سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Thursday, April 10, 2008

جستجو / حالاتِ حاضرہ: انتقام اور آگ وخون









جستجو / حالاتِ حاضرہ

انتقام اور آگ وخون


سیاسی انتقامی کارروائیوں کے نتائج قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں سیاستدانوں پر بڑی بھاری ذمّہ داری آن پڑی ہے۔ چیف جسٹس قضیہ کا ایک باعزّت حل ۔۔

محمد بن قاسم

پیارے قارئین، آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے انتخابات کے فوراً بعد، ان کے نتائج کی روشنی میں، اپنے ایک مضمون میں آپ کو آگاہ اور خبردار کیا تھا کہ ایک عرصہِ کے بعد تخت شاہی پربراجمان ہونے والی سیاسی پارٹیاں اور ان کے کارکن کم از کم ابتداءمیں اپنے بپھرے ہوئے جذبات کے اظہار میں قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم پاکستانیوں نے اپنا دل بڑا کرنے اور قرارِ واقعی وسعتِ قلبی دکھانے کے بجائے، تنگ دلی، اور انتقامی جذبات کا اظہار کرکے ایک قومی مرض کے بارے میں مہر ثبت کردی ہے۔ اور وہ مرض ہے، عدم رواداری، اور عدم برداشت، اور تحمّل سے عاری روّیے۔
اس بارے میں یہ امر بھی ایک تشویش کا سبب ہے کہ ہمارے جدید میڈیا پر آنے والے چند نام نہاد تجزیہ کار ان تمام بدنما واقعات کا دفاع بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کئی ’دان شور‘ حضرات یہ کہتے سنے گئے کہ بھئی ان لوگوں نے جو بھی بویا تھا، وہی اب وہ کاٹ رہے ہیں۔ گویا کہ قانون ہاتھ میں لینے والے منتقم مزاج افراد اور ان کے رہنماﺅں کے ایماءپر کیے جانے والے تشدّد اور آگ و خون کے واقعات ان کے نزدیک قابلِ فہم ہیں۔ کئی افراد یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بھئی ان پٹنے والے افراد کے انٹرنیٹ پر پائے جانے والے وڈیو دیکھ لیں، یہ اپنے ملازمین کے ساتھ خود بھی بدسلوکی کرتے رہے ہیں۔ ایسے کسی بھی وڈیو پر فوری طور پر یقین لانا، بلا تفتیش اور متعلّقہ لوگوں سے سوال جواب اور تکنیکی ماہرین کی آراءکے بغیر قبل از وقت ہوگا۔ دراصل شہروں میں رہنے والے پاکستانیوں کو اکثر صورتوں میں یہ علم ہی نہیں کہ زمیندار، جاگیردار، سردار، وغیرہ جیسے طبقات اپنے ملازمین کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھتے ہیں۔ جو افراد ارباب غلام رحیم پر اس قسم کے الزامات عائد کررہے ہیں، وہ صرف ایک مرتبہ اینٹوں کے بھٹّوں پر کام کرنے والے مزدوروں، اور دور دراز مقامات پر زرعی خدمات انجام دینے والے ہاریوں کی حالت زار پر ایک نظر ڈال لیں۔ حسّاس افراد ا ن کا رہن سہن دیکھ کر اپنی آنکھوںسے آنسوبہنے سے نہیں روک سکیں گے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ یاد کیجیے کہ ہمارے میڈیا نے چند روز قبل ان غریب افراد کے بارے میں کتنا شور مچایا تھا، جنہیں دھوکہِ سے ایران لے جاکر بیگار لی جارہی تھی۔ کیا کسی نے ان اسباب کے بارے میں غور کیا، جن کی وجہ سے وہ ایک معمولی تنخواہ (چار ہزار روپیے ماہانہ کے لگ بھگ) کے لیے ویرانوں میں بھٹکنے پر تیّار ہوگئے تھے! کسی نے ان سے پوچھا، بھائیو، تم کیوں اپنا ملک چھوڑ کر اس طرح ایران جانے پر مجبورہوگئے تھے! کیا تم کو اپنے ملک میں دو وقت کی روٹی میسّر تھی؟کراچی، حیدرآباد سے کچھ بھی آگے چلے جائیں، اندرونِ سندھ ایک عام سندھی پاکستانی کی زندگی پھولوں کی سیج پر نہیں، بلکہ کانٹوں کی سیج پر گزرتی ہے۔ اکثر گاﺅں گوٹھوں میں پینے کا میٹھا پانی تک نہیں، اور کھارے کڑوے پانی پر گزارا کرنا پڑتاہے۔ شہروں میں رہ کر ان کو لاحق متعدد تکالیف کا اندازہ لگانا دشوار ہے، جس میں ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا بداخلاقیوں سے پرُ روّیہ بھی ہے۔
چنانچہ جب جناب ڈاکٹر شیرافگن صاحب کو لاہور میں محصور کرکے، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ، ذلیل کیا گیا، گھٹیانعروں سے مزیّن انڈے، جوتے ، تھپّڑ، برسائے گئے، انہیں گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا گیا، اور ایمبولنس کے ڈرائیور کو ڈرا کر دوڑا دیا گیا، اور اس ایمبولینس کی چابی چھین کر، اس کے شیشے توڑ دیے گئے، تو یہ کوئی عوامی ردّعمل نہیں، بلکہ ایک سوچا سمجھا عمل تھا۔ آپ خود بھی سوچیں، کہ، انڈوں پر کچھ بھی لکھنے میں کتنا وقت لگا ہوگا! عوام جب کسی ایک سیاستدان سے ناراض ہوئے تو انہوں نے پہلے ہی اسے ووٹ نہ دے کر اپنے غم و غصّہ کا اظہار کردیا۔ اس سے آگے جو حدود ہیں ، وہ سب قانون سے ماورا قابلِ مذمّت حرکات ہیں۔ ارباب غلام رحیم، شیرافگن، اور دیگر سیاسی مخالفین کے ساتھ جسمانی بدسلوکی کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج جیت کر حکومت کرنے والے سیاستدان بھی دودھ سے نہائے پوتر پوت نہیں۔ انہیں بھی قومی مفاہمتی آرڈیننس کی چھتری کے نیچے آکر پناہ لینا پڑی۔ تو اگر کسی وقت ایک دیگر عوامی ردّعمل بھی آگیا، جس کی وجہ سے ان کی بھی اسی سبب پٹائی ہونے لگی، تو کیا ہوگا؟ کیا اس وقت بھی اسی قسم کے دلائل سے دفاع کیا جائے گا، جس سے اعتزاز احسن جیسے قابل اور ذہین افراد اس وقت کررہے ہیں۔۔۔ اعتزاز احسن صاحب نے جو عارضی استعفیٰ اپنی وکلاءبرادری کی سرداری سے دیا ہے، وہ بھی ایک ڈرامائی امر محسوس ہوتا ہے۔۔۔ کیونکہ خود ان کے بقول یہ ایک علامتی قدم ہے، اور وہ اسے جلد ہی واپس اپنی ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے۔ اس موقع پر جناب ریٹائرڈ جسٹس طارق محمود صاحب کو داد دینا ضروری ہے ، کیونکہ اعتزاز احسن کے مقابلہِ میں انہوں نے صاف صاف بتادیا کہ شیرافگن کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں میں وکلاءشریک تھے۔ جب کہ اعتزاز احسن صاحب اس واقعہ کی ذمّہ داری پولیس پر ہی ڈالتے رہے۔ انہوں نے اسباب و اثرات Cause and Effect کا تجزیہ نہ کیا۔ پیارے قارئین، اس موقع پر ہمیں کنیڈین اداکار و ہدایت کار، جم کیری کی مشہورِ زمانہ مزاحیہ فلم، لائر، لائر Liar, Liar یاد آرہی ہے۔ اس میں ہیرو ایک کامیاب وکیل ہوتاہے، اور وہ فلم کے ایک بہترین طنزیہ اور مزاحیہ منظر میں اپنے کم سن بیٹے کو یہ سمجھانے کی ناکام کوشش کرتا ہے کہ بڑوں کو کبھی نہ کبھی جھوٹ بولنا ہی پڑتا ہے۔ اور جب وہ اپنے بیٹے سے ہمیشہ سچ بولنے کا وعدہ کرلیتا ہے تو معاملات دل چسپ رخ اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ (اگر آپ ایک مزے دار وڈیو دیکھنا چاہیں تو اسURL لنک پر کلک کریں: http://www.youtube.com/watch?v=saq7czzP_O4) اگر آپ عمدہ فلسفیانہ، معاشرتی، اور پرُمزاح آرٹ دیکھنا پسند کرتے ہیں تو ہم یہ سفارش کرتے ہیں کہ آپ یہ فلم ضرور دیکھ ڈالیں، جس سے آپ کو پاکستانی وکلاءکی تحریک ایک نئے زاویہ سے بھی نظرآنے لگے گی۔چنانچہ اعتزاز احسن صاحب بھی جم کیری کی طرح اس موقع پر ہمیں سچ کے بارے میں یقین نہ دلاسکے۔ جب کہ ایک جری ٹی وی چینل کے ایک نوجوان نمائندہ، مدثربٹ، نے لاہور سے یہ بھانڈا پھوڑ دیا کہ شیر افگن صاحب کے ساتھ پیش آنے والے بدنما واقعہ میں مسلم لیگ نواز دھڑہ کے چند متحرک افراد براہِ راست ملوّث تھے، اور اس کی نگرانی کررہے تھے۔ چونکہ کروڑوں پاکستانی اصلی تی وڈّے مناظر خود ٹی وی چینلوں پر براہِ راست نشریات کے ذریعہ دیکھ چکے تھے، انہیں بے وقوف بنانا اب ممکن نہ تھا۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ کارپردازانِ نئی حکومت میڈیا کے کان کھینچنے کے کچھ نئے طریقے ڈھونڈ ہی نکالیں گے۔
جدید ٹی وی چینلوں سے پہلے عوامی جذبات کواتنی جلدی برانگیختہ کرنا آسان نہ تھا۔ خبریں، تصاویر، تبصرے، اور تعصّبات، کچھوے کی چال سے آگے بڑھتے تھے۔ آج یہ سب جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتے ہیں۔ ہمیں کئی افراد نے بتایا کہ وہ اور ان کے اہلِ خانہ شیرافگن کے ساتھ ہونے والے سلوک پر رودیے۔ اب یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اگر کوئی کیمرہ کئی ماہ سے اپنے گھر میں محصور چیف جسٹس (معزول!) کے حالات و جذبات کی عکاّسی بھی کرتا رہتا تو کیا ہوتا۔۔ یقینا وہ بھی ایک رقّت آمیز منظرہوتا۔ اب جب چیف جسٹس صاحب کی بات آئی ہے تو یہ خیال آتا ہے کہ اس قضیہ کا باعزّت ایک حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بحال کرکے، انہیں پاکستانی قوانین اور عدالتی طریقہءکار کی تجدید و ازسرِ نو تدوین ، تحریر و تالیف ، اور تعلیم و تربیت پر ماءمور کردیا جائے۔ اس ضمن میں وزارتِ قانون میں ایک نیا شعبہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
اب کچھ کراچی کے بارے میں بھی آپ سے بات ہوجائے۔ انسانوں کو بے رحمانہ انداز میں زندہ جلادینا، اور پھر شہر بھرمیں گاڑیوں کو آگ لگانا، اپنے مخالفین پر فائرنگ کرنا، اور شہری زندگی کو منجمد کردینا ایک عام شخص کے بس سے باہر ہے۔یہ بھی کسی پیشہ ور گروہ کی کارروائی ہے۔ ان کی ڈوریاں کس نے ہلائیں، یہ ایک پراسرار سوال ہے۔ اس قسم کے تشدد کے واقعات متحدہ اور پی پی پی کی مفاہمت اور مل جل کرکام کرنے کے مواقع مسدود کرتے جارہے ہیں۔ کراچی میں پہلی مرتبہ یہ بھی دیکھا گیا کہ میڈیا کے کارکنوں پر چند نقاب پوشوں نے حملہ کردیا اور انہیں جی بھر کے زدوکوب کیا گیا۔ یہاں تک کہ جیو ٹی وی کی ایک خاتون کیمرہ پرسن لالہ رخ کو بھی نہ بخشاگیا، اور ان کا بازو توڑدیا گیا۔ یہ نقاب پوش میڈیا پر ہی کیوں حملے کررہے تھے؟ اس سے کسے فائدہ پہنچا، یہ بھی ایک قابلِ تحقیق امر ہے۔ براہِ راست نشریات کرنے والا میڈیا بدنیت اور جرائم پیشہ افراد کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔ ان تمام واقعات سے پی پی پی کی نئی حکومت اپنے مخالفین کے خلاف سخت قانونی کارروائیوں کا جواز پالے گی۔ اور یہ خوف ہے کہ اگر ایسی کارروائیاں کی گئیں تو سیاسی معاملات الجھتے ہی جائیں گے۔

٭

جستجو پبلشرز اور ریسرچرز
جمعرات، 10 اپریل 2008

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
دیکھیے اب ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

c) 2008 A syndicated essay by Justuju Research and Publishing - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Research and Publishing Agency, hereby grant a permission for and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license non commercial agreement. This piece must be published "as is" to qualify for this license

No comments:

Google Scholar