Self-less Posture of Zardari زرداری اور ذاتی مفادات کی قربانی
محمد بن قاسم
eMail: justujumedia@gmail.com
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ ء تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پاکستانی صدرِ محترم چونکہ چین سے بہت محبت کا اظہار کرتے ہیں، ہم ان کی خدمت میں چین کے ایک فلسفہ ءحیات ڈا ﺅزم کے چند پہلو پیش کردیتے ہیں۔
تقریباً ڈھائی ہزار برس پہلے چین میں ایک دیومالائی شخصیت پیدا ہوئی، جس کا نام لاﺅژو تھا۔ یہ کنفیوشس کا ہم عصر، مگر اس سے کچھ بزرگ تھا۔ اسے آج گرینڈ ماسٹر، یا عظیم آقا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نے ایک ایسا فلسفہ ءحیات متعارف کرایا، جسے ڈاﺅ، یا تاﺅ، یعنی جنت کا راستہ کا نام دیا گیا۔ اس کی تعلیمات میں انا کی شکستگی اور خاکساری پر زور دیا گیا، اور اس نے اپنے علاقہ سے گیان دھیان کے لیے گمنامی میں ہجرت کرنے سے پہلے اپنے مریدوں کی فرمائش پر ایک کتاب تحریر کی، جسے ڈاﺅ ٹی ژینگ، یعنی’ راہِ راستی اورطاقت’ کا عنوان دیا گیا۔ یہ ایک مختصر کتاب ہے، جو شاعری نما دل کش تحریر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں 81 باب ہیں۔
مرور وقت کے ساتھ یہ فلسفہءحیات ایک مذہب کی شکل اختیار کرگیا، اور اس میں کئی تبدیلیاں ہوئیں جو اپنے وقت کی آوا ز تھیں۔ بعد میں کسی وقت یہ دو بنیادی فرقوں میں بٹ گیا، ایک تو ڈئین شی کا ‘ایک اصولی’ فرقہ تھا، اور دوسرا گیانیوں کا۔ ایک اصولی افراد گاﺅں، گاﺅں، شہر، شہر پھرتے، ٹونے ٹوٹکے، جادو، تعویذ گنڈے کرتے اور خاصی حد تک ایک عام زندگی گزارتے۔ یہ جادو سکھانے کے اسی قسم کے مدرسے چلاتے جیسا کہ آج آپ ہوگوارٹس اسکول، ہیری پوٹر کی کہانیوں میں پڑھتے ہیں۔ دوسری جانب گیانی حضرات دور دراز ویرانوں، غاروں، پہاڑوں وغیرہ میں فطرت کی آغوش میں زندگی گزارتے، اور صرف گھاس پات، سبزیوں پر گزارا کرتے۔ یہ سب
فرقے اپنے دفاع کے لیے ورزشیں اور مشقیں بھی کرتے، جنہیں آج ہم کنگ فو کے نام سے جانتے ہیں۔ چین کا مشہور ترین شاﺅلین مندر ان ہی گیانیوں نے لگ بھگ ڈیڑھ ہزار برس قبل وسطی مشرقی چین میں تعمیرو آباد کیا۔ ان کا ہدفِ زندگی جسم و روح میں ایک ایسی ہم آہنگی پیدا کرنا ہوتا، جس سے وہ لافانیت اختیار کرسکیں۔ ان کے خیال میں ایسا اس صورت میں ممکن تھا جب کہ ین اور یانگ کی حالتوں میں وہ ایک توازنِ باہمی برقرار رکھ سکیں۔
ڈاﺅزم نے ین یانگ، یا دو متضاد طاقتوں اور حالتوں کے تصّور کو فروغ دیا۔ کہا گیا کہ دنیامیں ہر وقت دو متضاد اقسام کی حالتیں موجود ہوتی ہیں، اور ان کی موجودگی سے ہی ہم دن و رات، اچھائی اور برائی، سردی و گرمی،اندھیرا اور روشنی وغیرہ میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ یہ ایک دائری حالت ہے جو ہر وقت گھومتی رہتی ہے، کبھی دن، تو کبھی رات وغیرہ۔ اور کسی ایک خاص جگہ یہ متضاد صورتیں کسی حد تک ایک دوسرے میں مدغم بھی ہوا کرتی ہیں۔ چنانچہ، پاکستانی صدر صاحب کی شخصیت بھی ین یانگ کی قوتوں سے مزین نظرآتی ہے۔
پیارے دوستو، جیسا کہ ہمارے فلسفی شاعرعلامہ اقبال نے آبِ رواں کے حوالہ سے چند اشعار موزوں کیے تھے، لاﺅ ژو نے بھی اپنی کتاب ‘راہ راستی اور طاقت’ کے آٹھویں باب میں اپنے یہ خیالات شاعرانہ انداز میں پیش کیے ہیں:۔۔
Great good is said to be like water
وہ زندگی کو ایک ان دیکھے انداز میں سہارا دیتی ہیں
sustaining life with no conscious striving
وہ فطرتی انداز میں بہتی، غذائیت فراہم کرتی ہیں
flowing naturally, providing nourishment
وہ ایسی جگہوں پر بھی پائی جاتی، کی جاتی ، ہیں
found even in places
جنہیں خواہشات کے غلام رد کردیتے ہیں
which desiring man rejects
اس طرح
in this way
یہ نیکیاں بذاتِ خود سلامتی کا راستہ ہوتی ہیں
it is like Tao itself
پانی کی طرح ایک دانا شخص بھی معمولی جگہوں پررچ بس جاتاہے
Like water, the sage abides in a humble place
خواہشوں سے مبرّا، گیان ودھیان میں ڈوبا
in meditation, without desire
گہری سوچوں میں غرق
in thoughtfulness, he is profound
اپنے معاملات میں رحیم و کریم
and in his dealings, kind
راستی کے مسافر کو اپنے قول و فعل میں اخلاص کی رہنمائی حاصل رہتی ہے
In speech, sincerity guides the man of Taoٰ
اور بطور ایک رہنما، وہ عادل ہوتا ہے
and as a leader, he is just
کارکردگی میں اکمالِ فن اس کا ہدف ہوتاہے
In management, competence is his aim
اور وہ درست رفتار سے قدم بڑھاتا ہے
and he ensures the pacing is correct
اور کیونکہ وہ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے کام نہیں کرتا
Because he does not act for his own ends
اور نہ ہی وہ غیر ضروری تنازعات کھڑے کرتاہے
nor cause unnecessary conflict
اسی لیے اسے حق بجانب قرار دیا جاتاہے
he is held to be correct
ان تمام امور میں جو وہ اپنی رعایا/رفیقوں کے لیے سرانجام دیتا ہے
in his actions towards his fellow man
No comments:
Post a Comment