جستجو / حالاتِ حاضرہ
پاکستانی سیاست، بے نظیر کے بعد
محمد بن قاسمؔ
یہ الفاظ صرف مشہور برطانوی ڈرامہ نگارولیم شیکسپیئر( 1564-1616 ) ہی کے نہیں ، کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے، جس پرہر عورت اور مرد کو صرف ایک اداکار کی حیثیت میں آنا اور جانا ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم سے آج تک تمام نسلِ انسانی یہ مناظر دیکھتی آئی ہے، اور اسی قسم کے خیالات کا اظہار مختلف ادیب اور فلسفی پہلے بھی کرتے رہے تھے۔ البتہ یہ ایک خاص بات ہے کہ اس اسٹیج پر کچھ ایسے افراد بھی آکر اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو ان کی کارکردگی کی وجہ سے تاریخ میں نمایاں طور پر رقم ہوجاتاہے، اور دیگر عام افراد کی نسبت انہیں ان کی خوبیوں، خامیوں، اور کارناموں کی وجہ سے ایک عرصہ تک یاد رکھا جاتاہے۔ پاکستانی سیاسی بھٹّو خاندان کے کئی افراد اس تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ بے نظیر بھٹّو (953-2007) اپنی ڈرامائی زندگی کی طرح اپنی موت کے بعد بھی اپنا سایہ پاکستانی سیاست پر ڈالتی رہیں گی۔ بالکل اسی طرح، جیسے کہ وہ خود اپنی زندگی میں اپنے مرحوم والد کی تصویر، کارناموں اور ان کی روایات کے سائے میں سیاست کرتی رہیں۔ انہیں یہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ کسی بھی اسلامی ملک کی پہلی اور 35 برس کی عمر میں کم سن ترین وزیر اعظم بنیں۔
پاکستان کے ایک زندگی سے بھرپور شہر، راولپنڈی کی وجہ ء شہرت 1951 میں اس وقت کے ایک مقبول وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے کھلے عام قتل کے بعد سے آج تک کسی قابل تعریف واقعہ سے نہیں جڑی ہوئی ہے۔ چاہے وہ اوجھڑی کیمپ کا حادثہ ہو، یا پھر 27 دسمبر 2007کی خونی شام ہو، جب کہ عین اذانِ مغرب کے وقت لگ بھگ 5:15 پر ایک قاتلانہ حملہِ نے ایک اور وزیر اعظم(سابقہ) کی جان اس کے ہزاروں حمایتیوں کے سامنے لے لی۔ پاکستانیوں کے لیے یہ سانحہ کئی معنوںمیں رنجیدگی کے رنگ لیے ہوئے ہے۔ بے نظیر بھٹو ایک عرصہ کے بعد اپنی سیاسی جدّوجہد کا پھل پانے والی نظر آرہی تھیں۔ اور بھٹّو خاندان میں خوشیوں کا دور لوٹ آنے کا سماں پیدا ہوگیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی حمایتوں کے ریکارڈ کے مطابق عوام کی ایک کثیر تعداد اُن کی اِن متوقّع خوشیوں میں شریک ہورہی تھی۔ دوسری جانب، بے نظیر کے حمایتی، اور مخالفین، اور دیگر غیرجانب سیاسی پارٹیاں بھی جلد ہی ہونے والے انتخابات کی وجہ سے خوش تھیں، کہ اب ایک مرتبہ پھر انہیں جمہوریت کی دوڑ میں مسابقت اور متوقّع جیت کا امکان نظر آتاتھا۔ بے نظیر کی اس رنجیدہ اور غم انگیز موت کی وجہ سے ان کے مخالفین بھی پریشان ہیں، کیونکہ غم زدہ عوام کا غیض و غضب ایک سیلاب کی صورت میں سڑکوں، گلیوں، شہروں اور دیہاتوں میں بہہ نکلا ہے، اور جو قتل و غارت گری، توڑ پھوڑ ہوچکی ہے، اور ہورہی ہے، وہ پاکستان کے دشمنوں کے منصوبوں کے عین مطابق ہے۔ اور یہ مخالفین یہ بھی جانتے ہیں کہ آج بے نظیر تو کل اُن کی بھی باری ہوسکتی ہے۔ کیونکہ بے نظیر کو اس سفّاکی سے قتل کرنے والا دشمن فی الوقت نادیدہ ہے، اور اس کا ہدف صرف شخصیات ہی نہیں، بلکہ پاکستان کا وجوداور اس کا استحکام ہے۔ یہ ہی دشمن اپنی کارروائیوں کا نشانہ صدر پرویز مشرّف، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، اور سابق وزیرِ داخلہ آفتاب احمد شیرپائو کو بھی بنا چکاہے۔ اس کے علاوہ وہ وقتاً فوقتاً ہماری مسلّح افواج، اور دیگر معصوم افراد کو بھی زخمی اور قتل کرچکا ہے۔ چند بے شعور صحافی جنہیں ٹیلی وژن اسکرین تک رسائی حاصل ہوگئی ہے، اس سانحہ کی ذمّہ داری ان شکوک کی بنیاد پر متعیّن کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن کا اظہار مرحومہ نے اکتوبر 2007 میں صدر مشرّف کے نام ایک خط میں کیا تھا۔ اس خط میں اپنے چند اہم سیاسی مخالفین، اور احتساب عدالت کے چند کارکنان کے نام درج کردیے گئے تھے۔ اس بارے میں سابق جنرل(ر) حمید گل کا کہنا قابل قدر ہے کہ ان سمیت تمام متذکرہ افراد سے تفتیش کی جائے۔ چنانچہ تمام تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کو اس امر کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، اور اس بارے میں ایسی قیاس آرائیوں سے گریز کرنا بہتر ہوگا، جن میں قبل از وقت کسی شخص کو ذاتی حیثیت میں ملوّث کردیا جائے۔ پاکستان کے دشمن نہ صرف اس کی سرحدوں کے اندر مقیم ہیں، بلکہ وہ مختلف دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے روپ میں بھی پاکستان میں اتھل پتھل برپا کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی کارروائی کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ خود ان کے ایجنٹوں کو بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کا اصل باس کون ہے۔ تہہ در تہہ تنظیمی سطحوں کی بناء پر وہ اصل مقاصد سے بہرہ ور نہیں ہوتے، اور صرف اپنے مالی فوائد سے ہی واسطہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ القاعدہ کی کارروائی ہے، تو وہ اس بارے میں چپ رہنے والی تنظیم نہیں۔
اب موجودہ حکومت ایک عجیب مخمصہ کا شکار ہے۔ اگر وہ 8 جنوری 2008 کے انتخابات کا انعقاد اپنے اعلان شدہ پروگرام کے مطابق کرتی ہے تو وہ ایک سنگ دل حکومت کہلائے گی۔ اور اگر انتخابات کو کسی حد تک ملتوی کیا گیا تو تمام دنیا اور حزبِ اختلاف بھی اس کو تنقید کا نشانہ بنائے گی۔ ہماری تاریخ کے اس سیاہ باب کے لکھے جانے کے موقع پر جہاں دنیا کے اہم ممالک کے رہنما اس پر شدید رنج و غم کا اظہار کررہے ہیں، یہ ایک دل چسپ معاملہ ہے کہ امریکی صدر یہ قبل از وقت بیان دے رہے ہیں کہ پاکستانی انتخابات کو ہرگز ملتوی نہ کیا جائے! اور اقوامِ متحدہ کی سیکوریٹی کونسل ایک نادر روزگار اجلاس کا اہتمام کررہی ہے، جس میں اس سانحہ کے حوالہِ سے پاکستانی استحکام کو یقینا نشانہ بنایا جانے کا امکان ہے۔ جہاں تک حکومت مخالف افراد اور پارٹیوں کا تعلّق ہے تو وہ اس سنگین موقع پر اس کے سیاسی فوائد سمیٹنے کے لیے ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا بھی اعلان کرہے ہیں، اور ساتھ ساتھ صدر پرویز مشرّف کو بھی اس دلدل میں گھسیٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستانی عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ مغربی طاقتیں جو بے نظیر اور پاکستان پیپلز پارٹی پر اپنے دائو لگائے ہوئے تھیں، اس وقت سخت گو مگو کی حالت میں ہیں۔ اور وہ اس وقت نئے سیاسی مہرے ڈھونڈنے کی تگ و دو میں لگ جائیں گی۔ کیوں کہ انہیں بہر حال بے نظیر کی موت کے بعد بھی اپنے ایجنڈے کو بڑھانے کے لیے کوئی ساتھی فریق درکار ہیں۔ بے نظیر کی اس بے وقت موت کے بعد بھٹّو خاندان کے ایک عرصہ سے جاری رہنے والے مالی اور جائیدادوں کے تنازعات اب ایک اور نیا رُخ اختیار کرلیں گے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خاندان کچھ وقت کے لیے سیاست سے کنارہ کشی ہی اختیار کرلے۔ تاہم ایسا کرنا وراثتی سیاست کے لیے مفید نہ ہوگا، کیونکہ کسی ایسی صورت میں غیرخاندانی سیاسی بڑے اس پر قبضہ جما سکتے ہیں۔ اس فہرست میں اعتزاز احسن، اور مخدوم امین فہیم جیسے ممکنہ رہنما شامل ہوسکتے ہیں۔ وہ تمام افراد جو اس سیاسی پارٹی میں صرف شخصی پوجا کی بناء پر شامل رہے، وہ سب اب اپنے آپ کو ایک دوراہے پر پائیں گے، جو پی پی پی میں اب ایک اصلی جمہوری اقدار کی بحالی، اور کسی ایک نئے خاندانی وارث کی گدّی نشینی کی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ جب تک بے نظیر زندہ رہیں، انہوں نے کسی اور اعلیٰ پایہ کے رہنما کو ابھرنے نہ دیا، اور نہ ہی پارٹی کے مستقبل کی رہنمائی کے بارے میں کوئی ایسی پالیسی بنائی یا چھوڑی جس کے بارے میں عوام کو علم ہو۔ چنانچہ، بے نظیربھٹو کے بعد پی پی پی کے لیے یہ ایک موقعہ ہے کہ وہ اب اپنی اندرونی سیاست کا رخ بھی جمہوریت کی جانب موڑ دے۔ اگر ایسا ہوا بھی تو اس کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا، تاکہ موجودہ غم زدہ اور نہایت ہی جذباتی فضاء میں ایک ٹھیرائو آجائے۔ مرتضیٰ بھٹّو مرحوم کی تعلیم یافتہ صاحبزادی فاطمہ بھٹّو سے کچھ امیّدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ مگر اب تک انہوں نے سیاست میں اپنی آمد کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ آصف زرداری، صنم بھٹو، مرتضٰی کی اہلیہ غنویٰ بھٹو، اور دیگر افراد کی جانب سے پارٹی کی کامیاب سرداری حاصل کرنے کے بھی امکانات مختلف وجوہ سے روشن نہیں۔ چونکہ اس وقت قومی سطح کا کوئی بھی پی پی پی کا رہنما سامنے نہیں آسکا ہے، چنانچہ اب پی پی پی میں علاقائی عنصر کے ابھر آنے اور اس کے کئی حصّوں میں بٹ جانے کے منفی امکانات بھی پائے جاتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو اپنے تمام تر متنازعہ کرداروں کے باوجود ایک بہادر خاتون کی حیثیت سے یاد رکھی جائیں گی۔ انہیں اپنی زندگی کے بارے میں لاحق خطرات کا نہ صرف بخوبی اندازہ تھا، بلکہ وہ 18 اکتوبر 2007 کو ایک خاک وخون کے دریا سے گزر بھی چکی تھیں۔ تاہم انہیں یہ یقین ِ واثق تھا کہ پاکستانی معاشرہ میں انہیں ایک خاتون رہنما کی حیثیت سے جو وقار اور مرتبہ حاصل ہے، اس کا پاس کیا جائے گا، اور کوئی بھی حملہ آور انہیں قتل کرنے کے بارے میں نہیں سوچے گا۔ تاہم ایک بدلے ہوئے اور کسی قدر انارکی کا شکارپاکستانی معاشرہ میں یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ اس بارے میں کئی پاکستانی رہنما انہیں تنبیہ کرتے رہے، اور بتاتے رہے کہ آج کا پاکستان 8 برس پہلے کا پاکستان نہیں، اور وہ تخریب کاروں کے اہداف کی فہرست میں شامل ہیں۔ نہ صرف بے نظیر بھٹونے اس پر کان نہیں دھرا، بلکہ وہ اپنے مربیّوں کے دبائو میں ایسے بیانات بھی جاری کرتی رہیں، جو ایک طاقت ور، با اثر اور مخصوص طبقہِ میں ان کی غیر مقبولیت کا سبب بنتے رہے۔ ان میں پاکستانی ایٹمی اثاثوں، اس کے بانیوں، اور جنگجوئوں کے خلاف اقدامات کے بارے میں ان کے خیالات شامل ہیں۔ وہ اپنا عوامی جلسوں اور ریلیوں کا اندازِ سیاست تبدیل کرکے، جدید میڈیا کی قوّتِ ابلاغ استعمال کرکے اس انجام سے بچ سکتی تھیں۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔
جہاں تک ایک مقبول سیاسی لیڈر کے قتل کے بعد اپنے غم و غصّہ کے پُر تشدّد اظہار کا تعلّق ہے، تو یہ ہماری ایک قومی اور معاشرتی کمزوری ہے کہ ہم خود کو ہی نقصان پہنچا کر اظہارِ غم کرتے ہیں۔ کیا راجیو گاندھی ، جان ایف کنیڈی جیسے چوٹی کے رہنمائوں کے قتل کے بعد ان کی قوم نے بھی اپنی قومی املاک کو تباہ،ا ور اپنے متصوّرہ مخالفین کو تشدّد کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ ہماری قوم کو اس نسبت سے ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ صرف کراچی میں نذرِ آتش کیے گئے ایک بہترین میڈیکل سنٹر کا اگر ذکر کردیا جائے تو اس نقصان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ نیشنل میڈیکل سنٹر ہسپتال، ڈیفنس، ہزاروں مریضوں کا علاج دیگر پرائیویٹ ہسپتالوں کے مقابلہِ میں ایک چوتھائی قیمت پر کردیتا تھا، خاص طور پر دل کے مریضوں کے کامیاب اور کم قیمت آپریشنوں کے لیے اس کی شہرت آسمانوں کو چھو رہی تھی۔ بدقسمتی سے یہ بھی تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بن گیا۔ تادمِ تحریر صرف کراچی میں 500 سے زائد معصوم شہریوں کی کاریں تباہ کی جاچکی ہیں، کئی ٹرینوں کو اندرونِ سندھ جلادیا گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں یہ ایک امرِ حیرت ہے کہ پی پی پی کے کسی بھی مرکزی رہنما کی جانب سے عوام کو پرُ امن رہنے کی کوئی بھی موء ثر اپیل سامنے نہیں آئی ہے۔ یہاں تک کہ جب مخدوم امین فہیم کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں صحافیوں کی جانب سے انہیں اشارہ دیا گیا کہ کیا ان کے پاس عوام کے لیے کوئی پیغام ہے! تو انہوں نے اس کا ایک گول مول سا جواب دے دیا۔ ایسے رہنمائوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ تاریخ ایک محدّب عدسہ اور خوردبین لے کر ان کے اس روّیہ اور کردار کا احتساب کرتی رہے گی۔
آخر میں اس سیاسی اور قومی جائزہ کے بعد، ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہوئے مرحومہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، اور ان کے تمام لواحقین ، ورثاء ، اہلِ خاندان ، پی پی پی کے تمام کارکنوں، اور پاکستانی عوام کو بھی صبر عطا فرمائے، اور اس بھیانک واقعہ کے ذمہ دار مجرمین کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچائے۔ آمین۔ اس ضمن میں حکومت کی جانب سے 3 روزہ سوگ کا اعلان، اور اس واقعہ کی مکمل تفتیش اور تحقیق کا عزم ایک خوش آئند امر ہے۔ یہ بھی بہتر ہوگا کہ فی الوقت انتخابات کو ملتوی کردیا جائے، اور محترمہ کے چہلم کے بعد کی کوئی مناسب تاریخ مقرر کی جائے،جس میں انتخابی مہم کے لیے بھی مزید وقت ہو، اور اس دوران بائیکاٹ پر تلی سیاسی جماعتیں بھی اپنے خیالات اور فیصلوں پر ٹھنڈے دل سے نظرِ ثانی کرلیں۔
٭
جمعہ، 28 دسمبر 2007
(c) 2007 Justuju Publishers - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Publishers, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license
No comments:
Post a Comment