سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Tuesday, April 15, 2008

ایک ”عزیزستم گر“








Default جستجو: حالات حاضرہ -- ایک ”عزیزستم گر“

جستجو / حالاتِ حاضرہ

ایک ”عزیزستم گر“

پاکستانی قومی اسمبلی کے جری درباں کے لیے تمغہ ءجراءت کی سفارش: ایسے درباں اگر مغلیہ دور میں ہوتے، تو آج بھی تمام ہندوستان مسلمانوں کے زیرِ نگیں ہوتا

محمد بن قاسم

ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نامہرباں نہیں ہے، اگر مہرباں نہیں


مرزا اسد اللہ خاں غالب، جو 27 دسمبر 1797ء کو پیدا ہوئے تھے (وفات 15 فروری 1869ئ)، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی نابغہ ءروزگار شخصیت تھے، جو اپنے زمانہ سے صدیوں آگے تھے۔ ان کا ’ایک ہزار آٹھ سودو‘ اشعار پر مبنی اردو کلام کا دیوان، اور ان کے نثری اردو مکتوبات اس خیال کے بارے میں بذاتِ خود روشن دلیلں ہیں۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں اس دنیا میں تشریف لانے والے اس عظیم شاعر کا دیوان قدردانوں کے لیے آج بھی ایک الہامی کتاب سا درجہ رکھتاہے۔ پیارے قارئین، اب آپ اس کا اندازہ صرف ایک اس امر سے لگا لیجیے کہ وہ پاکستان میں امریکی سفیرہ، این پیٹرسن اور امریکہ کے بارے میں مندرجہ بالا شعر میں کیا، کیا گنجِ معانی چھپاگئے تھے۔ امریکا، اور اس کے نمائندے پاکستان پر کون سا ظلم وستم ہے جو وہ ڈھانے پر تیّار نہیں۔۔۔ اور ہم ہیں کہ ان کی ہر ایک ادا پر واہ، واہ، اور داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اسی قبیل کا ایک تازہ ترین واقعہ بروز جمعہ، 11 اپریل 2008ئ کو اسلام آباد میں پیش آیا۔
پاکستانی اخبارات میں ایک چند سطری، سہمی سہمی سی خبرشائع ہوئی ہے کہ جب امریکی سفیرہ پاکستانی قومی اسمبلی پہنچیں تو ان سے پاکستانی دربانوں نے اسمبلی میں داخلہ کا کارڈ اور شناخت وغیرہ طلب کرلی۔ اس پر ہماری عزیزہ، امریکی سفیرہ، نے بہت برامنایا، اور سنا ہے کہ کئی واسطے دیئے اور ہاتھ بھی جوڑے۔ مگر وہ احمق دربان نہ مانے۔ اس پر امریکی سفیرہ کا ”گارڈ“ مشتعل ہوگیا۔ مشتعل ہونے کے بعد اس نے کیا کیا، اور اس کو کس طرح ’ٹھنڈا کیا گیا‘ اس بارے میں راوی خاموش ہے۔ اس اشتعال سے ہمارا نوزائیدہ ایوانِ قومی اسمبلی دہل اورکسی زلزلہ کے اثرات کی طرح لرز کر رہ گیا، اور امریکی سفیرہ ایک فاتحانہ انداز دل ربائی سے مارچ کرتی ہوئی اسمبلی میں گھس بیٹھیں۔ اب آپ اس واقعہ کی سنگینی کا اندازہ لگائیے۔ اگر ہمارے ’اعلیٰ‘ حکّام (جن کے بارے میں بھی فی الحال کوئی خبر نہیں)، جن کے سہم جانے پر امریکی سفیرہ کوداخل ہونے دیا گیا، ایسا نہ کرتے تو کیاہوتا! ان کے نظروں کے سامنے گوانٹانامو خلیج کے ’کیمپ ایکس رے‘ کے مناظر پھرنے لگے ہوں گے، اور پھر نہ جانے ہمارے اس احمق اور بہادر دربان کا کیا بنا ہوگا، جس نے یہ جراءت مندانہ کارنامہ سر انجام دیا۔ آپ کے ذہن میں بھی وہ ہی سوالات ابھر رہے ہوں گے، کہ آخر یہ مشتعل گارڈ تھا کون؟ کیا وہ ایک پاکستانی گارڈ ہے، یا پھر امریکی کمانڈو فورس کا ایک رکن۔ اور کیا وہ صرف اکیلا ہی مشتعل گارڈ تھا، یا پھر اس کے پیچھے پوری ایک پھنکارتی ہوئی فوجِ جرّار بھی موجود تھی۔ اور پھر بقول امریکیوں کے’ لاکھوںڈالر کا ایک سوال‘، کہ اس امریکی گارڈ کے نزدیک پاکستانیوں نے کون سی اشتعال انگیز حرکت کی تھی! کیا پاکستانی حاکمیت کے مقدس ترین ادارہ میں داخلہ کے وقت باقاعدہ اجازت نامہ، اور جسمانی چیکنگ کی ضرورت نہیں! امریکیوں نے تو پاکستانیوں کے دورہ ءامریکا کے متعدد مواقع پر پاکستانی ’اعلیٰ حکام‘ کی شرم و حیا کے بڑے بڑے امتحان لیے ہیں۔ یہاں تک کہ دو چار برس پہلے پاکستانی سفارت خانہ کو شرما حضوری یہ بیان بھی دینا پڑا تھا کہ یہ مکمّل معائنہ تو ہم نے خودہی کرایا تھا، بلکہ اس کے لیے اخراجات بھی ادا کیے تھے، یعنی یہ کلہاڑی تو ہم نے ہی خود خرید کر اپنے پاﺅں پر ماری تھی، وغیرہ ۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ ہم خود ہی اپنے ملک کے باسیوں پر بھیانک امریکی میزائل گرالیتے ہیں۔ اب جہاں تک اس امر کا تعلّق ہے کہ کیا امریکی سفیرہ کی جسمانی چیکنگ کے لیے کوئی نسائی دربان موجود تھی یانہیں، تو امریکی ثقافت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہمارے نزدیک تو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 11 ستمبر2001ءکے بعد امریکی شہروں اور ایئرپورٹوں پر کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جب کہ مسلمان اور پاکستانی خواتین کے وقار اور روایتوں کے خلاف امریکی مرد اہل کاروں نے ان کی مکمل جسمانی تلاشی لینے پر اصرار کیا، یہاں تک کہ ایک پاکستانی امریکن خاتون ایک سپر مارکیٹ میں اپنے ساتھ روا رکھے جانے والی بد سلوکی کے نتیجہ میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال بھی کرگئیں۔
گزشتہ دوبرسوں کے دوران ہم نے آپ کی طرح پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی وہ تصویر بھی دیکھی، جس میں اٹلی کے وزیرِ خارجہ یا وزیرِ دفاع پاکستانی وزارتِ خارجہ کے دورہ پر تشریف لائے تھے۔ وزارتِ خارجہ کے داخلی دروازہ پر ان کے ساتھ ایک شخص بڑی پُر رعونت انداز میں ایک بہت بڑی مشین گن اٹھائے ہوا تھا، جس قسم کی گن آپ نے ریمبو، اور ٹرمینیٹر جیسی فلموں میں دیکھی ہوں گی۔ ہم اس وقت یہ سوچتے ہی رہ گئے کہ اس دہشت ناک اسلحہ کی نمائش کی کیا ضرورت تھی، اور کیا اسی قسم کا روّیہ پاکستانی سفراءاور ان کا دیگر سفارتی عملہ اور وزراءکرام امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں کر سکتے ہیں؟ ہمارا تو خیال ہے کہ امریکیوں نے پاکستان میں ایک خاتون سفیرہ کا اہتمام ہی اسی لیے کیا ہے کہ وہ پاکستانیوں کی نفسیات اچھی طرح جانتے ہیں۔ جو رسائی اور پذیرائی پاکستانی کسی دل کش خاتون کو دیتے ہیں، وہ بھلا کسی مرد کو کیوں کر دی جاسکتی ہے۔ ہاں، دنیا میں جہاں، جہاں ’خوش باشوں‘ Gays کاراج ہواکرتا ہے، وہاں ان کی موءثر حکمتِ عملی دیگر بھی ہوسکتی ہے۔ کچھ ’حسن ِزن‘ سے کام لینے والے یہ کہتے اور اپنے جمال ِ خیال و حسنِ ظن کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کنڈولیزا رائس بھی اتنے برس واشنگٹن میں بڑی مردانگی سے یوں ہی کام نہیں دکھا گئیں ہیں، اوروہ ایک کامیاب خاتون حکمراں ثابت ہوئی ہیں۔ بس یہ ہے کہ بقول خود رائس کی خودنوشت کے ہمارے شوکت عزیز کی دال اوررائس نہیں گلے، اوروہ اپنی تمام تر خواہشات اورنیک تمنّاﺅں کے باوجود، انہیں اپنی عزیزہ کا درجہ دینے میں ناکام رہے، بالآخر ان کے تخت کا تختہ ہوگیا۔ بصورتِ دیگر وہ کم از کم اس وقت تک برسرِ اقتدار رہ سکتے تھے جب تک کہ2008 ءکے امریکی انتخابات کے نتیجہ میں ری پبلیکن پارٹی شکست کھا کر2009ءمیں اپنے گھروں کو نہ چلی جاتی۔
بہرحال، کچھ بھی ہو، ہم امریکی سفیرہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کی وضاحت کریں، اور پاکستانی قوم سے معذرت کریں۔ اور ہمارے’ شیر دل‘ پاکستانی ’اعلیٰ حکام‘ اور سیاستدان ہم عاجز و لاچار پاکستانیوں کو یہ بھی بتائیں کہ کیا امریکی سفیرہ ہمیشہ ہی اسی دہشت گردانہ انداز میںاپنے گارڈ اور آتشیں اسلحہ کے ساتھ ایوان میں داخل ہوجاتی ہیں، یا ان سے گارڈ اور اسلحہ باہر ہی رکھوالیا جاتا ہے۔ جہاں تک ان کے حسن وجمال اورپیارو محبّت کے اسلحہ جات کا تعلّق ہے، اس پر ہمیں تو قطعی اعتراض نہیں، کیا آپ کو ہے ! ا ور پیارے قارئین، ہم آپ کی خواہشات کو بھی مدّّ نظر رکھتے ہوئے یہ سفارش کرتے ہیں کہ اس دربان کو جس نے امریکیوں سے شناخت اور رسمی اجازت نامہ طلب کیا تھا، نہ صرف اس کے مناصب میں ترقیّ دی جائے ، بلکہ اس کے لیے ایک تمغہ ءجراءت کا بھی اعلان کیا جائے۔ اور اس کی تصویر جری پاکستانیوں کے ’ایوانِ شہرت‘ میں اسی طرح لگا دی جائے، جس طرح ہمارے جری جنرل اشفاق پرویز کیانی کی امریکی فوجی ایوانِ شہرت میں لگادی گئی ہے۔ ایسا کرنا امریکیوں کے غرور اور نخوّت کے بارے میں کم از کم اظہار ناپسندیدگی، اور پاکستان کے وقار میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ ہم یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ جب برّ صغیر ہندوستان میں انگریزوں نے تجارتی نمائندوں کے روپ میں پہلے ایوانِ مغلیہ دربار میں رسائی، اور بعدمیں تمام تر ہندوستان کی حاکمیت سلب کرلی تھی، اگر اس زمانہ میں بھی کوتاہ بیں حکمرانوں کے ساتھ ایسے جری پاسباں ہوتے تو ہماری تاریخ ہی کچھ اور ہوتی، اورشاید آج بھی تمام ہندوستان مسلمانوں کے زیرِ نگیں ہوتا!
چلتے چلتے، مرزا غالب کا ایک اور حسبِ حال شعر آپ کی خاطر امریکی سفیرہ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:


جو آﺅں سامنے ان کے، تو مرحبا نہ کہیں
جو جاﺅں واں سے کہیں کو، تو خیرباد نہیں


٭
جستجو پبلشرز اور ریسرچرز
ہفتہ، ۲۱ اپریل ۸۰۰۲ئ

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
دیکھیے اب ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

(c)2008 A syndicated essay by Justuju Research and Publishing - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Research and Publishing Agency, hereby grant a permission for and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license non commercial agreement. This piece must be published "as is" to qualify for this license

No comments:

Google Scholar