سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Tuesday, November 17, 2009

Self-less Posture of Zardari زرداری اور ذاتی مفادات کی قربانی

Self-less Posture of Zardari زرداری اور ذاتی مفادات کی قربانی

جستجو / حالاتِ حاضرہ

آبِ رواں
(Re-cycled)

محمد بن قاسم
eMail: justujumedia@gmail.com

Justuju Meda

آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

عالم نو ہے ابھی پردہ ء تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

ڈاکٹر علامہ اقبال … 1877-1938

علامہ اقبال اپنے شعری مجموعہ ضرب کلیم میں موجود ایک معرکتہ الآرا نظم ‘قرطبہ’ میں مندرجہ بالا اشعار کہہ گئے ہیں۔ یہ اشعار انہوں نے الحمراءمیں قرطبہ مسجد کے قریب بہتے ایک دریاالکبیر کو دیکھتے غوروفکر کرتے ہوئے موزوں کیے۔

ان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر یہ اشعار موجودہ سیاسی حالات پر منطبق ہونے جارہے ہیں۔ پاکستان کے لیے ایک نیا عالم ظہورمیں آرہا ہے، ایک نئے دور کی سحر طلوع ہوچکی ہے، ایک ایسا دن ، ماہ و سال، جس میں قوم کے لیے بے شمار امتحانات پنہاں ہیں۔ بشمول دیگر مسائل کے، دنیا کی سب سے بڑی قوت امریکہ اور اس کے اتنے ہی بے رحم ساتھیوں کی فوج کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی قومی غیرت و حمیّت کا دفاع کرنا ہوگا، جس کا قرض روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یہ دفاع ضروری نہیں کہ آنکھ کے بدلہ آنکھ کے فوجی اصول پر کیا جائے، اس کے اور بھی کئی پرُ امن طریقے ہوسکتے ہیں۔ ان میں سفارتی سطح پر احتجاج، کتابی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے فوجی معاہدوں کی سست روی سے پاسداری (سپلائی لائن میں رکاوٹیں: بالکل اسی طرح جیسے کہ امریکہ ہمیں ایف سولہ طیارے گزشتہ 30 برسوں سے آہستہ، آہستہ ، پرزہ بہ پرزہ دے رہا ہے)، اقوامِ متحدہ میں شکایات کے پلندے، اسلامک کانفرنس کے ممالک کے پلیٹ فارم سے احتجاج، وغیرہ شامل ہوسکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ تمام کا تمام قومی میڈیا بھی امریکہ پر پاکستانی قوم کے جذبات کو آشکارا کرتا رہے۔ ہماری پارلیمانیں ہر امریکی حملہ کے جواب میں قراردادِ مذمت پیش کرتی رہیں، تاکہ امریکی جان سکیں کہ جمہوری قوتیں بھی اپنے عوام کے جذبات کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔

پاکستانی صدرِ محترم چونکہ چین سے بہت محبت کا اظہار کرتے ہیں، ہم ان کی خدمت میں چین کے ایک فلسفہ ءحیات ڈا ﺅزم کے چند پہلو پیش کردیتے ہیں۔

تقریباً ڈھائی ہزار برس پہلے چین میں ایک دیومالائی شخصیت پیدا ہوئی، جس کا نام لاﺅژو تھا۔ یہ کنفیوشس کا ہم عصر، مگر اس سے کچھ بزرگ تھا۔ اسے آج گرینڈ ماسٹر، یا عظیم آقا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نے ایک ایسا فلسفہ ءحیات متعارف کرایا، جسے ڈاﺅ، یا تاﺅ، یعنی جنت کا راستہ کا نام دیا گیا۔ اس کی تعلیمات میں انا کی شکستگی اور خاکساری پر زور دیا گیا، اور اس نے اپنے علاقہ سے گیان دھیان کے لیے گمنامی میں ہجرت کرنے سے پہلے اپنے مریدوں کی فرمائش پر ایک کتاب تحریر کی، جسے ڈاﺅ ٹی ژینگ، یعنی’ راہِ راستی اورطاقت’ کا عنوان دیا گیا۔ یہ ایک مختصر کتاب ہے، جو شاعری نما دل کش تحریر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں 81 باب ہیں۔

مرور وقت کے ساتھ یہ فلسفہءحیات ایک مذہب کی شکل اختیار کرگیا، اور اس میں کئی تبدیلیاں ہوئیں جو اپنے وقت کی آوا ز تھیں۔ بعد میں کسی وقت یہ دو بنیادی فرقوں میں بٹ گیا، ایک تو ڈئین شی کا ‘ایک اصولی’ فرقہ تھا، اور دوسرا گیانیوں کا۔ ایک اصولی افراد گاﺅں، گاﺅں، شہر، شہر پھرتے، ٹونے ٹوٹکے، جادو، تعویذ گنڈے کرتے اور خاصی حد تک ایک عام زندگی گزارتے۔ یہ جادو سکھانے کے اسی قسم کے مدرسے چلاتے جیسا کہ آج آپ ہوگوارٹس اسکول، ہیری پوٹر کی کہانیوں میں پڑھتے ہیں۔ دوسری جانب گیانی حضرات دور دراز ویرانوں، غاروں، پہاڑوں وغیرہ میں فطرت کی آغوش میں زندگی گزارتے، اور صرف گھاس پات، سبزیوں پر گزارا کرتے۔ یہ سب

فرقے اپنے دفاع کے لیے ورزشیں اور مشقیں بھی کرتے، جنہیں آج ہم کنگ فو کے نام سے جانتے ہیں۔ چین کا مشہور ترین شاﺅلین مندر ان ہی گیانیوں نے لگ بھگ ڈیڑھ ہزار برس قبل وسطی مشرقی چین میں تعمیرو آباد کیا۔ ان کا ہدفِ زندگی جسم و روح میں ایک ایسی ہم آہنگی پیدا کرنا ہوتا، جس سے وہ لافانیت اختیار کرسکیں۔ ان کے خیال میں ایسا اس صورت میں ممکن تھا جب کہ ین اور یانگ کی حالتوں میں وہ ایک توازنِ باہمی برقرار رکھ سکیں۔

ڈاﺅزم نے ین یانگ، یا دو متضاد طاقتوں اور حالتوں کے تصّور کو فروغ دیا۔ کہا گیا کہ دنیامیں ہر وقت دو متضاد اقسام کی حالتیں موجود ہوتی ہیں، اور ان کی موجودگی سے ہی ہم دن و رات، اچھائی اور برائی، سردی و گرمی،اندھیرا اور روشنی وغیرہ میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ یہ ایک دائری حالت ہے جو ہر وقت گھومتی رہتی ہے، کبھی دن، تو کبھی رات وغیرہ۔ اور کسی ایک خاص جگہ یہ متضاد صورتیں کسی حد تک ایک دوسرے میں مدغم بھی ہوا کرتی ہیں۔ چنانچہ، پاکستانی صدر صاحب کی شخصیت بھی ین یانگ کی قوتوں سے مزین نظرآتی ہے۔


اگر دیکھا جائے تو جس قسم کے الزامات وغیرہ ان پر لگائے جاتے رہے ہیں، ان کے برعکس موجودہ دور میں وہ کچھ نمایاں کام کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں، مثلاً سترہویں ترمیم کا آئین پاکستان سے خاتمہ، بلوچستان کے زخموں پر مرہم، وغیرہ، تو ان کے یہ اقدامات گویا کہ ڈاﺅزم کے ین یانگ فلسفہ کے مطابق ہی ہیں۔

پاکستانی قوم البتہ یہ دعا کرسکتی ہے کہ اب صدر زرداری صاحب اس ین یانگ چکری میں زیادہ تر روشنی میں ہی رہیں نہ کہ اس کی متضاد حالت میں۔
کاش وہ خود اور اپنے اہل خاندان اور سیاسی ساتھیوں کو اس راستہ پر ڈال دیں جہاں ڈاﺅزم کی طرح ذاتی خواہشات کوختم کردیا جاتا ہے، اور آبِ رواں کی طرح ہر کٹھنائی سے اٹھکیلیاں کرتے گزرا جاتا ہے۔ جسے آج کی اصطلاح میں “گڈ گورننس” بھی کہا جاسکتا ہے۔ اقرباءپروری سے اجتناب، اور عدل و انصاف اور آئینی حکمرانی اس کے بنیادی ستون ہیں۔ کاش بلاول خود ہی تمام مشکوک دولت پاکستان کے قدموں میں ڈھیر کردے، اور اپنے تئیں ایک نئی صبح کا تروتازہ آغاز کردے۔

اگرچہ یہاں ہم چین کے حوالہِ سے اس فلسفہءحیات کو بیان کررہے ہیں، مگر ہمارا اپنا دین اور تاریخ صحابہ ءاکرام، اور تاریخ اہل بیت بھی اس امر پر صاد کرتی ہے کہ وہ سب دنیا کے مقابلہ میں دین اور آخرت کے منافع کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔

پیارے دوستو، جیسا کہ ہمارے فلسفی شاعرعلامہ اقبال نے آبِ رواں کے حوالہ سے چند اشعار موزوں کیے تھے، لاﺅ ژو نے بھی اپنی کتاب ‘راہ راستی اور طاقت’ کے آٹھویں باب میں اپنے یہ خیالات شاعرانہ انداز میں پیش کیے ہیں:۔۔

عظیم نیکیاں آب رواں جیسی ہوتی ہیں
Great good is said to be like water

وہ زندگی کو ایک ان دیکھے انداز میں سہارا دیتی ہیں
sustaining life with no conscious striving

وہ فطرتی انداز میں بہتی، غذائیت فراہم کرتی ہیں
flowing naturally, providing nourishment

وہ ایسی جگہوں پر بھی پائی جاتی، کی جاتی ، ہیں
found even in places

جنہیں خواہشات کے غلام رد کردیتے ہیں
which desiring man rejects

اس طرح
in this way

یہ نیکیاں بذاتِ خود سلامتی کا راستہ ہوتی ہیں
it is like Tao itself

پانی کی طرح ایک دانا شخص بھی معمولی جگہوں پررچ بس جاتاہے
Like water, the sage abides in a humble place

خواہشوں سے مبرّا، گیان ودھیان میں ڈوبا
in meditation, without desire

گہری سوچوں میں غرق
in thoughtfulness, he is profound

اپنے معاملات میں رحیم و کریم
and in his dealings, kind

راستی کے مسافر کو اپنے قول و فعل میں اخلاص کی رہنمائی حاصل رہتی ہے
In speech, sincerity guides the man of Taoٰ

اور بطور ایک رہنما، وہ عادل ہوتا ہے
and as a leader, he is just

کارکردگی میں اکمالِ فن اس کا ہدف ہوتاہے
In management, competence is his aim

اور وہ درست رفتار سے قدم بڑھاتا ہے
and he ensures the pacing is correct

اور کیونکہ وہ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے کام نہیں کرتا
Because he does not act for his own ends

اور نہ ہی وہ غیر ضروری تنازعات کھڑے کرتاہے
nor cause unnecessary conflict

اسی لیے اسے حق بجانب قرار دیا جاتاہے
he is held to be correct


ان تمام امور میں جو وہ اپنی رعایا/رفیقوں کے لیے سرانجام دیتا ہے
in his actions towards his fellow man


چنانچہ صدر پاکستان اگر لاﺅژو اور اس کے شاگردچوانگ ژو کے اس قدیم ڈھائی ہزار سالہ فلسفہ کو بھی سمجھیں، اور اگر آبِ رواں کی طرح ین یانگ کے روشن پہلو پر عمل پیرا ہوتے ہوئے قوم کو اپنے اعلیٰ افکار، اوراپنے قیمتی اثاثہ جات کے تحفے دیتے جائیں تو وہ تاریخ میں اپنا ایک ناقابل تحریف اور ناقابل فراموش مقام بنا لیں گے۔

٭

No comments:

Google Scholar