[size=4][right]
جستجو
حکمت اور دانش سے لبریزگفتگو اور مباحث
[/right]
[center]
سارے آئینے توڑ دو!
اس میں نظر آنے والا چہرہ مجھے خوف زدہ کردیتا ہے ۔۔۔
محمد بن قاسم
eMail: justujumedia@gmail.com
[/center]
[right]پرنٹ میڈیا، ریڈیو، ٹیلی ویژن، فون، فیکس، موبائل فون، ای میل، انٹرنیٹ، یہ تمام جدید ذرائع ابلاغ ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا، ایک ایسا زمانہ بھی گزرا، جب کہ ڈاک کے ہرکارے ہی صرف کسی نہ کسی سواری کے ذریعہ خطوط لے جاتے، اور اس طرح دیس بدیس، پیغامات کے تبادلے ہوتے۔ خط جانے، آنے میں اتنا وقت لگتا کہ موسم تبدیل، اوربعض صورتوں میں نسلیں بھی بدل چکی ہوتیں۔ اس ضمن میں خود برطانوی متحدہ ہندوستان میں وقوع پذیر ہونے والی ایک تحریک آزادی کا نام لیا جاسکتا ہے، جو ریشمی رومالوں پر چند خطوط تحریر کرنے سے شروع ہوئی، جس کے ایک نمائندہ کردار دیوبندی مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔ اس تحریک کا زمانہ پہلی جنگ عظیم کا ہے، جو 1914 سے 1918 تک ہوتی رہی۔ یہ تحریک تو ناکام ہوئی، مگر بعد میں جدید ذریعہ ابلاغ، مثلاً اخبارات، فون، او ر ریڈیو نے کانگریس اور مسلم لیگ وغیرہ کے پیغامات کو عام کرنے میں مدد دی، اور جلسے جلوسوں کے ساتھ ساتھ ان تمام ذرائع نے آخر کار 1947میں ہمیں ایک آزاد مملکت خداداد، پاکستان عطا کردی۔
بعد میں پاکستان کے دونوں حصّوں، مغربی اور مشرقی پاکستان کے عوام کے درمیان تقسیمِ وسائل اور حقوق کی ایک ایسی جنگ شروع ہوئی، جس نے بالآخر 1971 میں دونوں حصّوں کو علیحدہ علیحدہ ممالک میں تقسیم کردیا۔ اس دوران ہمارے ذرائع ابلاغ ’سب اچھا ہے‘ کے راگ الاپتے رہے، اور حقیقی تصویر عوام تک نہ پہنچاسکے۔ جب مشرقی پاکستان کے باسیوں نے مکمل آزادی سے کم کسی امر پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا تو مغربی پاکستانی ششدر رہ گئے، اور اس وقت کی فوج نے اس بدقسمت سیاسی بھنور میں پھنس کرعالم اسلام کی سب سے بڑی شکست کی تاریخ رقم کی۔
کاش اس وقت ایسا ہی آزاد میڈیا ہوتا، جیسا کہ آج ہے۔ ہم شرطیہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی صورت میں دونوں حصّوں کے عوام بات چیت، بحث ومباحثہ میں مشغول رہتے اور اپنے مسائل حل کرڈالتے، اور فوج بھی چین کی بنسری بجاتی رہتی۔
آج پاکستانی جدیداورنیم آزاد میڈیا، جس کا سرخیل ٹیلی ویژن ہے، ایک ایسے تشکیلی دور سے گزر رہا ہے، جہاں اس کا کردار متعین ہونے میں متنوع مفادات آپس میں ٹکرارہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑھ کر بدعنوان، مجرم صفت، ایسے افراد ہیں جو کسی نہ کسی طرح اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہوچکے ہیں۔ جدید میڈیا ان کے لیے ایک ایسے آئینہِ کی حیثیت رکھتا ہے، جو انہیں ہر طرف سے گھیرے رکھتا، اور ان کی شکل انہیں دکھاتا رہتا ہے۔ ایسے آئینے جو گواہی دیتے اور مناظر دکھاتے ہیں، اس سے ان آئینہ دیکھنے والوں کو خوف آتا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا کہ ان کے چہرے اس قدر بھیانک ہوچکے ہیں۔ چنانچہ، وہ ایسے تمام آئینوں کی شکست و ریخت کا حکم دے دیتے ہیں، تاکہ وہ اس خوف سے بچ کر ایک بے یقینی اور فریب آمیز زندگی میں مگن رہ سکیں۔
ایک زمانہ تھا کہ عوام کو جگانے اور انہیں کسی تحریک میں شمولیت کے لیے آمادہ کرنے کے لیے شعر و شاعری کی مجلسیں، جلسے جلوس، کتابیں یا اخبارات اور رسالے ہی کافی ہوتے۔ تاہم موجودہ دور میں ان عناصر کی اثرپذیری ٹیلی ویژن کے سامنے ماند پڑچکی ہے۔ پڑھے لکھے، وطن پرست، سلجھے ہوئے ذہن کے مالک، تحقیق اور مطالعہ کے خوگر، تاریخ کے اسباق سے واقف، اور تجزیہ نگاری کے فن سے آراستہ نئی نسل کے کئی صحافی عوام کی ذہنی تربیت اور رائے سازی میں ایک نمایا ں کردار ادا کررہے ہیں،ا ور اس امر میں مذہبی رہنمائوں،سیاستدانوں، شاعروں، اور ادیبوں سے آگے نکل گئے ہیں۔ ایسے چند ہم عصر پاکستانیوں میں انصار عباسی، لیاقت حسین، احمد غامدی، زید حامد،کامران خان، ندیم ملک، کاشف، ڈاکٹر شاہد مسعود، حامد میر، یاسمین منظور، شاہین صہبائی جیسے نام شامل ہیں۔
ان دانش وروں میں ڈاکٹر شاہد مسعود ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد 9/11 کے امریکی سانحہ کے بعد منظر عام پر آئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب کے شہروں طائف اور ریاض میں گزارا، اور ریاض کے پاکستانی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ڈی جے سائنس کالج کراچی، اور سندھ میڈیکل کالج کراچی سے طب کی ڈگری حاصل کی اور وہاں سرجری کی تعلیم بھی دی۔ اس دوران وہ ایک طالب علم کی حیثیت سے پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے بھی منسلک رہے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے دبئی سے 'اے آر وائی' ٹیلی ویژن سے اپنا ایک پروگرام شروع کیا، جس کا نام ویوز آن نیوز' تھا۔ اس میں ان کے متنوع بین الاقوامی موضوعات، اور اس وقت کی امریکی عراقی' جنگوں وغیرہ نے انہیں چٹپٹے پروگرام کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ بعد میں وہ اے آروائی سے اختلافات کے بعد جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک میں آگئے ۔ یہاں سے حکومت انہیں پاکستان ٹیلی ویژن لے گئی، اور وہاں بھی اس باکردار شخص نے بدعنوانیوں کے ایسے انکشافات کیے کہ انہیں وہاں سے بھی نکالا مل گیا۔ مگر ایک مرتبہ پھر جیو نے اپنے کھلے دل کے ساتھ انہیں خوش آمدید کہا۔
[img]http://www.geo.tv/11-24-2009/eng/11-24-2009_53492_l.gif[/img]
ڈاکٹر شاہد مسعود ایک سچے پاکستانی ثابت ہوئے۔ وہ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان بین الاقوامی سازشوں کا شکار رہتا ہے، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ در اصل عالم اسلام کے خلاف ایک ایجنڈا ہے۔ وہ لگی لپٹی کہنے کے بجائے سادہ اور راست بات کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ صحافتی سفارتکاری کے داﺅئو پیچ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ چنانچہ اس جذباتی رویہ کی بناءپر وہ ایک بڑی تعداد میں ناظرین میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب ایک محدود طبقہ ءفکر ان کے جذباتی انداز سے اتفاق نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ جیو نیٹ ورک نے بھی ان کے پروگرام کے لیے ایک مخصوص قانونی نوٹس تیار کیا جو ان کے ہر پروگرام سے پہلے دکھایا جاتا ہے، اور ان کے پروگرام کا نام بھی اسی کے مطابق رکھا گیا (میرے مطابق) ۔چنانچہ پیر 23 نومبر 2009 کے پروگرام میں جب وہ سامنے آئے تو ناظرین انہیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ ایک زیرزمین پناہ گاہ سے اپنا پروگرام نشر کررہے تھے۔ سوجی آنکھیں، رقت آمیز لہجہ، اور اپنی زندگی سے ایک مایوسانہ انداز فکر۔ انہیں چند پاکستانی حکومتی شخصیات کی جانب سے ہراسانی اور جان لیے جانے کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ اور متحدہ عرب امارات میں اپنے رابطوں کو استعمال کرتے ہوئے دبئی کی امارت سے ان کے پروگرام کو نشر کرنے پر ایک مرتبہ پھر پابندی عائد کرادی گئی ہے، اور یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ یہ پروگرام پاکستان آکر کرکے دیکھو، مزا چکھا دیا جائے گا۔
گزشتہ دنوں جب وہ ڈاکٹر بابر اعوان کا انٹرویو کررہے تھے، اسی وقت یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ ان کے چبھتے ہوئے براہ راست سوالات حکومتی عہدہ داران کے لیے ناقابل برداشت اور ناقابل معافی ہیں۔ ڈاکٹر شاہد نے کرید کرید کر متعدد بار بابر اعوان سے پوچھا تھا کہ کچھ تو بتائیے کہ حکومتی اعلی ترین شخصیت کے بنک اکاﺅنٹ میں 60 ملین ڈالر کی خطیر رقم کہاں سے اور کیوں کر آئی۔ اور ان سوالات کا جواب ایک ہی تھا ۔۔۔ خاموشی۔۔۔ یا ایران کا جواب توران ۔۔۔ اسی انٹرویو کے دوران زچ ہوکر بابر اعوان بولے کہ ہم بھی دیکھتے ہیں کہ این آراو کے غیر موءثر ہونے پر ہمیں ضمانتیں کرانا ہوں گی، یا ’کسی اور‘ کو۔ چنانچہ اب ڈاکٹر شاہد مسعود کو خود ہی ایک مسیحا کی تلاش ہے، جو ان کی جان ایسے عناصر سے چھڑا سکے جو اب ان کی جان کے درپہ ہیں۔ اب تو این آر او بھی انہیں سایہ فراہم نہیں کرسکے گا۔
موجودہ پاکستانی سیاسی منظر نامہ کوئی خوش آئند نہیں ہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے آپس میں کچھ گٹھ جوڑسا کیا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے ان کے ایک جیسے ذاتی مفادات وابستہ ہیں، جسے ’من ترا حاجی بگویم، تو مرا حاجی بگو‘ جیسی صورت حال کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں جب کہ ایک موءثر حزب اختلاف موجو د نہیں، نوزائیدہ پاکستانی جدید میڈیا کے ناتواں کندھوں پر ہی یہ ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ ملکی مفادات کے خلاف ہونے والے اقدامات کے خلاف آواز اٹھاتا رہے۔ دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ فوج خود ہی لڑ رہی ہے، اور اس میں حکومت کی شرکت خاطر خواہ سطح کی نظر نہیں آتی۔۔ بجز اس کے کہ وزیر داخلہ گرما گرم بیانات دیتے نظر آتے ہیں۔
پیارے قارئین، آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ایسے تمام بہادر اور باکردار صحافی حضرات کو جو معاشرتی، اور حکومتی بدعنوانیوں کے پردے چاک کرتے ہیں، ڈھکی چھپی دھمکیوں اورحقیقی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود ، جو ایسے آڑے وقت میں محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کو بھی یاد کررہے تھے، ان کا ساتھ دینے کون آگے بڑھتا ہے۔ امید ہے کہ اس کڑے وقت میں نہ تو جیو نیٹ ورک ان کا ساتھ چھوڑے گا، اور نہ ہی آزاد دنیا کے صحافتی اور انسانی حقوق کے ادارے، اور نہ ہی ان کے ناظرین۔[/right]
[center]
٭
23112009 - Tuesday, 23 November 2009
اگر کسی قوم کے رہنما خود روشن خیالی سے عاری ہوں تو ان کی ماتحت بھی ہمیشہ تاریکی میں ہی رہیں گے۔۔۔
( ایک چینی کنگ فو کہاوت)
Justuju Media (c) 2009 All Rights Reserved
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
This is a widely syndicated Column. No editing is allowed. It must be published "as is". The intellectual property rights are asserted under the Pakistani and International Copyrights laws.
The Justujumedia hereby grants a fair usage license for publishing this piece without any changes.[/center][/size]
سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں
ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں
Justuju Tv جستجو ٹی وی
Wednesday, November 25, 2009
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment