سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Showing posts with label Justuju. Show all posts
Showing posts with label Justuju. Show all posts

Saturday, August 13, 2011

JIRGA جرگہ


جستجو
حکمت اور دانش سے بھرپور تحریریں

JustujuQuestLogoAnimated.gif

جرگہ 

پاکستانی معاشرہ کی ”نیم حکیم“ عدالتوں کے طبیبوں اورمریضوں کا ایک احوال ، اور ایک انوکھا پہلو
یوم آزادی پر آپ کے غوروفکر کے لیے ایک تحفہ

 از: محمّد بن قاسم، جستجو

Justuju 008-2011 Jirga Shephard.jpg
ایک سخت گرم دن کی صورت میں جھلسادینے والی تپش برساکر اب سورج مغربی پہاڑوں کے پیچھے چھپنے کی تیّاری کررہا تھا۔ اس کا سُرخ چہرہ اس امر کی غمّازی کررہا تھا کہ وہ اپنا کام نامکمّل چھوڑ کر جانے پر سخت غُصّہ میں ہے، اور وہ دوسرے دن ایک بار پھر تپادینے والا عذاب لے کر آدھمکے گا۔ فی الوقت پہاڑوں اور ان کے دامن میں واقع وادیوں میں بسنے والے انسان، جانور، چرند و پرند، اپنی اپنی پناہ گاہوں کی جانب رواں دواں تھے۔

سمندر خاں نے ایک پہاڑی چٹان کے چھجّے کے نیچے ایک عارضی سایہ گاہ سے اپنی رائفل اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالی، اور پانی کی چھاگل اُٹھا کر اپنے منہ سے لگا کر اس سے چند قطرے پانی پینے کی ایک ناکام کوشش کی! چھاگل خشک ہوچکی تھی، اس خالی چھاگل کو بھی اس نے اپنی کمر سے بندھی ایک بیلٹ سے لٹکالیا، اور ایک موٹے سے ڈنڈے کی مدد سے اپنی بھیڑبکریوں کے گلّے کو جمع کرنا شروع کردیا۔ جلد ہی وہ اس ریوڑ کے کے پیچھے چلتا ہوا اپنے گاؤں کی جانب چل پڑا۔ وہ تاریکی ہوجانے سے پہلے ہی، جلد از جلد، گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ایک اور گرم دن میں جانوروں کی دیکھ بھال کرنے کے بعد اس وقت پیاس سے اس کا حلق خشک تھا، اور اس بُرے حال میں وہ بھوک بھی محسوس کررہا تھا۔

پہاڑی راستوں کے اونچے نیچے، پیچ درپیچ راستوں اور دشوارگذار پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے اس کے تھکے تھکے قدم اپنے ریوڑ کا بمشکل ساتھ دے پارہے تھے۔ جب کہ دور سے نظر آنے والا، گاؤں کے جھونپڑوں سے بل کھاتے ہوئے اُٹھتا ہوا دھواں اسے گھر کی جانب بڑھنے کی ہمّت عطا کررہا تھا۔ اس کے گھر پہنچتے پہنچتے اندھیرا مکمّل طور پر چھاچکا تھا، اور گاؤں کے آوارہ کُتّے بھونک بھونک کر اپنی بے چینی اور گرسنگی کا اظہار کررہے تھے۔ وہ کُتّے گاؤں کے مکینوں کی جانب سے رات کے کھانے کے بعد کچھ بچے کھچے روٹی کے ٹکڑوں میں اپنا بھی حصّہ ملنے کی اُمّید کررہے تھے۔ سمندر خاں کا گاؤں، سردار کلے، نزدیک ترین شہری آبادی سے 50 کلومیٹر کے فاصلہِ پر واقع تھا۔ مگر یہ فاصلہ کسی سیدھی، پکّی کیا، کچّی سڑک کی طرح بھی نہ تھا۔ اسے صرف پیدل، یا گھوڑوں، گدھوں، اور خچّروں کی مدد سے ہی بمشکل طے کیا جاسکتا تھا۔ اس علاقہ میں آزادی سے پہلے کسی جیپ کا گزر ہوا ہو تو ہوا ہو، مگر آزادی کے بعد سے قبیلہ کے بڑوں کی جانب سے کسی بھی مشینی گاڑی کو یہاں آنے جانے کی اجازت نہ تھی۔ کسی بھی مریض، اور خصوصی طور پر حاملہ خواتین، بوڑھوں اور بچّوں کو کسی بھی ہنگامی صورت حال میں شہری ہسپتال تک لیجانے میں ہی اکثرمریض اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔

سمندرخاں نے اپنے گھر کے دروازے پر جاکر ہلکے سے دستک دی۔ جانوروں کا ریوڑ نزدیک ہی واقع ایک کچّی دیوار کے احاطہ میں محفوظ کردیاگیا تھا۔ ” آجا بیٹا“، اس کی عمر رسیدہ ماں کی ایک نحیف سی آواز سنائی دی۔ السّلامُ علیکم کہتے ہوئے وہ ماں کے سامنے سے سرجھکا کر گزرگیا۔ اس کی ماں گزشتہ کئی روز سے کھانسی اور بخار کا شکارتھی، اور وہ اسے شہر سے دوائیں لاکر دینے، یا اسے خود ڈاکٹر کے پاس لیجانے یا کسی مناسب ہسپتال لے جانے سے بھی قاصررہا تھا۔ جانوروں کو چارہ کھلانے، اور ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے روز باہر لے جانا ضروری تھا، اور وہ اس بلاناغہ روزینہ میں تعطیل کرنے سے اپنے آپ کو عاجز پاتا تھا۔ شہر کے ہسپتال جانے اور آنے کا مطلب کم از کم تین روز کا سفر تھا۔ وہ گاؤں کے خان کا اس قدر مقروض ہوچکا تھا کہ اُسے جلد ہی اپنے جانوروں کے ریوڑمیں سے چند بہترین جانوروں کو فروخت کرکے قرضہ کی ایک موٹی قسط اداکرنے کا انتظام کرنے کا سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آتا تھا۔

سمندرخاں کی بیوی ثمینہ شاہین نے آگے بڑھ کر اسے پانی سے بھرا ایک پیتل کا پیالہ پیش کیا، جسے پیاسے سمندرخاں نے آب حیات کی طرح فوراً اپنے منہ سے لگالیا۔ اس دوران ثمینہ نے اس کے پاؤں سے چپلیں اتارکر ایک کنارے کردیں، اور بولی: ” سمندرخانا، تیری یہ چپلیں اب جواب دے گئی ہیں ۔ ۔ انہیں بدلنا ہی پڑے گا۔ آئندہ شہرکے دورہِ میں ایک نیا جوڑا لانا نہ بھولنا۔“ سمندرخاں نے ثمینہ پر ایک پیاربھری نرم نظر ڈالی، اور پھر اپنے آبلے پڑے پیروں کو پانی سے نتھار کر ایک سخت چارپائی پردراز ہوگیا۔ ماں کے لیے دوا، اس کا علاج، بیوی کے لیے کپڑے، بیٹے دریا خاں کے لیے کتابوں کا خرچ، ایک نئی خودکاربندوق اور کارتوسوں کا ذخیرہ ، خراب موسم میں جانوروں کے چارہ کا بندوبست، خان کا سودسے لدا قرضہ، گھر کے لیے آٹے دال کا بندوبست، یہ تمام کام وہ کس خوش قسمت دن مُکمّل کرسکے گا ! یا پھر وہ بھی اپنے آبآواجداد کی طرح کسی سخت پہاڑی کے دامن میں اپنی حسرتیں، ناتمام خواہشیں، سینہ میں دبائے ہمیشہ کے لیے سکون کی نیند سوجائے گا!! ” آ، سمندر خانا، روٹی کھالے“، ثمینہ کی پیارودرد بھری آواز نے اسے سوچوں کے دھاروں سے حقیقت کے کنارے لا پھینکا۔ وہ پیاز، مرچ،ٹماٹر، اور دہی کی لذیذ چٹنی گرماگرم موٹی سی روٹی کے ساتھ کھاکر، کنویں کا پانی مٹکے سے پی کر ، خدائے بزرگ وبرتر کا شکربجالایا۔ جلد ہی وہ تمام فکروں سے آزاد، دنیا و مافیہا سے بے خبر نیند کی گود میں جاچکاتھا۔ دوسری جانب دنیا، تیزی سے چکراتے ہوئے، سورج کے گرد اپنی گردش کا ایک اور چکّر مکمّل کرکے ان سنگلاخ پہاڑوں کے باسیوں کو ایک اور نئے گرم دن کا سامنا کرانے کے لیے بے چین سی نظرآرہی تھی۔
سمندرخاں اکثر خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر اپنی ناآسودہ خواہشات کوتکمیل پاتے دیکھتا۔ مگر ان خوابوں میں بسااوقات اُسے خوف زدہ کرنے والے عفریت بھی نظرآتے۔ گزشتہ دنوں اس نے وادی کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے ایک بڑے سے طیّارے کودیکھا، اور پھر اپنے زخم خوردہ پیروں اور ٹوٹی پھوٹی چپّلوں کو دیکھ کراس کی آنکھوں میں آنسوﺅں کے چند قطرے درآئے۔ جنہیں اس نے سُرعت سے پونچھ ڈالا، اور اپنے اطراف کا جائزہ لیا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کیا ہم اپنی اس قسمت کو بدل نہیں سکتے، کیا ہم ان اڑان بھرتے فولادی عُقابوں میں آسمانوں کو چھُوتے نظرآتے افراد سے کسی طور بھی دم خم میں کم ہیں، ! صبح فجرکی اذان سے اس کی آنکھ کھلی تو اس کا تکیہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ ”شاید دریا خان ہی پڑھ لکھ کر ایسے جہاز اڑانے والا جواں بن جائے ۔ ۔ ۔ پھر تو میں ماں اور ثمینہ کے ساتھ ہمیشہ اس کے جہاز ہی میں رہا کروں گا“، اس کے دل میں ایسی ہی بچکانہ خواہشات کا ایک تانتا سا بندھا رہتا۔ شہر سے وہ کبھی کبھی پرانے اخبارات اور رسالے لے آتا، اور وہ اور ثمینہ ان چھپی ہوئی رنگین تصاویر دیکھ کر ہوائی قلعے بناتے، اور خیالی پلاؤپکاتے۔ سمندرخاں کو ایسے اخبارورسائل کو اپنے قبیلہ کے بزرگوں سے چھُپاکررکھنا پڑتا، کیوں کہ اُن کے نزدیک یہ تصاویر دیکھنا کفر کے مترادف تھا۔ گاؤں میں سڑک بننے کا تصوّر ہی محال تھا، اور اس کے بغیر جدید شہری زندگی کی کسی بھی سہولت، اسکول، ہسپتال، اشیائے صرف، ڈاک، اور غیروں کا آناجانا، سب کچھ ہی ناممکن تھا۔قبیلہ کے بزرگ اور اکثرارکان ومکین اپنی کٹّر روایتوں کے امین تھے، اور کسی بھی روایت شکن کو بڑی سے بڑی سزا دینے سے گُریز نہ کرتے۔ گاؤں میں آئے دن جرگہ لگتا، جس میں سردارکلے کا خان اور جرگہ کے دیگر ارکان ایک دائرے میں بیٹھ کرمختلف جھگڑے چکاتے، الزامات عائد کرتے، اور پلک جھپکتے ہی من مانے فیصلے سناتے، اور مزاج اور موسم کے مطابق مختلف النّوع سزائیں دے ڈالتے۔ کبھی کبھی ایسی بیٹھکوں میں مقامی پولیٹیکل ایجنٹ، اور پارلیمانی رکن گل خان بھی موجود ہوتا۔ یہ شخص اسمبلی کا رکن بن جانے کے بعد اب گاؤں میں کم کم ہی نظر آتا اور کسی نہ کسی رسمی کام کے بہانے شہر ہی میں رہائش پذیر رہتا۔ وہ اور اس کا تمام خاندان اب شہر میں رہائش اختیار کرچکے تھے، اور ان کی موجودہ زندگی کے بارے میں قبیلہ کے ارکان کم ہی جانتے۔ رکن اسمبلی بن جانے سے پہلے گاؤں میں سڑک کی تعمیر، اور ترقّیاتی کاموں کی مُخالفت میں یہ شخص اور اس کے حواری سب سے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے، اور گل خان روایت شکنوں کے لیے سخت سے سخت جسمانی اور مالی سزا تجویز کرنے سے نہ چُوکتا۔

فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد میں اعلان کیا گیا، کہ آج بھی جرگہ منعقد ہوگا، اور اس میں کئی مقدمات پیش کیے جائیں گے۔ چنانچہ تمام مرد افراد مسجد کے قریب میدان میں ایک گھنٹہ بعد جمع ہوجائیں، تاکہ دن چڑھنے سے پہلے اور گرمی کے بڑھ جانے سے پہلے ہی کام مکمّل کیا جاسکے۔ سمندرخاں بھی چائے کی ایک پیالی اور سوکھی روٹی سے ناشتہ کرنے کے بعد میدان کی جانب چل پڑا۔ گاؤں کے سب اہم افراد جمع ہوچکے تھے، اور چند بزرگ اشخاص آپس میں چہ می گوئیاں کررہے تھے۔ سمندرخاں سرجھکائے میدان میں پہنچ کرایک جانب بیٹھ گیا۔ اس کے ذہن میں یہاں سے فارغ ہونے کے بعد کئی ضروری کام تھے، جن میں شہر جانے کا انتظام کرنا، چپلّوں کا ایک نیا جوڑا لانا، چند جانوروں کو فروخت کرکے دواؤں اور دیگر ضروریات زندگی کی خریداری بھی شامل تھی۔ سمندر خاں کے آجانے پر کئی بزرگوں کی نظریں اس کی جانب اُٹھ گئیں، مگر خاموش طبیعت، خوابوں کی دنیا کا باسی سمندرخاں اپنی سوچوں میں گُم، سرجھکائے اور اپنی نظریں زمین پر گاڑے جرگہ کی کارروائی کے انتظار میں گھڑیاں گنتارہا۔
Justuju 008-2011 Jirga.jpg

شاید وہ اسی طرح سوچوں میں گُم رہتا، اور جرگہ کے اختتام پر گھر چلاجاتا، مگر وہ اپنا نام سن کرچونک اُٹھا، اور گھبراہٹ میں کھڑاہوگیا۔ ” یہ میرا نام کس سلسلہ میں لیا گیا ہے“، وہ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا اور اس کی زبان نے ان الفاظ کو ابھی ادا تک نہیں کیا تھا کہ ایک بزرگ کی کرخت اور تحکّمانہ آواز نے اُسے مؤدّبانہ انداز میں بیٹھ جانے کی ہدایت کی۔ ”سمندر خاں، تمہارا بیٹا دریا خاں کافی عرصہِ سے گاؤں واپس نہیں آیا ہے، اور یہ پتہ چلا ہے کہ تم شہر سے اخباراور رسالے بھی لاکر دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہو! پھر گزشتہ کئی ماہ سے تم نے سردار کا قرضہ بھی ادا نہیں کیا۔ کیا تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟! “ سمندر خاں ابھی تک اس اچانک اُفتاد پر بحرءحیرت میں غوطے کھارہا تھا۔ اس نے اپنے حواس مجتمع کیے، اور اپنی پھٹی پرانی چپّل کو پاؤں میں گھسیٹتے ہوئے درست کیا، اپنی پگڑی سرپر ٹھیک کی، اور کھڑا ہوگیا۔ ” جناب، دریا خان تو ایک بڑے شہر میں کچھ کام کرنے اور پیسے کمانے گیا ہے۔ اور یہ پرانے اخبار اور رسالے تو اشیائے صرف کی خریداری کے وقت کاغذی تھیلوں اور ورق کی طرح لپٹے چلے آتے ہیں۔ جہاں تک قرضہ کا تعلّق ہے تو میں آج ہی شہرجاکر کچھ جانور بیچ کر گزشتہ اقساط ادا کردوں گا۔ میری ماں بھی بڑی بیمار ہے، اور مجھے اس کے لیے دواؤں کا انتظام بھی کرنا ہے۔ مجھے اس بارے میں ایک ہفتہ کی مہلت اور دی جائے۔ میں اور دریا خان مل کر یہ تمام قرض جلد ہی ادا کردیں گے، انشااللہ۔“ مگر اسے یہ دیکھ کر مزید حیرت ہوئی کہ جرگہ کے اراکین اور قرض خواہ کسی بھی ہمدردی کے مُوڈ میں نہ تھے۔ ’ ’ معلوم ہوا ہے کہ دریا خان شہر میں کام کرنے نہیں، بلکہ پڑھنے گیا ہوا ہے۔ چنانچہ ایک تو وہ بلا اجازت گاؤں کی تہذیب اور روایتوں سے فرار حاصل کرکے ان کی خلاف ورزی کا مُرتکب ہورہا ہے۔ اور دوسرے یہ بھی کہ وہ پڑھتے لکھتے کس طرح تمہاری کوئی بھی مالی مددکرسکے گا!!“ ابھی یہ جملے فضاء میں گونج ہی رہے تھے کہ ایک اور بلندآواز اٹھی: ” اس امر کی بھی کیا ضمانت ہے کہ تم شہر جانے کے بعد واپس بھی آؤ گے!!!“ یہ رکن پارلیمان ، گل خان کی آواز تھی۔ گزشتہ دنوں وہ اپنے پارلیمانی اقتدار اور طاقت کے نشہ میں شہر سے ایک پجیرو جیپ کسی نہ کسی طرح گاؤں کے اطراف تک لے آیا تھا۔ اس نمود ونمائش کا خمیازہ اسے جرگہ کی جانب سے ایک بڑے مالی جرمانہ، اور تمام بزرگوں اور مکینوں سے معافی مانگنے کی شکل میں دینا پڑا تھا۔ اس معاملہ کی آگ ابھی تک اس کے سینہ میں جل رہی تھی، اور وہ اس وقت سمندرخاں کے اوپر اپنا یہ غُصّہ بھی اتاردینا چاہتا تھا۔

ابھی دیگر معاملات بھی نمٹائے جانے تھے، اور سورج اب سرپرآتا جارہا تھا، فضاء میں تمازت اچانک بڑھ گئی تھی۔ سمندرخاں نے اپنی پگڑی کو، جو اب اس نے سر سے اتار کر اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تھی، اور وہ اسے بے چینی سے گھما پھرارہا تھا، ایک طرف کرکے اپنی پیشانی پر سے پسینہ کو پونچھا۔ جذباتی تلاطم کی وجہ سے اس کے سینہ میں دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اب جرگہ کی کسی ممکنہ سخت فیصلہ کی تلوار اسے اپنے سر پر لٹکتی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے زیرلب آیتہ الکرسی کی تلاوت شروع کردی،ا ور اللہ سے مدد چاہی۔ ” ٹھیک ہے، سمندرخاں“، جرگہ نے فیصلہ سنادیا، ” تم اپنے تمام جانور یہاں ضمانتاً چھوڑ کر جاؤ، اور دریا خان کو گاؤں لے کر آؤ۔ قرضہ کی رقم کے علاوہ، وعدہ خلافی اور روایات کی عدم پاسداری پر تم پر پچاس ہزار روپیے کا جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔ “ جرمانہ کی اتنی بڑی رقم کے بارے میں سن کر سمندرخاں کا سرچکراگیا، اور اس نے بمشکل اپنے توازن کو برقرار رکھا۔ اُسے آسمان اور زمین گھومتی محسوس ہورہی تھی۔ آج سورج بھی آگ برسانے میں شقاوت سے کام لے رہا تھا۔

سمندرخاں نے اپنی بندوق اٹھائی، ماں کو سلام کیا، اور بیوی ثمینہ کو خداحافظ کہہ کر شہر کی جانب چل پڑا۔ اس کے ریوڑ کے تمام جانور گاؤں کے ایک شخص کے احاطہ میں بطورضمانت پہنچائے جاچکے تھے۔ شہر پہنچتے پہنچتے وہ ننگے پیر ہوچکا تھا، ٹوٹی چپّلیں اسے راستہ میں ہی ترک کردینا پڑی تھیں۔ شہر کے قریب پہنچتے ہی اس نے ایک چھوٹی سے مسجد کے صحن میں پناہ لی۔ چند نمازیں ادا کرکے اس نے آسماں کی جانب بے بسی سے دیکھا، اور اپنے مسائل اور وسائل کا جائزہ لینے لگا۔ قرضہ کے دس ہزار، جرمانہ کے پچاس ہزار، اور علاج معالجہ اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے لیے بھی کچھ رقم درکار تھی۔ ” اب میں ایک لاکھ روپیہ کہاں سے لاؤں! اتنی بڑی رقم کا انتظام کسی نئے قرضہ سے بھی نہ ہوسکے گا، اور ایک غریب گاؤں کے باسیوں میں سے اس کی مدد کون کرسکے گا؟ “، وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔ وہ اپنے گاؤں کے بزرگوں کے غیر منظقی مطالبات پر جھنجھلا رہا تھا۔ مگر یہی وہ رواج و روایات تھیں، جن پر اس کے گاؤں کے باسیوں کو فخر تھا، اور وہ سینہ پھُلائے ، سر اٹھائے، ان روایتوں کی ہر قیمت پر حفاظت کرنے کا بیڑا اٹھائے رہتے۔ گاؤں کی عورتیں کسی قسم کے حقوق کے لیے آواز نہیں اُٹھاسکتی تھیں۔ چاہے وہ کسی عام مرض میں مُبتلا ہوں، یا مرض الموت میں، کسی قیمت پر وہ اپنے پردے سے باہر آکر کسی غیر طبیب کو اپنا جسم نہیں دکھا سکتی تھیں۔ حاملہ عورتیں کسی قسم کی جدید طبّی سہولتوں سے مستفید نہ ہوسکتیں۔ نہ ہی وہ عورتیں کسی قسم کے انتخابات میں ووٹ دینے کی حق دارمتصوّر ہوتیں۔ بس قبیلہ کے لیے نسلِ انسانی کی افزائش کی بے زبان مشینیں سی بن کر رہ گئی تھیں۔ گل خان کی پارلیمانی رکنیت بھی علاقہ میں کوئی تبدیلی کی لہر نہ لاسکی تھی، اور پولیٹیکل ایجنٹ بھی زیادہ تر قبیلہ کے ہمہ وقت مسلّح افراد سے ڈر کر اپنی جان کی خیر مناتا رہتا۔ البتّہ گل خان کی اپنی ذاتی زندگی یکسر بدل چکی تھی، اور وہ اپنے قبیلہ کی لاعلمی میں سردار کلے کی قدیم تہذیب سے دور اب دارالحکومت کی چکا چوند میں گھُل مل چکا تھا۔ تاہم اپنے علاقہ میں آکر وہ روایتی رسم و رواج کے رنگوں کا ہی لبادہ اوڑھ لیتا۔

عشاء کی نماز کے لیے نمازی جمع ہوچکے تھے، سمندرخاں مسجد کے باہر بنے وضو خانہ سے نکلا تو اندھیرا چھایا ہوا تھا، اور جماعت کھڑی ہوچکی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص ایک چادر میں جلدی جلدی مسجد کے باہر پڑے کچھ جوتے چپلیں سمیٹ رہا ہے۔ سمندرخاں کی آنکھوں میں خون اُتر آیا، اور، وہ اسے خنزیر کا بچہّ کہتے ہوئے اس کے اوپر جھپٹ پڑا۔ وہ کمزور شخص جلد ہی قابو میں آگیا، اور کچھ کہنے کے بجائے صرف غوں غاں کرنے لگا۔ شاید وہ ایک معذور فرد تھا۔ سمندرخاں نے اسے یکہ بعد دیگرے دو چار تھپّڑ مارے تو وہ نیچے گر پڑا، اور پھر خود نہ اُٹھ سکا۔ سمندر خاں کو اس کی حالت پر افسوس ہونے لگا، اور اس نے آگے بڑھ کر اٹھنے کا سہارا دیا۔ ” آخرتم کو ایسی کیا مار پڑی ہے کہ تم مسجد کو بھی نہیں بخش رہا ہے؟“، سمندر خاں نے اس چور کی نم آلود آنکھوں میں آنکھیں گاڑتے ہوئے سختی سے پوچھا۔ مگر جواب ندارد۔ کچھ ہچکچاتے ہوئے، اس گونگے اور نحیف شخص نے ایک مظلومانہ خاموشی کے ساتھ اپنی قمیص اُٹھا کر اپنا پچکا ہوا پیٹ سمندرخاں کے سامنے کردیا۔ مسجد کے دروازے سے باہر آنے والی ملگجی سی روشنی میں یہ منظر دیکھ کر سمندرخاں کے غُصّہ کا طوفان کسی جھاگ کی طرح اچانک بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد سمندر خاں مسجد کے باہر، اس شخص کے پیچھے تھکے قدموں سے چلا جارہا تھا۔ اس کے پیروں میں بھی ایک معمولی سی چپل نظر آرہی تھی۔ ” خدا مجھے معاف کرے“، وہ زیر لب بڑبڑارہا تھا۔

شہر کے بازاروں میں چراغاں کا سماں تھا۔ آزادی کے پچاس برس گزرجانے پر جشن طلائی منایا جارہا تھا۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن دکانوں پر شور مچارہے تھے۔ خریداروں کا ہر طرف ایک ہجوم تھا، کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ سمندرخاں نے بے فکری اورآزادی سے چلتے پھرتے، اور چمکتی دمکتی سڑکوں پر گھومتے ان مردوزن کو دیکھا، تو اس کے ذہن میں اپنے علاقہ کی حالتِ زار کا نقشہ کھنچ گیا۔ سرِ شام ہی اندھیرا، تنگ گلیوں میں کتّوں ، گیدڑوں، اور بھیڑیوں کا راج۔ ایسے میں کوئی مجبوری ہی اس اندھیرے میں کسی کو یہ خطرات مول لینے پر مجبور کرسکتی تھی۔ شہر کی جانب جانے والی پگڈنڈیاں اور راستے رات میں قطعی ناقابل عبور ہوتے۔ ان سوچوں میں گم اس کی نظر اچانک گل خان پر پڑگئی۔ وہ اپنے اہل خاندان کے ساتھ ایک چم چم کرتی لینڈ کروزر جیپ سے اتر کر ایک بڑی دکان میں داخل ہورہا تھا۔ گل خان کے لباس، اس کے اہل ِ خانہ کے زرق برق کپڑوں، بلا برقعہ بے پردہ سی بی بیوں اور بچّوں کو دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا۔ اس کی عقل نے اس حقیقت کو قبول کرنے سے یک سر انکار کردیا کہ یہ وہی پڑوسی خاندان ہے۔ خود خوابوں کی دنیا میں رہنے کے باوجود، سمندرخاں ابھی تک شہری سیاسی قوّت اور اس کے نشہ سے ناآشنا ہی رہا تھا۔ وہ اپنے ہم قبیلہ کے سماجی روّیہ میں اتنی بڑی تبدیلی ہضم کرنے سے قاصر تھا۔ اس وقت اس کے سامنے صرف اور صرف جرگہ کا فیصلہ، اور اس کے دوران گل خاں کا سخت کردار چکّر کھارہا تھا۔ اس نے بمشکل اپنے آپ پر قابو پایا، اور اپنی چادر میں چھپی رائفل پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ چادرمیں لپٹے ہوئے سمندرخاں کو کسی واقف کار کا پہچان لینا اس وقت ایک دشوار امر تھا۔ اس کے سینہ اور آنکھوں میں انتقام کی بجلیاں چمکنے لگی تھیں۔ وہ اس بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے سامنے ہی ایک نیم تاریک گوشہ میں مورچہ بند ہوکر بیٹھ گیا، جس میں گل خان اپنے خاندان کے ساتھ داخل ہوا تھا۔

گل خان خاصی دیر بعد شاپنگ کے تھیلوں سے لدا پھندا ، اکڑتا ہوا برآمد ہوا۔ اس کے لیے اور اس کے اہل خاندان کے لیے ڈرائیور اور باڈی گارڈ نے آگے بڑھ کر بڑے ادب کے ساتھ، سر جھکائے ہوئے، نظریں نیچی کیے ہوئے، جیپ کے دروازے کھول دیے۔ ” اب ، یا کبھی نہیں“، سمندرخاں نے سوچا، اور اس نے رائفل کی نالی سامنے کرتے ہوئے جیپ کی جانب دوڑلگادی۔ کئی فائروں کی آوازیں بلند ہوئیں، اور ہجوم میں ایک بھگدڑ مچ گئی۔ سمندر خاں کی چلائی ہوئی گولیاں، سپر مارکیٹ کے جزوقتی سیکیوریٹی گارڈ، دریا خان، کے جسم میں پیوست ہوچکی تھیں۔ وہ مارکیٹ کے ایک خفیہ سیکیوریٹی کیمرے کی مدد سے خاصی دیر سے اس مشتبہ شخص کو دیکھ رہا تھا، جو مارکیٹ کے سامنے ایک تاریک گوشہ میں چھپا ہوا تھا۔ دریا خان زخمی ہوجانے کے باعث فوری طور پر ہلاک ہوجانے والے مجرم کو نہ دیکھ سکا تھا، جسے گل خان کے محافظوں نے قابو پانے کے بعد وہیں درجنوں گولیاں مار کر چھلنی کردیا تھا۔ تاہم، دریا خان کی حاضر دماغی کے سبب نامعلوم حملہ آور کی گولیاں گل خان کے بجائے دریا خان کے جسم میں پیوست ہوچکی تھیں۔ فوری طور پر سب نے ہی اس بہادر گارڈ کی جرأت و ہمّت کو سراہا۔ 

ہلاک ہوجانے والے حملہ آور کی شناخت ہوجانے کے بعد، اور کسی حد تک صحت یابی حاصل ہوجانے پر، دریا خان سردار کلے میں موجود تھا۔ اس کی دادی، اور ماں اپنے میلے اور پرانے کپڑوں اور چادروں کی اوٹ سے اسے دیکھ کر آنسو بہارہی تھیں۔ مسجد کے قریب میدان میں ایک اور جرگہ شروع ہونے والا تھا، اور مجرم خاندان کا واحد وارث دریا خان سرجھکائے، اس حادثہ میں اپنی ایک معذور ہوجانے والی ٹانگ موڑے ہوئے، اپنے خاندان کے مستقبل کی فکر میں گم، بیساکھی سے زمین کُرید رہا تھا، اور اپنی قسمت کے فیصلہ کا منتظر تھا۔ گل خان اور اس کے عزیزوں کی خوں آشام نظریں دریا خان کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ سورج اپنی تمام تر تمازت کے ساتھ تیزی سے مشرق سے ابھر رہا تھا، اور ہر قسم کے غمِ دوراں سے بے نیاز دور سربفلک پہاڑوں کی چوٹیاں سورج کی کرنوں سے چمکنے لگی تھیں، اور ایک بڑا سا طیّارہ ان زمینی کارروائیوں سے لاپروا مغرب سے مشرق کی جانب اڑا چلا جارہا تھا۔
Justuju 008-2011 Shephard Rifle Close Up.jpg
٭

جستجو: حکمت و دانش سے بھرپور تحریریں: جملہ حقوق مصنف اور جستجو میڈیا کے نام محفوظ
”جرگہ “: منگل، 9 اگست 2011
(c) 1997-2011 - Justuju Media: JustujuTv@gmail.com - Justuju 008-2011 
All Rights Reserved - (C) Justuju Publishers / Justuju Media

Thursday, October 22, 2009

شہنشاہیت سے جمہوریت: چار صدیوں کادائری سفر



جستجو / حالاتِ حاضرہ
حکمت اور دانش سے لبریز تحریریں


شہنشاہیت سے جمہوریت: چار صدیوں کادائری سفر
محمد بن قاسم

?ui=2&view=att&th=1246aa9996da81a6&attid=0.1&disp=attd&realattid=ii_1246aa9996da81a6&zw

خود اپنے دل کے اندر اک جہاں موجود پاتا ہوں
اُسی کی سلطنت اچھّی، اُسی پر اختیار اچھّا
مری روزی نہ کی قُرق اُس نے میری سرکشی پر بھی
خداوندانِ لندن سے مرا پروردگار اچھّا
(مولانا ظفر علی خان، 1873-1956)

برس تھا 1614 ء ، اور برطانوی تاجر مشرقی مصالحہ جات کی پرکشش تجارتی درآمدات کے لیے ولندیزیوں اورپرتگالیوں سے مسابقت کررہے تھے، اور دوسری جانب ان کی فرانس سے بھی ان علاقوں پر تسلط کی جنگ جاری تھی۔ اسی دوران دیگر یورپی ممالک سے اپنی مسابقت بڑھانے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا ایک سفیر ہند بھیجنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ اس وقت کے مغل شہنشاہ نور الدین سلیم جہانگیر ابن جلال الدین اکبر کے دربار میں رسائی حاصل کرکے ہندوستانی سرزمین پر اپنے تجارتی دفاتر قائم اور سرگرمیاں شروع کرسکے۔ چند برس پہلے سن 1600 ءمیں ملکہ الزبیتھ اوّل نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کا شاہی فرمان جاری کیا تھا۔ جلد ہی یہ ادارہ ایک بڑی سماجی، معاشی، اور فوجی اہمیت بھی اختیار کرتا گیا۔

مغل شہنشاہیت کے دور میں ہندوستانیوں کی جانب سے ہمیں کسی بحری قوت اور دریافتی جدوجہد کے سفروں کی کہانیاں نہیں ملتیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام ہندوستانی حکمرانوں کے دور میں ایسے سمندر پار تاجر مہمانوں کی آمد ایک دہشت آمیزانوکھے اور دل چسپ موقع کی حیثیت رکھتی ہوگی۔ چنانچہ ایسے حکمران اور ان کے مشیران اور وزراء وسیع و عریض تجارتی اور سفارتی دفاتر کے قیام اور تعمیر میں مضمر خرابیوں کا ادراک نہ کرپائے، یا رومانوی مصروفیات، شراب و کباب و شباب، اور تحفہ تحائف کے نشہ نے ان کی مستقبل بینی اور تجزیاتی صلاحیّتوں کو سلب کرلیا۔ چنانچہ 1614ءمیں مغل بادشاہ جہانگیر کی جانب سے برطانوی مندوب سر تھامس رووے ، ایسٹ انڈیا کمپنی ، کو اجازتی فرمان جاری کرنا ہی وہ سنگ بنیاد ثابت ہوا، جس کے باعث یہ تمام وسیع و عریض علاقہ نہ صرف ایک میدانِ جنگ و جدل بنا رہا، بلکہ آخر کار انیسویں صدی میں مغل سلطنت کے خاتمہ اور مسلمانوں کی ایک طویل عرصہ تک تباہی وبربادی اور سماجی حیثیت کے تنزّل پر منتج ہوا۔ اگر آج برصغیر ( جسے حکیم سعید رحمتہ اللہ علیہ ”برکبیر“ قرار دیتے تھے) میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ہندو اکثریت کے زیرِ تسلّط ہے، تو وہ بھی ان ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔

تاریخ کے یہ وہ اسباق ہیں جو حکمرانی کرنے والے طبقات کو یاد رکھنے چاہئیں، کہ کس طرح بعض بے ضرر نظر آنے والے اقدامات دور رس اثرات رکھتے ہیں، اور انہیں قابو میں رکھنے کے لیے کن اقدامات اور احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے، ورنہ ہماری قوم تاریخ کے ایک دائری سفر میں ہی سرگرداں رہے گی، اور کسی بھی نئی منزل کو نہ پاسکے گی۔ چنانچہ، اس پس منظر میں موجودہ بھارت کو دوست قرار دینے والے ، اور ریوڑیوں جیسی امداد پر بغلیں بجا بجا کر خوشیاں منانے والا پاکستانی امراءکا طبقہ صریح نادانیاں کرتا نظر آتا ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ اس امر کا ادراک کرچکا ہے کہ پنج سالہ امریکی امداد کا حالیہ قانون، جسے اوباما بم کہنا درست ہوگا، اور جسے اس کے تجویز کنندگان ارکان امریکی مقننہ بائیڈن، کیری، اور لوگر صاحبان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، عام پاکستانیوں کے لیے ایک ناقابل فہم اور ناقابل قبول امریکی قانون ہے۔ اس میں مندرج شرائط کی شقیں توہین آمیز، تضحیکی، غیر عملی، الزامی، اور ایک ڈھکا چھپا امریکی ایجنڈا بھی رکھتی ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جدید دور میں کسی بھی قوم کو اپنی معاشی اور تکنیکی ترقی کے لیے طویل عرصہ کے منصوبے بنانے ہوتے ہیں، جن کی مدت پانچ برس سے سو برس تک کی ہوسکتی ہے۔ یہ ایک باقاعدہ منیجمنٹ سائنس ہے، جسے مستقبلیات کا نام دیا جاتا ہے۔ امریکہ میں اس بارے میں ایک بین الاقوامی سوسائٹی قائم ہے، جس کا نام ورلڈ فیوچر سوسائٹی ہے۔ اس کے بانی کی ایک مشہور کتاب مستقبلیات ے نام سے ہے۔ سن 2004ءمیں راقم الحروف نے اس کتاب کا ایک نسخہ اس وقت کے وزیر اعظم ، جناب شوکت عزیز، کو پیش کیا تھا۔ پاکستان میں مستقبلیات کے موضوع کو اردو ادب کے عظیم دانش ور اور ایک زندہ جاوید مثالی پاکستانی جناب جمیل الدین عالی نے متعارف کرایا تھا۔ مستقبلیات کے تجزیے کس طرح کیے جاتے ہیں، اور ان کی کیا اہمیت ہے، ہم کوشش کریں گے کہ مستقبل قریب میں آپ کو اس بارے میں کچھ تفصیل سے آگاہ کریں۔

حالیہ امریکی امداد کے قانون کے بارے میں میڈیا میں خاصی بحث ہوچکی ہے، اور اسے تفصیل سے دہرانا شاید کسی حد تک غیر ضروری ہے۔ تاہم، آپ نے یہ نوٹ کیا ہو گا، کہ پاکستان میں امریکی سفیرہ این پیٹرسن پاکستانیوں کی کھلے عام تنقید سے خاصی پریشان ہوئیں، اور انہوں نے ایک غیر معمولی انٹرویو ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل کے کامران شاہد کو دیا۔ اس میں انہوں نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے اس میں موجود فوج سے متعلق شقوں پر ندامت بھی ظاہر کی، اور وہ فوراً امریکہ بھی روانہ ہوگئیں۔ تاہم امریکی مقننہ کے طریقہ کار کے مطابق وہ موجودہ صورتِ حال میں اسے تبدیل نہیں کراسکتی تھیں۔ تاہم انہوں نے پاکستانیوں کے آنسو پونچھنے کے لیے وضاحتی ٹشو پیپر رومال کا ضرور انتظام کرادیا۔ جسے استعمال کے بعد ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔ امریکی ارکان پارلیمنٹ وغیرہ اس قانون کی منظوری کے لیے بہت فعال اور متحرک نظر آئے۔ یہ ایک غیر معمولی امر ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس مالی امداد سے امریکہ کو خود اپنا کچھ ایسا خرچ اور فوری اقدامات پاکستان میں کرنا ہے جس کے لیے اس قانون کی فوری منظوری ان کے لیے اشد ضروری تھی۔ دوسری جانب پاکستانی طبقہءامراء بھی اس سے کچھ ذاتی فوائد حاصل کرسکتا ہے، ورنہ بصورتِ دیگر وہ ان ریوڑیوں کے ملنے پرازخود مزید مٹھائیاں کیوں کھاتے ، اور اس پر دستخط ہونے پر ایوان ِ صدر میں دھمال کیوں ڈالتے۔ قوم یہ جان کر بھی حیران و پریشان ہے کہ آخر پاکستانی وزیر خارجہ کو پارلیمنٹ میں ہوتی بحث کو نظر انداز کرتے ہوئے لشتم پشتم دوڑ لگا کر واشنگٹن جا کر امریکی وضاحتی پیان پر دستخط کیوں کرنا پڑے؟ ان دستخطوں کے بارے میں قوم اور اس کے نمائندوں کو بے خبر رکھا گیا، اور اس طرح موجودہ پارلیمنٹ کی کمزور حیثیت اور نمایاں ہوگئی۔

پاکستانی عوام کے لیے حیران کن امر یہ ہے کہ آخر پاکستانی ایوانِ نمائندگان، امراءو رﺅسا، اور بیوروکریسی نے صرف ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ مبہم، ناقابل اعتبار، اور بے قابو امداد پر کیوں بھروسہ کیا، اور اس کے متبادل کیوں نہ تلاش کیے! مالی امور پر نظر رکھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ اس امداد کے پانچ سالہ دور میں ہر برس ڈیڑھ ارب ڈالر کی حقیقی قدر شرح افراط زر کے حساب سے گھٹتی جائے گی، اور شاید پانچویں برس میں یہ قدر 20 فی صد بھی نہ رہ جائے۔ دوسری جانب اس مدد کے انتظامی اخراجات بھی اس میں سے منہا کیے جائیں گے، چنانچہ پاکستانیوں کو چٹنی بھربھی اصل مدد نہ ملے گی۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس قانون میں بے شمار ایسی شقیں موجود ہیں جن کی بنیاد پر یہ مالی مدد کسی وقت بھی بند کی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب اس مدد کی نگرانی اور درست استعمال کے بہانہِ امریکی اثر ونفوذ ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی بڑھ جائے گا۔ اس بہانہِ پاکستان کے نہایت ہی حسّاس علاقوں میں بڑی بڑی جائیدادیں خریدی اور وسیع کی جارہی ہیں۔ دوسری جانب ان جائیدادوں کی حفاظت اور دفاع کے لیے بھی کچھ ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جو نہ صرف پاکستانیوں بلکہ پاکستان کے مخلص دوستوں، جیسے چین، کو بھی کھٹک رہے ہیں۔ پاکستان کے اعلیٰ ترین حکام کے حالیہ دورہءامریکہ میں صوبہ سرحد کے کلیدی سیاستدانوں کی خصوصی مہمان نوازی بھی ان ہی اقدامات میں سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ واضح رہے کہ پشاور کا پنج ستاری ہوٹیل امریکہ خرید رہا ہے۔ اس سے پاکستانی سالمیت پر جو مُضر اثرات پڑیں گے وہ تو اپنی جگہ ہیں، مگر اس سے پاکستانی ہوٹیل اور سیاحتی صنعت کو بھی ایک دھچکا پہنچے گا۔ اس قسم کے ہوٹیل تعمیر کرنا معمولی کام نہیں، اور اس کے متبادل عمارت اور سہولیات کو بنانے میں کم و بیش پانچ سال تو لگ ہی جائیں گے۔ دوسری جانب اسلام آباد میں یکے بعد دیگرے ایسے متعدد واقعات پیش آرہے ہیں جہاں پراسرار اور مسلح غیر ملکیوں نے پاکستانیوں کی آزادی اور وقار کو شارع عام پر ہی چیلنج کیا ہے، اور پاکستانیوں کو ہراساں کیا ہے۔ جب کہ عمومی طور پر پاکستانی میڈیا اس ضمن میں خوف زدہ اور خاموش ہے، اور ایسے واقعات کو کھل کر منظرِ عام پر نہیں لارہا ہے۔ ہمیں تو یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اسلام آباد میں پاکستانی 111 بریگیڈ کی کسی بھی ممکنہ کارروائی کی فوری مزاحمت کرنے کی استعداد کا انتظام کرنے میں مصروف ہے، جب کہ کسی بھی ایسی امریکی فوجی قوت کو پاکستانی طاقتوں کے دیگر مراکز کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کیری / لوگر بل کے نام سے معروف اس امریکی قانون نے پاکستان کے کلیدی اداروں کے درمیان دراڑیں ڈالنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ اس میں شامل فوج اور پاکستانی ایٹمی پروگرام کے بارے میں شرائط، اور دہشت گردی کے مُبیّنہ مراکز کے ناموں کاذکر خاص طور پر ایسے قابل مُذمّت امور میں شامل ہے۔ امریکی قانون سازوں نے بڑی نخوت اور غرورو تکبّر سے کہا ہے کہ امریکی کانگریس کسی کو بھی جواب دہ نہیں، اور وہ اس قانون میں پاکستانی مرضی سے کوئی تبدیلیاں نہیں کریں گے۔ چنانچہ اب پاکستانی ایوانِ نمائندگان پر بھی یہ قومی فرض عائد ہوگیا ہے کہ وہ ایک فوری پاکستانی قانون بنائے جس میں اس قسم کے تضحیک آمیزغیر ملکی قوانین کو قبول نہ کرنے کی شقیں ہوں، اور اس معمولی اور مبہم بے قابو امداد کو رد کردیا جائے، اور خاص طور پر کسی بھی ایسی مالی مدد کو قبول نہ کیا جائے جو پاکستانی اداروں کے ذریعہ نہ دی جارہی ہو، اور جس میں غیرملکی دخل اندازی ہو۔ ہم یہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ پاکستانی صوبہ پرستی، لسانیت، اور قوم پرستی کے طوفانوں میں ابھی تک حقیقی پاکستانی یک جہتی کی اصل زنجیر فوجی ادارہ ہی ہے۔ اگرچہ مثالی طور پر اس ادارہ کو سیاسی حکومت کی ہدایات بلا چوں و چرا مان لینی چاہیے، تاہم ابھی تک ایک مثالی اور اہل اور دور اندیش جمہوری حکومت کام کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اسی وجہ سے جب پاکستانی فوج کی جانب سے اہم تجاویز نہیں مانی گئیں، اور ایوانِ نمائندگان بھی غفلت کی نیند میں رہا، تو انہیں اپنے خیالات کا کھل کر عوام کے سامنے اظہار کرنا پڑا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی دیگر افواج بھی عوامی بیانات دیتی رہتی ہیں، بلکہ ان کے اہم اہل کار ٹی وی پر آکر اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک اور اہم واقعہ مارچ 2009ءمیں پیش آچکا ہے، جب کہ پاکستانی فوج کو عدلیہ کی بحالی میں اپنا وہ کردار ادا کرنا پڑا جس پر حکومت ہچر مچر کررہی تھی، اور ایک عوامی سیلاب دارالحکومت کو ڈبونے کے لیے بڑھ رہا تھا۔ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر نیٹو اور امریکی افواج غیر دوستانہ اقدامات کررہی ہیں، مثلاً چمن کے نزدیک بلا انتباہ دھماکہ خیز مشقیں، اور ایک ایسے وقت میں افغانی سرحدی چوکیوں کو خالی کردینا جب کہ پاکستانی افواج جنوبی وزیرستان میں کارروائی میں مصروف ہیں، اور اس سرحد پر آمد ورفت کو روکنا ضروری ہے۔ یہاں یہ خیال بھی اُبھرتا ہے کہ ہماری قومی قیادت کی جانب سے وزیرستان میں 45 دنوں میں مکمل کامیابی کے دعوے کے باوجود یہ آپریشن طویل تر مدت کے لیے جاری رہے گا، اور ہماری فوج کی توجہ دیگر اہم محاذوں سے دور اور بٹی رہے گی۔ مشرقی سرحدوں پر بھارت اپنی فضائیہ کو کسی بھی حیران کن کارروائی کے لیے تیار کررہا ہے، اور سمندری سرحدوں پر پاکستانی ماہی گیری کی صنعت کو تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ پاکستانی آبی وسائل پر کنٹرول، اور کشمیر پر عدم پیش رفت اپنی جگہ پر سنجیدہ مسائل ہیں۔ عقل و دانش ان حالات میں یہ تقاضہ کرتی ہے کہ پاکستان امریکہ کو اپنا خصوصی دوست سمجھنا ترک کردے، اور اس سے اپنے تعلّقات صرف اور صرف تجارتی بنیادوں پر ہی رکھے۔

ایمل کانسی اور رمزی یوسف جیسے ملزمان کو جب پاکستانیوں نے امریکہ کے حوالے کیا تھا، تو ایک امریکی نمائندہ نے واشگاف الفاظ میں اس وقت یہ کہا تھا کہ پاکستانی تو پیسے کے لیے اپنی ماﺅں کو بھی بیچنے پر تیّار ہوجاتے ہیں (نعوذ باللہ)۔ اب اس جمہوری دور میں پاکستانی وقار کا سودا کرنے والے غیرملکی قوانین اور بیانات کو رد کرنا ضروری اور قانونی طور پر آسان ہے۔ چنانچہ نہ صرف اس معمولی مالی مدد کو رد کردیا جائے، بلکہ اس کے متبادل اقدامات اور ذرائع کو دریافت کیا جائے۔ ملکی وسائل پر انحصار، اور خود انحصاری، اور خود اعتمادی حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے، جس کے لیے ہمیں با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جنا ح کی عطا کردہ بنیادی قومی اقدار، اتحاد، یقین محکم، اور تنظیم کو ازسرنو حیاتِ تازہ سے ہمکنار کرنا ہوگا۔ ان بنیادی اقدار کو طلباء کے نصاب میں شامل کرکے اس کی تعلیم پرائمری سطح سے ہی شروع کی جائے

پیارے قارئین ، پس چہ باید کرد؟ اس صورت میں مندرجہ ذیل اقدامات سے کیری/لوگر قانون جیسی امداد سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے:

1
فوری طور پروفاقی زرعی انکم ٹیکس عائد کیا جائے، اور زرعی پیداوار کی مقامی قیمتوں پر اس کا اثر نہ ہونے دیا جائے۔ واضح رہے کہ اس ٹیکس کی عدم موجودگی سے معاشرہ میں کالا دھن خوب پھل پھول رہا ہے۔ مزید زرعی اصلاحات کی جائیں، مثلاً زیرِ کاشت رقبہ، فصلیں، اور فی ایکڑ رقبہ کی پیداوار کو معیاری سطح پر لایا جائے۔ سیلابی اور بارش کے پانی کو جگہ جگہ چھوٹے بڑے بند، ڈیم، بنا کر ذخیرہ کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے

2
جائیدادوں کی خرید و فروخت پر اور شیئر بازار پر کیپیٹل گین ٹیکس لگایا جائے

3
عمومی ٹیکس چوروں کو پکڑا جائے ، اور قید کی سزا بھی عائد کی جائے تاکہ چوروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے

4
غیرممالک میں مقیم پاکبانوں سے خصوصی مہم کے ذریعہ پیسے پاکستان منگوائے جائیں، اور خاص حد تک رقوم بھیجنے والوں کو اس ضمن میں سرٹیفیکیٹ جاری کیے جائیں، جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو

5
تمام پاکستانی سیاستدان اپنا بیرون ملک پیسہ پاکستان منتقل کریں، یا بصورت دیگر وہ سیاست ترک کردیں

6
تمام پاکستانی صنعتکار اپنا بیرون ملک پیسہ پاکستان منتقل کریں۔ ایسی کئی پیشکشوں کا اعلان ہوچکا ہے، ان کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کی جائے

7
غیر ضروری پر تعیش اشیاءکی درآمد فوری طور پر بند کی جائے، مثلاً میک اپ کا سامان

8
برج فنانسنگ کے لیے فی الحال آئی ایم ایف وغیرہ سے کم سے کم مدد لے لی جائے، اور فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے پلیٹ فارم کے خواب کو ترک کردیا جائے

9
صرف پڑھے لکھے، اور قابل وزراءکا تعین کیا جائے، اور شفاف اور گڈ گورننس کے منیجمنٹ اصولوں پر عمل کیا جائے، ہر مالی معاملہ پر اخراجات اور فوائد کی سمری بنائی جائے اور عوام کے سامنے پیش کی جائے

10
عدل و انصاف کو عام اور یقینی بنایا جائے، اور اس عمل میں سرعت لائی جائے، اور اسی عمل کے نتیجہ میں معاشرہ کے رگ و پے میں سرایت بد دیانتی اور کرپشن کا قلع قمع کردیا جائے

11
پاکستانی برآمدی تجارت کے حجم کو بڑھایا جائے، اور غیرروایتی اشیاء، مثلاً پھل وغیرہ کی کاشت میں اضافہ، اور برآمدات کی کوششیں کی جائیں، بجلی کی پیداوار کے متبادل منصوبوں، جیسے کے شمسی توانائی، ہوائی چکیاں، ایٹمی بجلی گھر، اور کوئلہ بجلی گھروں پر فوری کام شروع کیا جائے

12
حکومتی اخراجات اور پھیلاﺅ میں کمی کی جائے، اور سالانہ بجٹ میں کسی بھی ناقابل اعتبار اور ناقابل بھروسہ غیرملکی مدد کو شامل نہ کیا جائے، غذائی اشیاءسے منافع خوری کے رجحان پر قابو پایا جائے


پیارے قارئین یہاں ہم نے تمام ممکنہ متبادل اور اختیارات کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اس ضمن میں آپ بھی اپنا کردار ادا کریں، اور اپنی تجاویز پیش کریں۔ یہ نشست طویل ہورہی ہے، اور اب آپ اس موضوع کی اہمیت کے باوجود بور ہوتے نظر آرہے ہیں، چنانچہ بقول شخصے، یار زندہ صحبت باقی۔ انشااللہ پھر جلد ہی ملاقات ہوگی۔ تاہم جاتے جاتے، مفکر اسلام، حکیم الامت علامہ اقبال کا یہ شعر دہرانے کا موقع ہے

خودی کو کر بُلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
(علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ1877-1938)

٭
جمعرات،22 اکتوبر2009
حکمت و دانش کو پوشیدہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی خزانہ کوتاریکیوں میں چھپادینا ۔۔۔ چینی کہاوت
(c) 2009 Justuju Media - All Rights Reserved

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں

The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Media, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" non commercial universal license





HASHIM SYED MOHAMMAD BIN QASIM
Justuju Media

Researcher, Writer, Publisher, Sociologist, ICT and O&D Consultant
Current Affairs Analyst, Radio Islam International, Johannesberg, South Africa
Contributing Editor: Alqamar.org, Urdupoint.Com




Google Scholar