سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Monday, January 28, 2008

یہ میزبان کیسے کیسے


جستجو / طنز و مزاح (مزاحیہ ادب)

یہ میزبان کیسے کیسے!

با ذوق قارئین کی تواضع کے لیے ایک پُرلذّت، چٹپٹی تحریری ڈش

محمد بن قاسم


کھایا ہے سیر ہوکے خیالی پلاﺅ آج

پانی پھر اس کے بعد پیا ہے سراب کا ( انورمسعود)

ایک صاحب اپنے دوست کے ہاں گئے تو میزبان نے ان کے سامنے چھولے وغیرہ رکھے۔ اس تواضع کے دوران وہ اپنے مہمان کو بار بار مجبور کرتے، ” یار کچھ اور چھولے لو، تم تو کچھ کھا ہی نہیں رہے ۔۔۔“ وغیرہ۔ مہمان ان کے اس اصرار کو کچھ دیربرداشت کرتارہا، اور چند لقمے زہرمار کرنے کے بعد بولا، ” بھئی میں تو تمھارے تیّار کیے ہوئے یہ چھولے چنے کھارہاہوں، مگر تم بھی تو میراساتھ دو، اور کچھ کھاﺅ۔۔“ اس پر وہ میزبان دوست بے ساختگی سے گویا ہوئے، ”یار یہ چھولے تو تم ہی کو مبارک ہوں، ورنہ یہ بھی کوئی انسانوں کے کھانے کی چیز ہے۔۔“ ان کے دل کی بات زبان سے اداہوچکی تھی، اور کمان سے نکلا ہوا یہ تیر اب واپس نہ آسکتا تھا۔ چنانچہ اس مکالمہ کے بعد کیا دلدوز واقعات پیش آئے ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا تو آپ کے لیے بھی چنداں دشوار نہ ہوگا۔ اور یہ تو طے ہے کہ وہ مہمان ایسے چھولے چنے کھانے کے بعد اپنے میزبان کے گھر سے بلبلاتے اور ہنہناتے ہوئے کسی تیزرفتار گھوڑے کی طرح فرّاٹے بھرتے ہوئے ہی نکلا ہوگا۔
دنیا کے ہر کونہِ ، اور ہر ثقافت اور معاشرت میں گھر آئے مہمان کی عزّت اور خاطر تواضع کرنے کے بارے میں غلو آمیزرسم ورواج پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتاہے کہ ”آمدن بِارادت و رفتن بِاجازت“ (مہمان کا آنا اپنے بس، جانا پرائے بس)۔ یعنی کسی کے ہاںمہمان جانا اپنے ارادہِ پر منحصرہوتاہے، جب کہ اُس سے رُخصت ہونا میزبان کی اجازت پر منحصر ہوتاہے۔ برّ صغیر میں یہ وہم بھی عام ہے کہ اگر گھر کے صحن کی مُنڈیر پر کوّے بھیّا آکر کائیں کائیں کریں تو اس روز کوئی من پسند شخص ضرور مہمان بنے گا۔ اگرچہ یہ بحث کی جاسکتی ہے کہ موجودہ مہنگائی کے دورمیں روایتی مہمان نوازی صاحبِ ثروت لوگوں کے ہی بس کی بات رہ گئی ہے۔ یا یہ کہ واقعی کچھ مہمان بلائے جان بھی ثابت ہوتے ہیں، جو اپنے میزبان کے ہاں تمام اٹھاپٹخ، توڑپھوڑ، اور ادّھم مچانے کی وہ ”خاموش تکنیکی“ اجازت دے دیتے ہیں جس کا ان بچّوں کو اپنے گھر میں موقع نہیں دیا جاتا، اور اس محرومی کی تلافی کا صرف یہ ہی موقع ملتاہے۔ آپ ہم سے متّفق ہوں گے کہ، دراصل، مہمان نوازی بھی ایک سماجی فن ہے، جس میں اپنی نیک نیتی کے باوجودہر شخص یاخاندان یدِ طولیٰ نہیں رکھتا۔ اگرچہ کچھ بے تکلّف دوستوں میں اس قسم کی بھی مکالمہ بازی ہوتی ہے کہ ”یار، تم کھانا کھاکر آئے ہو، یا جاکر کھاﺅگے!“ مگرکسی گھر آئے ہوئے مہمان کا مُسکراہٹ کے ساتھ اُٹھ کر استقبال کرنا، حال احوال پوچھنا، ہر ممکن تواضع کرنا، اور رخصتی کے وقت اسے دروازہ تک جاکرخداحافظ کہنا، ہمارے معاشرِ ہ کی وہ کلاسیکی اور سنہری روایات ہیں جن پر عمل کرنے والے خوش اخلاقی کے اعلیٰ درجات کے حامل کہے جاتے ہیں۔ پاکستان کے مرحوم صدر ضیاءالحق اس معاملہ میں ازحد انکسار روارکھتے۔ وہ پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدہ پربراجمان ہوجانے کے باوجود اپنے مہمانوں کا تمام تر مشرقی روایات کے ساتھ استقبال کرتے، اور ان کی دل جوئی اور خاطر تواضع کرنے کے بعدمع مناسب تحائف انہیں چھوڑنے دروازے تک بھی جایا کرتے۔ ان سے ملنے جلنے والے مقامی اور غیرملکی مہمان اس حُسنِ اخلاق پر نہ صرف متعجبّ ہوتے بلکہ اپنی عزّتِ نفس کے اس درجہ خیال رکھے جانے پر خوشی سے پھولے نہ سماتے۔
آپ نے ”نیبونچوڑ“ کا قصّہ تو سُن رکھا ہوگا۔ ایک شاطر شخص کا دستورتھا کہ وہ اپنی قریبی سرائے میں آنے جانے والے مسافروں کے دسترخوان پر نظر رکھتا۔ کھانا لگتے ہی وہ اپنے ساتھ ایک عدد نیبو لے جاکر اس بھولے مُسافر سے کہتا کہ ”حضرت، یہ نیبو آپ کے طعام کا زبردست جوڑ ہے۔ اسے نچوڑکر کھانے میں شامل کیجیے اور غذا کا لطف دوبالا کیجیے۔“ وہ مسافربے چارہ مُروّت اور شرما حضوری میں نیبو لے کر اس شخص کو بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دے دیتا۔ اس طرح یہ نیبونچوڑ صاحب، مان نہ مان میں تیرامہمان بن کر، اپنی پیٹ پوجا کرکے دسترخوان اور اپنا منہ صاف کرتے، مونچھوں پر تاﺅدیتے چلے آتے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس قسم کے نیبو نچوڑ نہیں۔ ہم تو اپنی پیاری پشتوزبان کی اس مثل کے قائل ہیں: ”پیاز دِوِی، پہ نیاز دِوِی۔“ (پیاز ہو، مگر نیاز کے ساتھ۔) کہیں آنے جانے میں خاصی احتیاط کیا کرتے ہیں۔ تاہم ، اپنے مشاہدِہ میں آئی چند لذیذ حکایات، آپ بیتیوں اور جگ بیتیوں کا دسترخوان آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
سعودی عرب، جہاں ہم نے ایک طویل عرصہ گزارا (اُن مزے دار حکایات کے لیے ملاحظہ کیجیے ”زر گرفت، سعودی عرب پر ایک انوکھی نظر“ http://www.zargrifth.blogspot.com)، وہ حاتم طائی جیسے سخی اوراس مہمان نواز شخص کا مسکن رہا ہے، جس نے ایک روز ضرورت پڑجانے پر ایک مہمان کے لیے اپنے عزیز ترین گھوڑے کو بھی ذبح کردیا تھا۔ آج بھی سعودی عرب کو ہر برس لاکھوں عازمینِ حج و عمُرہ کی مہمان نوازی و میزبانی کا شرف حاصل ہوتاہے۔ پھر بھی یہاں مقیم کچھ خاندانوں میں کسی بِن بلُائے مہمان کا اچانک آجانا کسی دہشت گرد کی دراندازی سے کم نہیں۔ چنانچہ پھر اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتاہے جو کسی دہشت گرد کے شایانِ شان ہوسکتا ہے۔ ایسے خاندانوں میں انفرادی مہمان نوازی سے ہر ممکن گُریز کرنے کے لیے اپنے ہم خیال حلقہ ءمیزبانان کے ساتھ گھروں کے باہر ہی ’ون ڈش‘ پارٹیوں کا انتظام کرلیا جاتاہے۔ شاید ایسی ہی دعوتوں کے لیے یہ محاورہ گھڑا گیا ہوگا کہ، ” ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ بھی چوکھا آئے۔“ ایسے بااخلاق افراد کی جانب سے ایک کھٹّی میٹھی دہمکی یہ بھی ہوتی ہے، ” فون کرکے آئیے گا۔“ اسی وجہ سے آپ ان کے گھر بے تکلّفی سے آنے جانے سے خود ہی کتراتے ہیں۔ اور جب کبھی مجبوراً آپ انھیں فون کربیٹھیں، تو ان کی جانب سے کچھ ایسی درد بھری کہانی اور فوری طور پر باہر جانے کا ہنگامی پروگرام سننے میں آتا ہے کہ نہ صرف آپ اپنی حالتِ زار پر بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں، بلکہ آپ کو ان سے یک گوُنہ ہمدردی بھی ہوجاتی ہے، اور آپ انھیں گزشتہ موقع کی طرح ایک بار پھر جلد از جلد اپنے گھر آنے کی دعوت دے دیتے ہیں۔ ہمارے ایک ایسے جاننے والے بھی ہیں جو بڑے کھلے دل اور میٹھی زبان سے اپنے گھر آنے کا کہتے ہیں۔ ”یار، آج بعد نمازِ عشاءآجانا، اور ہاں، کھانا ہمارے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔ دیکھو، ہم منتظر رہیں گے۔“ ہمارے جیسے ان کے احباب جب ایک شانِ بے نیازی سے دعوتِ شیراز اڑانے ان کے گھر پہنچ جاتے ہیں، تو وہ تجاہلِ عارفانہ کے ایک نمائندہ نمونہِ میں ڈھل جاتے ہیں۔ کچھ دیر بیٹھنے اور ان کا سوکھا منہ دیکھنے کے بعد احباب ایک ”مہمانِ بے نیاز“ کا مجسِّمہ بنے ، بدّھو بن کر گھر لوٹ جاتے ہیں۔ اس خیال سے کہ کہیں ان کا نازک دل ٹوٹ نہ جائے، انھیں یہ بھی یاد نہیں دلایا جاتا کہ ہم سب آپ ہی کی دعوت پر تو یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ہاں ایسے مواقع پر گھر واپسی پر قریبی ہوٹل سے کھانا لینا نہیں بھولتے۔ شروع میں تو ہم یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہے کہ یہ صاحب ہمارے ساتھ ہی ایسا بے رحمانہ سلوک کیوں کرتے ہیں! آخر ہم نے ان کا کیا بگاڑا ہے۔۔۔ دوچار باراسی قسم کے تجربات ہونے کے بعد یہ عُقدہ کھلا کہ ہمارے ان بے نیاز و ظالم میزبان کا تو یہ تکیہ کلام ہے: ”یار آج تو تم ہمارے ۔۔۔۔“ وہ دراصل اس مقولہ ِ پر عمل پیرا رہتے ہیں کہ ”گڑ نہ دے، پر گڑجیسی بات تو کرے۔“ نہ جانے ان کے اور کتنے دوست اس عملی مذاق کا نشانہ اور خیالی دسترخوان کے مہمان بنتے ہوں گے۔ مزے دار امر تو یہ ہے کہ وہ اور ان کی بیگم اکثر ایسی خدعی دعوتیں بالاصرار ٹیلیفون پر ہی دیا کرتے ہیں۔ ایسے دوچار سانحات کا شکار بننے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ دراصل ان کی جانب سے یہ سب ٹیلیفون پر ایک طویل گپ بازی کے دوران چٹپٹے موضوعات کے فقدان کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب کوئی اور بات نہیں سوجھتی تو ٹیلیفونی مکالمات کی ٹانگ اور پائے اسی کھوکھلی دعوت اور صلائے سمرقندی پر ٹوٹا کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہم آپ کی خدمت میں پاکستانی شعری مزاح کے ایک اور شہسوار، جناب انور مسعود کی کتاب ’دیوارِ گریہ‘ سے چند اشعار پیش کرتے ہیں ، جو مہمان داری اور میزبانی کے بارے میں چند پرلطف خیالات کی منظوم ترجمانی کرتے ہیں:

صرف دریا پر ہی نہیں موقوف ایسی کھلبلی
چائے کی پیالی میں بھی طوفان پایا جائے ہے

گھر میں ہوسکتی ہے یہ بھی صورتِ غیب و حضور
میزبان غائب، اور مہمان پایا جائے ہے

ایک کنجوس کے بارے میں سنا ہے میں نے
ایک لقمہ بھی نہ اس نے کبھی تنہا کھایا

اس کی تکنیک کے قرباں کہ ہمیشہ اس نے
سامنے بیٹھ کے آئینے کے، کھانا کھایا

ہمارے ایک اور واقف کار ہیں۔ وہ اور ان کے اہلِ خاندان کسی بھی مہمان کے آتے ہی بڑے خلوص کے ساتھ دسترخوان پر ہمہ قسم کے خوان چُن دیتے ہیں۔ مگر وائے قسمت، ابھی مہمان حضرات ہاتھ میں خالی پلیٹ لیے ہوئے مزے دار اشیاءپر دُزدیِدہ نظریں ہی جمائے ہوئے ہوتے ہیں کہ میزبان اور ان کے مستقبل کے بے شمار ورثاءاس ہفت خوان کو دیکھتے ہی دیکھتے چَٹ کرجاتے ہیں۔ اس دوران اس قسم کے جملے سننے میں آتے ہیں: ” واہ بھئی واہ، مُنّے کی امّاں کا جواب نہیں، یہ دہی پھلکیاں کس قدر غضب کی بناتی ہیں۔ لیجیے صاحب، آپ تو تکلّف کررہے ہیں۔ کچھ لے ہی نہیں رہے۔۔۔ لگتا ہے کہ آج آپ لنچ کچھ زیادہ کھاکر آئے ہیں۔ مُنّے میاں، ذرا یہ سموسے تو آگے بڑھانا، واہ مزا آگیا، کیا چٹپٹے مصالحہ دار ہیں ، یہ تلے بینگن، واہ واہ، اور یہ سویّوں کا مزعفر تو فردوسِ بریں سے آیا لگتاہے۔۔۔۔“ ہم ان کی میز پر اب تک نظر انداز کیے گئے ٹھنڈے پانی کے گلاس پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ”واہ جی واہ، اس یخ بستہ پانی کا تو جواب نہیں۔ اس شدید گرمی میں یہ آبِ کوثر سے کم نہیں۔“ اسی طرح ہمارے ایک اور مہربان ایسے بھی ہیں کہ و ہ وقت دے کر گھر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ جب ہم ان کے انتظار میں کھلے آسمان تلے کھڑے تارے گنِ رہے ہوتے ہیں، وہ اور ان کے بیوی بچّے اپنے حلق سے معدہ تک ٹھنسے ہوئے گرما گرم پیزا کے چٹخارے اور ڈکار لیتے، بچے کھُچے پیزا کے کارٹن بغل میں دبائے، اپنی کارمیں سے برآمد ہوتے ہیں، اور غاﺅں غوں کرتے، معذرت کرتے، ننداسی آنکھوں سے کم از کم اس رات کے لیے فوری طور پر شب بخیر کہنے میں دیر نہیں کرتے۔
صفِ اوّل کے ایک پاکستانی قلم کار اور دائمی مُسافر سیّاح(حالیہ مقیم امریکہ) ، جناب قمر علی عبّاسی نے اپنے ایک پُرمزاح سفرنامہِ، ”امریکہ مت جئیو“ میں چند ایسی دعوتوں کا تذکرہ کیا ہے جو امریکہ میں رہتے ہوئے ان کے اعزاز میں صرف اس لیے برپا کی گئیں کہ گھر کے ڈیپ فریزر میں ہفتوں سے جمع شدہ بچے کھانوں، یا جلد ہی میعاد ختم ہونے والے پکے پکائے کھانوں کے پیکٹوں وغیرہ کی صفائی مقصود تھی۔ تو ہمارے ایک ایسے دوست یہاں بھی موجود ہیں۔ وہ دعوت دے کر میز پر ایسے کھانے چُن دیتے ہیں جو گزشتہ چند روز سے تھوڑی تھوڑی مقدار میں شکم پُری سے بچ کر پلاسٹک کے ڈبّوں کی زینت بنتے رہے تھے۔ نتیجتاً پیٹ بھرنا تو کُجا، کسی ایک کھانے کا بھی سواد نہیں ملتا۔ گئے زمانوں میں شاید مغلئی دسترخوان، اپنی مقدار اور معیار سے صرفِ نظر، ایسے ہی متنوّع ہوا کرتے ہوں گے۔ برّ صغیرمیں مسلمانوں کی حکومت کے عرصہ ءزوال کے دوران شاہِ دوراں جناب بہادرشاہ ظفر کی خود بھی حالت پتلی ہوچکی تھی۔ مگر وہ اپنے استاد جناب مرزا اسد اللہ خان غالب کی خدمت میں جو بھی روکھا سوکھا میسّر ہوتا، بھجوادیا کرتے۔ ایسی ہی ایک دال کی ڈش کے بارے میں مرزا غالب نے جوابی قصیدہ تحریر کر بھیجا تھا۔ اس رباعی کے اشعارملاحظہ کیجیے:

بھیجی ہے جو مجھ کو، شاہِ جم جاہ نے، دال
ہے لطف و عنایاتِ شہنشاہ پہ دال

یہ شاہ پسند دال، بے بحث و جدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال

مرزا جی نے غالباً اسی ضمن میں یہ شعر بھی کہا:

بادشاہی کا جہاں یہ حال ہو، غالب! تو پھر
کیوں نہ دلّی میں، ہر اک ناچیز نوّابی کرے

جب میزبانوں کا تذکرہ ہورہا ہو تو اسمارٹ فضائی میزبانوں کو کیسے بھُلایا جاسکتا ہے۔ اردو ادب کے ایک مقبول فوجی مزاح نگار، جناب کرنل محمدّ خان مرحوم نے تو اپنے ایک سفرنامہِ ”بسلامت روی“ میں ان کا اس قدر لذیذ تذکرہ کیا کہ اردو ادب کے نقّاد حسدو جلن کے مارے کرنل صاحب کے قلم کے درپہ ہوگئے۔ یہاں ایک مرتبہ پھر ہم یگانہ ءروزگار، عبقری شاعر جناب مرزا غالب کا یہ مزے دار شعر دہرائیں گے:

ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیان اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو راز داں اپنا

ہوائی سفر کے دوران مسافروں کی دیکھ بھال، اور خاطر تواضع کے لیے دنیا بھر کی ہوابازی کی کمپنیاں نُک سُک سے درست اور تربیت یافتہ عملہ اس ذمّہ داری کو پورا کرنے کے لیے رکھا کرتی ہیں۔ یہ فضائی میزبان افراد، جن میں اکثر دل رُبا خواتین ہوتی ہیں، ہوائی جہاز کے سفر کے دوران کئی ایسے اہم فرائض انجام دیتے ہیں جن پر مُسافروں کی توجہّ کم ہی رہتی ہے۔ مثلاً مُسافروں کو ان کی متعیّن نشست تک پہنچانا، کسی وجہ سے نشست کی تبدیلی کی ضرورت ہو تو اس کا انتظام کرنا، ہوائی جہاز کی روانگی سے پہلے تمام دروازوں کو چیک کرنا، یہ یقین کرنا کہ تمام مسافروں نے سیٹ بیلٹیں باندھ لی ہیں ، اور جہاز کے فضاءمیں بلند ہوجانے کے بعد مسافروں کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے مختصر مگر اشد ضروری تربیت دینا، اور کبھی کبھی مریض مسافروں کو طبّی امداد بہم پہنچانا، مختلف اخبارات اور فارم مسافروں میں تقسیم کرنا، اور وقتاً فوقتاً سفر سے متعلّق اعلانات کرنا، اور جہاز اور مُسافروں کی حفاظت کی خاطر مُسافروں کی کسی مشتبہ حرکات پر نظر رکھنا، وغیرہ ۔ مگر حیرت انگیز طور پر ان سب فرائض سے ہٹ کر اکثر مُسافروں کی نظریں کسی اِمکانی حُسن و جمال کے نظّاروں سے لطف اندوز ہونے، اور کھانے ”پینے“ کی جانب مرکوز رہتی ہیں۔ مگر، وائے افسوس، چونکہِ جہاز اس وقت ۰۳ ہزار فیٹ بلندی پر اُڑ رہا ہوتاہے، عام طور پر ایسی فضائی میزبانوں کے دماغ بھی اسی بلندی کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ اگر پرواز مختصر، دوچار گھنٹوں کی ہی ہے تو وہ اس قدر مصروف رہیں گی کہ آپ کو ان کی شکل صرف ”ٹرالی“ کے ساتھ ہی نظر آئے گی۔ اگر آپ نے انھیں بلانے کا بٹن دبادیا تو یا تو انتظارِ یار کی طرح تمام سفر کٹ جائے گا، یا پھر ایسی جھڑکی سننے میں آئے گی جیسی کہ شرارتی بچّوں اور شوہروں کو خاتونِ خانہ خوددیا کرتی ہیں۔ یعنی کہ، ” اگر پھر شرارت کی تو دروازے سے باہر نکال دوں گی۔“ دوران ِ پرواز اس قسم کے سلوک کا نتیجہ آپ کے گوُش گزار کرنے کی ضرورت تو نہیں ، آپ خود ہی سمجھدار ہیں۔ جہاز میں اعلیٰ درجہ کے مسافروں کے ساتھ البتّہ امتیازانہ سلوک روا رکھا جاتاہے۔ مگر کفایتی کلاس میں خاطر تواضع میں بھی بچت کاخاص خیال رکھنا ان نازک اندام، پر آہن و سنگ دل، فضائی میزبانوں کی ایک دلآزار مجبوری ہے۔ ان حسین میزبانوں کی یہ خوش قسمتی ہوتی ہے کہ اکثر مسافر سیٹوں سے بندھے رہنے کے باوجوداِن میزبانوں کو اپنے گھروں میں مستقل مہمان کی حیثیت دینے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ چنانچہ ِ ایک ایسے ہی واقعہ کی بدولت اردن کے مرحوم شاہ حسین نے اپنی زندگی کے ایک ہوائی سفر کے دوران ایک عام امریکی خاتون کو ”ملکہ نور“بنا کر قصرِ شاہی میں سجا دیا تھا۔ شاید زمین کی کششِ ثقل سے نکل جانے کے بعد فضاﺅں میں رومانویت کے شگوفے کچھ زیادہ ہی کھِل کر رنگ دکھاتے ہیں۔ اسی لیے کچھ عجب نہیں کہ حوُریں بھی صرف آسمانوں میں جاکر ہی مل سکیں گی۔ کبھی کبھی ایسی فضائی میزبانوں سے بھی سابقہ پڑجاتاہے جو اپنی پیرانہ سالی کے باوجود بادلوں کے دوش اُڑتی پھرتی ہیں، اور مہمان مسافر اس فکر میں ڈوب جاتے ہیں کہ انھیں کس نام سے پُکارا جائے! خالہ جان، آنٹی، بڑی بہن، یا نانی امّاں۔۔۔ یہاں تک کہ اسی گومگو کے عالم میں جہاز منزلِ مقصود تک پہنچ جاتاہے، اور گوہرِ مقصود مسافروں کے ہاتھ ہی نہیں آتا۔ پھر جہاز کے پہیّوں کے زمین کی پستی سے لگتے ہی بلندیوں پر پڑنے والا عارضی عشق کا یہ وقتی دورہ بھی ہوا ہوجاتاہے۔
کچھ ایسے میزبان بھی ہوتے ہیں جن کی مہربانیوں کی زد میں آنے کے خوف سے سب ہی لرزاں و ترساں رہتے ، اوراپنے کان پکڑتے ہیں۔اس لِسٹ میں ڈاکٹر، سرجن، اور نرسیں بھی شامل ہیں۔ مگر شاعر و ادیب حضرات سرِ فہرست سمجھے جاتے ہیں۔ فی لُقمہ طویل بحر کی ایک غزل یا ایک انشائیہ، اور چائے کے ایک کپ کے بدلہ ِ میں ایک چوتھائی دیوان سے سمع خراشی تو ایسے حالات میں کم از کم معیاری سزا ”مُکرّر“ ہے۔ اگر آپ اس قبیل کی محفل میں پھنس ہی جائیں تو ”کلام“ کے مقابلہِ میں ”طعام“ کی داد دینے کی غلطی بھُولے سے بھی نہ کر بیٹھیں۔ ورنہ نتیجتاً کلام کا دورانیہ اس وقت تک بڑھتا ہی رہے گا، جب تک کہ میزبان کی ”دادی تشنگی“ دور نہیں ہوجاتی، یا آپ ہی ہمّت کرکے، یا نظر بچاکر، ادب کے دائرہِ سے خارج ہونے کی تہُمت کا خطرہ مول لیتے ہوئے بَگٹَٹ فرار نہ ہوجائیں۔ دوسری جانب، ڈاکٹروں اور نرسوں کی میزبانی کتنی ہی خوش کن و دل پذیر کیوں نہ ہو، ان کی جانب سے بار بار آنے کی ”پرُ اسرار“ دعوت مہمان مریض کو آخر کار”بِل بلا“ رکھ دیتی ہے۔
میزبانوں کی ایک اور دل دہلادینے والی قسم ”شاہی میزبانوں“ کی بھی ہے۔تھانے داروں، داروغاﺅں کی معیّت میں ان مہمان خانوں میں لائے جانے والے افراد عام طور پر ایک طویل عرصہ تک ریاستی میزبانی کا لُطف اُٹھاتے ہیں۔ برِّ صغیر میں ایسے چند مشہور مہمان خانے تہاڑ۔دہلی، اور شاہی قلعہ۔لاہور ہیں۔ جب کہ بگرام ۔افغانستان، اور گوانٹانامو ، کیوبا نسبتاً جدید مگر زیادہ پُرہول امریکی زندان ہیں۔ یہاں عام طور پر سو جوتے اور سو پیاز پر مشتمل ایک اختیاری مینو ہوتاہے۔ اگر یہاں پر پیش کیے جانے والے شاہی خوانوں کی تواضع سے دل نہ بھرے تو مہمانوں کو حضرت عزرائیل کے ساتھ ابدی میزبانوں کی جانب روانہ کردیا جاتاہے۔ اپنی تاریخی کتاب ”لوحِ ایا ّ م“ میں پاکستانی دانش ور جناب مختار مسعود نے ۹۷۹۱ ءتک قائم رہنے والی پہلوی خاندان کی ایرانی حکومت کی جانب سے ایسے مہمانوں کے لیے ایک خاص ”گھوڑے“ کی سواری کا ذکر کیا ہے۔ ایک بڑی اور نہایت ہی تیز دھار تلوار کی شکل کا یہ گھوڑا شاہی مہمان خانہِ کے ایک کمرہ میں نصب تھا۔ مہمان مُسافر کو اس پر بیٹھنے کی دعوت دی جاتی، اور مہمان کی جانب سے تکلّف برتے جانے پر اس گھوڑے پر سوار ہونے میں اس کی مدد کردی جاتی۔ یہاں تک کہ وہ غریب مہمان اپنے ہی وزن کے زیرِ اثر دو حصّوں میں تقسیم ہوکر مُلکِ عدم کی ضیافت کے دگنے مزے اُڑانے کے لیے رحلت کرجاتا۔ مجرم مہمانوں کی میزبانی کے ضمن میں کالاپانی، اور برّاعظم آسٹریلیا کا ذکر بھی مناسب ہوگا۔ برطانیہ کے سر یہ سہرا بندھتا ہے کہ انھوں نے میزبانی کی ایک انوکھی مثال قائم کرتے ہوئے اپنے ”شاہی مہمانوں“ کو نہ صرف طویل ترین بحری سفر مُفت ہی کرائے، بلکہ آسٹریلیا جیسی ایک بنجر، صحرائی، اور عمومی طور پر بے آب و گیاہ زمین کو ایک اہم اور طاقت ور ملک میں تبدیل کردیا۔ اور آج یہ حال ہے کہ ان کی کرکٹ ٹیم تک اپنے مہمانوں کو کھیل کے میدانوں میں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتی ہے۔
برّ صغیر کے حوالہ ِ سے ہی ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک ”سیّد“ ایک علاقہ غیر میں کسی قبیلہِ کے مہمان ہوئے۔ ایک طویل عرصہ تک پہاڑی کھانے کھا، کھا کران پیٹ پناہ مانگنے لگا۔ وہ جب بھی واپسی کا قصد کرتے، اور میزبانوں سے اجازت مانگتے، جواب میں مزید نیاز مندانہ دعوتیں پاتے۔ یہاں تک کہ ان کے ہمہ وقت اصرار سے میزبان تنگ آگئے، اور انھیں جواب دیا کہ، ” خوچہِ، ہمارے مُلَک میں کسی بھی سیّد کا مزار نہیں، بہت دور جانا پڑتاہے۔ اب آپ تو ہمیں مایوس نہ کرو جی۔۔۔ اب ادھر ہی رہو قیامت تلک۔۔۔“ دوسری جانب افریقہ کے چند حصّوں ، مثلاً گبون میں، اور مشرقِ بعید کے چند دور درازجزیروں میں، مائکرونیشیا اور نیو گنّی کے علاقوں میں ایسے آدم خور قبیلے بھی پائے جاتے ہیں، جو اپنے مہمانوں کو کھلا پلا کر، موٹا تازہ کرکے انھیں قدآدم دیگوں میں بٹھاکر مزیدار کھانوںمیں تبدیل کردینے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کچھ اسی قبیل کے ایک انوکھے یونانی میزبان کا تذکرہ، شہنشاہِ اردو طرز و اسلوب، پاکستانی مزاح نگار، جناب مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب ”چراغ تلے“ میں ”چارپائی اور کلچر“ کے عنوان کے تحت کیا ہے۔ اس میزبان کا نام ”پروقراط“ تھا۔ موصوف کے پاس دو عدد چارپائیاں تھیں۔ ایک لمبی اور دوسری چھوٹی۔ ٹھنگنے، چھوٹے قد کے مہمان کو وہ لمبی چارپائی پر آرام کراتا، اور کھینچ تان کر اس کا جسم چارپائی کے برابر کردیتا۔ اس کے برعکس کسی لمبے آدمی کو وہ چھوٹی چارپائی پر تشریف رکھواتا، اور اس کے جسم کے زائد از طولءچارپائی حصّوں کو کاٹ چھانٹ کر ابدی نیند سُلادیتا۔
میزبانوں کی ایک اوراچھوتی قسم، جو ہمیں سعودی عرب میں بھی افراط سے دیکھنے کو ملی، وہ مختلف سماجی تنظیموں کے نام نہاد کرتادھرتاﺅں کی ہے۔ یہ اصحاب کسی عصری اہمیت اور دل چسپی کے موضوع کے نام نہاد عاشق بن کر کسی ایک ایسی اہم یا غیر اہم شخصیت کو مہمانِ خصوصی بنالیتے ہیں جس سے کوئی ذاتی مفاد وابستہ ہوتا ہے یا کم از کم اس کی وساطت سے میڈیامیں شہرت ملنے کا آسرا ہوتاہے، اور ایسی تقریبات سے اخبارات میں زندہ رہنے میں مددملتی ہے۔ ہر ایسی تنظیم میںاسی قبیل کے افراد کی تعداد خاطر خواہ سے زیادہ ہی ہوتی ہے۔ اپنی ہی منعقدہ رسمی تقریب کے اختتام پر یہ سب خود ساختہ میزبان، مہمانِ خصوصی کے ساتھ ساتھ اس طرح دوڑ لگاتے ہیں جیسے کہ جلے توے پر پاﺅں پڑگیا ہو، اور سجی سجائی خاص ترین میز پر مہمان خصوصی کی سنگت کے لیے آخری لقمہ تک مقابلہ کرتے ، اور بڑھ چڑھ کر کھانوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ دوسری جانب عام مہمان، جن کے چندے اور خریدے ہوئے ٹکٹوں کے طفیل یہ محفل سجی ہوتی ہے، کیمروں کی چمکتی ہوئی فلیش لائٹوں کے درمیان، سوکھے منہ، اور لٹکتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ کھانے اور شہرت کی بھوک کا یہ سبق آموز تماشہ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میوزیکل چیئر کا ایک تیز رفتار اور دل چسپ کھیل ہورہا ہے۔ اس کھیل میں ہارنے والوں کی صورت دیکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ عام طور پر اپنی ہار پر یہ ” معدہ شکستہ“ افراد اپنی اس تنظیم کی سابقہ ”کھارروائیوں“ پر لعنت ملامت کرتے ہیں، اور ”کھاﺅ، پیو، موج کرو“ کے (مُرغ) زرّیں جیسے ”خیالِ پُرحلال“ پر عمل کرتے ہوئے ہاتھ دھو کر ایک نئی ”تن۔ظیم“ کی بنیاد ڈال لیتے ہیں۔ دودھ کا جلا، چھاچھ پھونک، پھونک کر پیتا ہے کے مصداق اب یہ آزمودہ اور مُجرّب فارمولہ استعمال کیا جاتا ہے کہ بہر صورت اعلیٰ عہدہ داران کی اور کھانے کی میز پر کرسیوں کی تعداد مساوی سے زائد نہ ہو۔ ساتھ ساتھ یہ بھی خیال رہتاہے کہ اس توند پرست تنظیم کے تمام ”اعلیٰ معدہ داران“ کی مجموعی تعداد اور گروپ تصویر کا سائز بھی کچھ ایسا ہی رہے کہ اخبارات میں چھپنے پر کم از کم خود اپنی شناخت کرنے اور کرانے میں سہولت رہے۔
اچھّا، اس وقت تو آپ ہمیں اجازت دیں۔ یاد آیا کہ مظلوم و بے کس شوہروں پر مشتمل ہماری نوساختہ، خفیہ اور بیویوں سے پوشیدہ تنظیم ”بے نوا“ نے آج بیچلرز بریانی کے نام سے ایک ون ڈش کا انتظام کیا ہے۔ آپ بھی ”لائیے“ نا !
٭

بدھ، ۲۳ جنوری ۲۰۰۸ء

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
دیکھیے اب ٹھیرتی ہے جاکر نظر کہاں

C) 1998-2008 A syndicated essay by Justuju Researchers and Publishers - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Research and Publishing Agency, hereby grant a permission for and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license

No comments:

Google Scholar