ جاتاہے، اور وہ دل گرفتہ حالت میں دیگر عاملوں، سیاستدانوں، اور کسی زیادہ طاقت ور جادوگر کی جانب مسیحائی اور رہنمائی کے لیے دیکھنے لگتے ہیں۔ اور ان میں اکثر پڑھے لکھے لوگ مرزا غالب کا یہ مصرعہ کسی منتر کی طرح گُنگُنانے لگتے ہیں:
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ ”جاو¿ں کدھر کو مَیں“
اور ان میں سے جو زیادہ پڑھے لکھے ہیں، وہ یہ شعر پڑھتے ہیں©:
چلتاہوں تھوڑی دور، ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اور چونکہ پاکستان میں پڑھے لکھے لوگ نسبتاّ کم ہیں، وہ زیادہ تر خاموش ہی رہتے ہیں۔ اور دل ہی دل میں کُڑھتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ہی جو افراد بولنے کی جراءت رکھتے ہیں، وہ سیاستدان کہلاتے ہیں۔ تاہم ان میں سے اکثر اپنی زبان کا جادو ہی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا جادوبھی جب ٹوٹتاہے تو عام لوگوں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ تاہم دماغ سُن ہی رہتاہے، مگر اس دوران ان بڑا بول بولنے والوں کی جیبیں بھاری ہوچکی ہوتی ہیں۔ ان ہی جادوئی کمالات کی وجہ سے پاکستان کے گوشہِ گوشہِ میں ہرسفید دیوار پر کالے جادو کے ماہرعاملوں کے اشتہارات کالے رنگ سے لکھے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں یہ کہاوت عام ہے کہ ’جادو برحق ہے، مگرکرنے والا کافرہے۔‘ تاہم چونکہ پاکستانی جادوگر کافر نہیں، بلکہ مسلمان ہی ہیں، چنانچہ یہ صاف ظاہر ہے یہ کہاوت دراصل حسیناو¿ں کے سحر کے ضمن میں مستعمل ہوگی، یعنی کافر حسیناو¿ں کے لیے۔
اب یہ سوال ہے کہ ہمارے جناب صدر پرویز مُشرّف صاحب فوج سے ریٹائر ہونے کے بعدملکی معاملات کو چلانے کے لیے کن طاقتوں پر انحصار کریں گے۔ جادوئی چھڑی تو اب ان کے پیش رو کے ہاتھوں میں جاچکی ہے، وہ نہتّے کھڑے ہیں۔ اور جناب صدر صاحب کی معاون پارلیمان بھی اب موجود نہیں رہی۔ دوسری جانب پارلیمان سے خارج ہونے والے ممبران، اور دیگر بھوت پریت بھی۔۔ اگر وہ اس جادوئی دنیا میں موجود تھے، اب آزاد پنچھیوں کی طرح دانہ دنکاکے لیے پھدُکتے پھر رہے ہیں۔ کبھی اِس ڈال پر، کبھی اُس ڈال پر۔۔۔دیکھنا یہ ہے کہ کس کے پاس مضبوط جال ہے، اور وہ کس کے دام میں آئیں گے۔ جہاں تک ہمارے پیارے جنابِ صدر صاحب کا تعلّق ہے تو ان کی کیفیت اِس وقت اُس مہم جو کوہِ پیما جیسی ہے جو ماو¿نٹ ایورسٹ، اور کے ٹو ماو¿نٹ گڈون جیسی اعلیٰ ترین اور خطرناک ترین برفانی چوٹیوں کو فتح کرنے کے بعد تنہا ہی کھڑاہو۔۔ اور اب اسے اپنے ان ساتھیوں اور معاونین کی تلاش ہو جو اس کا ساتھ بیس کیمپ پر ہی چھوڑ کرہمّت ہار بیٹھے ہوں۔ اب جب کہ نہ تو رسمی طور پر ان کا روایتی پلیٹ فارم فوجی کورکمانڈرز پاو¿ں تلے رہا، اور نہ ہی مفاد پرست سیاستدانوں کی ٹولیاں رہیں، تو اب وہ اپنی فتوحات کے بعدایک اور منزل طے کرنے کے لیے ایک ایسے میدان میں داخل ہورہے ہیں ، جو زمینی بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے، اور اس پر ہر قدم پھوُنک، پھوُنک کر رکھنا ہے۔ یہاں ایک تنہا کمانڈو کی صلاحیّتوں کا آخری اور اصلی امتحان ہے۔ کیا وہ لُٹیروں کو گرفتار کرسکے گا، کیا وہ ان کی بھری ہوئی جیبوں کو خالی کراکر عوام کو خوش حال کردے گا، کیا وہ ٹیڑھی نیتوں کو سیدھا کرادے گا؟؟؟ اس ڈرامائی منظر کو پاکستانی دم سادھے، اور بین الاقوامی ناظرین ایک دل چسپ وڈیو گیم کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ تماشبینوں میں دعا کرنے والے، اور دعا نہ کرنے والے، ہر قماش کے لوگ شامل ہیں۔۔۔ مگر بقول شاعر، جو ہمیں ہر مشکل بیانیہ میں مدد دینے آحاضر ہوتا ہے،:
مُدّعی لاکھ براچاہے تو کیا ہوتاہے
وہی ہوتاہے جو منظورِ خدا ہوتاہے
پیارے قارئین، اگلے سین تک آپ کا اور ہمارا بھی، اللہ ہی حافظ۔
٭
جمعرات، ۹۲ نومبر ۷۰۰۲ئ
(c) 2007 Justuju Publishers - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Publishers, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license
جادُوئی چھڑی!
محمد بن قاسم
برطانوی مُصنّفہ، جے کے رو¿لنگ (جو آن کیتھلین رو¿لنگ )نے ہر عمر کے پڑھنے والوں کے لیے ایک جادوئی دنیا تخلیق کی۔ اس خیالی دنیا میں اس نے ہیری پوٹر کو ہیرو، اور اس کے ساتھیوں ہرمیونی، رون، وغیرہ کو اس کا مددگار بنایا۔ اس خاتون نے جو جہانِ حیرت پیش کیا، اس میں نہ صرف وولڈی مارٹ جیسے خون آشام ولن تھے، بلکہ اس میں ڈمبل ڈور جیسے نیک دل اور ماہر جادو گر بھی تھے۔ محبت، نیکی اور بدی کی کشمکش، چند پراسرار کردار،مافوق الفطرت پرندے ، چرندے، اور حشرات الارض، اور جادوئی کمالات سے پُر، ہیری پوٹر کے سات عدد ناول نشرواشاعت کی تاریخ میںالہامی مذہبی کتابوں کے علاوہ سب کو پیچھے چھوڑ گئے، اور یہاں تک کہ جے کے رو¿لنگ ملکہ ءبرطانیہ سے بھی زیادہ امیراور امریکی ڈالروں کے حساب سے ارب پتی ہوگئی۔ رو¿لنگ نے ایک نئے داستانی کھیل’کوئیڈچ‘ کو بھی متعارّف کرایا، جو جادوئی جھاڑوو¿ں پر بیٹھ کر فضاءمیں بلند ہوکر ہاکی کی طرح کھیلا جاتاہے۔ تمہید کچھ طویل ہوتی جارہی ہے، اور آپ بھی سوچنے لگے ہوں گے، آج ہمیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔ ویسے یہ سوچ ہماری بیگم تو روزِ اوّل سے ہی رکھتی ہیں، اور مزے لے لے کر ہمارے©’ کارنامے اور خامہ خیالیاں‘ اسی انداز میں اپنی سہیلیوں اور ملنے جلنے والوں کو سناتی ہیں، جس طرح ایک خاتون کو جب یہ پتہ چلا کہ فضاءمیں اڑتے نظر آنے والا اجنبی شخص اورکوئی نہیں، بلکہ ان کے شوہرِ نام دار ہی ہیں، تو وہ کہنے لگیں کہ اچھّا، اسی لیے ©تو ٹیڑھے، ٹیڑھے اڑُ رہے تھے آپ۔۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے، ان تمام لذیذ قصائص کو سب سے زیادہ دل چسپی سے ہماری ساس محترمہ ہی سنتی ہیں، اور کانوں کو ہاتھ لگاتی ہیں۔۔۔ جی ہاں، آپ میں سے سمجھ دار قارئین صحیح کہہ رہے ہیں، ان کے ہاتھوں میںوہ کان ہمارے ہوتے ہیں۔ خیر، دیکھیے، اصل بات یہ ہے، کہ ہم یہ سوچ رہے تھے، کہ اگر ہیری پوٹر کے ناولوں میں سے اس کی جادوئی چھڑی Magic Wand کو نکال دیا جائے تو وہ بے چارہ کسی بھی کھاتہ میںنہ رہے گا۔ بالکل اسی طرح، جیسے کہ ہمارے سپہ سالار کے ہاتھ میں روایتی اور جادوئی کمالات رکھنے والی چھڑی Baton ہوتی ہے۔ چنانچہ، جب ہمارے ریٹائر ہونے والے چیف آف اسٹاف جناب جنرل پرویز مُشرّف نے اپنی ایسی ہی تاریخی چھڑی جناب جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالہِ کردی تو اس پر تمام دنیا کے میڈیا نے اس چھڑی پر بھی توجّہ مرکوز کردی، اور یہ امر ڈھونڈ نکالا کہ یہ جادو کی چھڑی رومیوں کے زمانہِ سے اعلیٰ فوجی کماندار کے لیے ایک علامت کا درجہ رکھتی ہے، اگرچہ پاکستان میں اس روایت کو اپنائے رکھنے کے دیگر اسباب بھی ہیں۔ محاورتاّ فوج ڈنڈا چلانے کی ماہرسمجھی جاتی ہے، اگرچہ آج کی پاکستانی پولیس بھی اس عزّت کے لیے مقابلہ کررہی ہے، چنانچہ یہ جادوئی چھڑی سپہ سالار کے ہاتھ میں ہو تو کیا بات ہے۔ جیسا کہ ہم سب پاکستانی جانتے ہیں کہ یہ چھڑی سیدھی ہو تو اس سے صحیح احکامات جاری کیے جاسکتے ہیں، ورنہ اگر یہ ذرا بھی ٹیڑھی ہو تو مشرقی پاکستان جیسا نتیجہ بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔ ہمارے یہ خیالات سن کر جناب کوٹ لکھپتی کہنے لگے کہ ’پرا جی، نیت سدّھی ہو، تے ٹیڑھی جادودی چھڑ ی وی ٹیڑھے سے ٹیڑھے نو سدّھا کرسکدی اے۔ ‘ بہر حال یہ ان کی اپنی ذاتی رائے ہے، ہم نے آپ تک پہنچادی۔دروغ برگردنِ راوی درلاہور۔۔۔
ہم نے پہلے کبھی اس طرح سپہ سالاروں کی تبدیلی ہوتے ہوئے نہیں دیکھی تھی، اسی لیے ہمیں اب یہ سمجھ آئی (پہلے آکر چلی جاتی تھی۔۔۔) کہ دراصل ساری طاقت تو اسی چھڑی میں مُضمِر ہے۔ پاکستانی تاریخ یہ دلائل دیتی ہے کہ جس نے بھی اس چھڑی کا جادو استعمال کیا، وہ ایک طویل عرصہ تک حکمرانی کرتا رہا۔ جب بھی یہ چھڑی کمزور پڑی، اس کا سحر بھی ٹوٹا، اور اس سے قبل سحرزدہ لوگ اچانک بیدار ہوکر کہنے لگے،”ہم کہاں کھڑے ہیں؟!!“ اکثر صورتوں میں یہ پتہ چلا کہ وہ تمام ترلمبی لمبی پریڈوں کے باوجود ابھی تک وہیں موجود ہیں، جہاں سے کئی برس پہلے آغازِ سفر کیا تھا۔ بس اس پر عوام کا دل ٹوٹ جاتاہے، اور وہ دل گرفتہ حالت میں دیگر عاملوں، سیاستدانوں، اور کسی زیادہ طاقت ور جادوگر کی جانب مسیحائی اور رہنمائی کے لیے دیکھنے لگتے ہیں۔ اور ان میں اکثر پڑھے لکھے لوگ مرزا غالب کا یہ مصرعہ کسی منتر کی طرح گُنگُنانے لگتے ہیں:
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ ”جاو¿ں کدھر کو مَیں“
اور ان میں سے جو زیادہ پڑھے لکھے ہیں، وہ یہ شعر پڑھتے ہیں©:
چلتاہوں تھوڑی دور، ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اور چونکہ پاکستان میں پڑھے لکھے لوگ نسبتاّ کم ہیں، وہ زیادہ تر خاموش ہی رہتے ہیں۔ اور دل ہی دل میں کُڑھتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ہی جو افراد بولنے کی جراءت رکھتے ہیں، وہ سیاستدان کہلاتے ہیں۔ تاہم ان میں سے اکثر اپنی زبان کا جادو ہی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا جادوبھی جب ٹوٹتاہے تو عام لوگوں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ تاہم دماغ سُن ہی رہتاہے، مگر اس دوران ان بڑا بول بولنے والوں کی جیبیں بھاری ہوچکی ہوتی ہیں۔ ان ہی جادوئی کمالات کی وجہ سے پاکستان کے گوشہِ گوشہِ میں ہرسفید دیوار پر کالے جادو کے ماہرعاملوں کے اشتہارات کالے رنگ سے لکھے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں یہ کہاوت عام ہے کہ ’جادو برحق ہے، مگرکرنے والا کافرہے۔‘ تاہم چونکہ پاکستانی جادوگر کافر نہیں، بلکہ مسلمان ہی ہیں، چنانچہ یہ صاف ظاہر ہے یہ کہاوت دراصل حسیناو¿ں کے سحر کے ضمن میں مستعمل ہوگی، یعنی کافر حسیناو¿ں کے لیے۔
اب یہ سوال ہے کہ ہمارے جناب صدر پرویز مُشرّف صاحب فوج سے ریٹائر ہونے کے بعدملکی معاملات کو چلانے کے لیے کن طاقتوں پر انحصار کریں گے۔ جادوئی چھڑی تو اب ان کے پیش رو کے ہاتھوں میں جاچکی ہے، وہ نہتّے کھڑے ہیں۔ اور جناب صدر صاحب کی معاون پارلیمان بھی اب موجود نہیں رہی۔ دوسری جانب پارلیمان سے خارج ہونے والے ممبران، اور دیگر بھوت پریت بھی۔۔ اگر وہ اس جادوئی دنیا میں موجود تھے، اب آزاد پنچھیوں کی طرح دانہ دنکاکے لیے پھدُکتے پھر رہے ہیں۔ کبھی اِس ڈال پر، کبھی اُس ڈال پر۔۔۔دیکھنا یہ ہے کہ کس کے پاس مضبوط جال ہے، اور وہ کس کے دام میں آئیں گے۔ جہاں تک ہمارے پیارے جنابِ صدر صاحب کا تعلّق ہے تو ان کی کیفیت اِس وقت اُس مہم جو کوہِ پیما جیسی ہے جو ماو¿نٹ ایورسٹ، اور کے ٹو ماو¿نٹ گڈون جیسی اعلیٰ ترین اور خطرناک ترین برفانی چوٹیوں کو فتح کرنے کے بعد تنہا ہی کھڑاہو۔۔ اور اب اسے اپنے ان ساتھیوں اور معاونین کی تلاش ہو جو اس کا ساتھ بیس کیمپ پر ہی چھوڑ کرہمّت ہار بیٹھے ہوں۔ اب جب کہ نہ تو رسمی طور پر ان کا روایتی پلیٹ فارم فوجی کورکمانڈرز پاو¿ں تلے رہا، اور نہ ہی مفاد پرست سیاستدانوں کی ٹولیاں رہیں، تو اب وہ اپنی فتوحات کے بعدایک اور منزل طے کرنے کے لیے ایک ایسے میدان میں داخل ہورہے ہیں ، جو زمینی بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے، اور اس پر ہر قدم پھوُنک، پھوُنک کر رکھنا ہے۔ یہاں ایک تنہا کمانڈو کی صلاحیّتوں کا آخری اور اصلی امتحان ہے۔ کیا وہ لُٹیروں کو گرفتار کرسکے گا، کیا وہ ان کی بھری ہوئی جیبوں کو خالی کراکر عوام کو خوش حال کردے گا، کیا وہ ٹیڑھی نیتوں کو سیدھا کرادے گا؟؟؟ اس ڈرامائی منظر کو پاکستانی دم سادھے، اور بین الاقوامی ناظرین ایک دل چسپ وڈیو گیم کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ تماشبینوں میں دعا کرنے والے، اور دعا نہ کرنے والے، ہر قماش کے لوگ شامل ہیں۔۔۔ مگر بقول شاعر، جو ہمیں ہر مشکل بیانیہ میں مدد دینے آحاضر ہوتا ہے،:
مُدّعی لاکھ براچاہے تو کیا ہوتاہے
وہی ہوتاہے جو منظورِ خدا ہوتاہے
پیارے قارئین، اگلے سین تک آپ کا اور ہمارا بھی، اللہ ہی حافظ۔
٭
جمعرات، ۹۲ نومبر ۷۰۰۲ئ
(c) 2007 Justuju Publishers - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Publishers, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license
No comments:
Post a Comment