سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Sunday, September 21, 2008

جستجو / حالاتِ حاضرہ : شکریہ انکل سام









جستجو / حالاتِ حاضرہ
دل چسپ سیاسی، سماجی، ادبی، طنزومزاح، حکمت و دانش سے بھرپورتحریریں


شکریہ انکل سام
محمد بن قاسم



اسلام آباد کے حساس ترین علاقہ میں ہونے والا دھماکہ اور اس کے نتیجہ میں ہونے والا جانی و مالی نقصان (بروز سنیچر20 ستمبر) ایک نہایت ہی المناک واقعہ ہے۔ اس کی وجہ سے علاقہ میں آنے والے زلزلہ کے' غیبی جھٹکوں' کو بھی ہم سب بھول گئے۔ تا ہم یہ دھماکہ کوئی غیر متوقع حادثہ نہیں، اور نہ ہی یہ پاکستانی 9/11 ہے، کیونکہ وہ تو اس دن ہی وقوع پذیر ہوگیا تھا جس دن امریکہ نے پہلی مرتبہ پاکستانی قبائلی علاقوں پر میزائل باری کی، اور اس میں معصوم جانیں ضائع ہوئیں، اور جس دن امریکی فوجیوں کے ناپاک قدم ہماری پاک سرزمین پر پڑے۔ اس رنجیدہ موقع پر ہم 'جستجو' کے تمام ارکان کی جانب سے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں، اور مرحومین کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ دوسری جانب تمام زخمیوں کی جلد از جلد شفایابی کے لیے بھی دعاگو ہیں۔
اس واقعہ کے بعد امریکہ نے مگرمچھ کے آنسو بہائے ہیں، اور یہ پیش کش کی ہے کہ اس کی ایف بی آئی کی ٹیم تفتیش میں مدد کے لیے آسکتی ہے۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر چاچا سام کا شکریہ ادا کرکے کسی بھی ایسی ٹیم کا استقبال کرنے سے معذرت کرلے۔ پاکستانی اداروں پر اعتماد کے اظہار کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگروہ کوئی خاص آلہ جات ، اور لیباریٹری کیمیکل وغیرہ جو تفتیش میں استعمال ہوتے ہیں دینا چاہے تو وہ ضرور قبول کرلیا جائے، یا اگر وہ کوئی تفتیشی مینوئل دینا چاہیں تو وہ بھی حاصل کرلیا جائے۔ کسی بھی غیر ملکی ٹیم کی مداخلت تفتیش کو غلط سمت میں لے جانے کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ حادثہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ اسی قسم کے بے شمار واقعات سعودی عرب، کینیا، یمن، امریکہ، اور خود پاکستان میں بھی حال ہی میں ہوچکے ہیں۔ 20 ستمبر کے ذمہ دار افراد کے بارے میں بھی کچھ قیاس آرائیاں ممکن ہیں۔ اس طریقہءکار کے قدموں کے نشانات نام نہاد القاعدہ کی بین الاقوامی کارروائیوں کی طرح ہی ہیں۔ اگرچہ یہ قطعی ممکنات میں سے ہے کہ آلہ ءکار مقامی شدت پسند اور پاکستانی طالبان ہی ہوں، جنہیں القاعدہ کی مدد حاصل رہی ہو۔ یہ سب جاننے کے لیے کسی بھی غیرملکی مدد کی قطعی ضرورت نہیں۔ کیا وہ غیبی علم رکھتے ہیں، جس سے وہ پاکستان کی کوئی طلسمی مدد کرڈالیں گے۔! اگر امریکہ کو پاکستان کے ساتھ واقعی اظہار ہمدردی کرنا مقصود ہے تو وہ پاکستانی ایف سولہ طیارے فوری طور پر اسلام آباد پہنچادے، اور پاکستانی سرزمین کو اپنے ناجائز وجود و دراندازیوںسے ناپاک کرنا چھوڑ دے۔اس پر بم باری، میزائل باری سے گریز کرے۔ افغانستان اور عراق سے اپنا قبضہ فوری طور پر ختم کرے، اور ان تمام جنگوں کی بین الاقوامی تحقیقات شروع کردی جائیں، جس میں یہ تعین کیا جائے کہ ان بظاہر بے مقصد تباہ کن جنگوں کی کیا ضرورت تھی، اور اس کی ذمہ داری کس کے سر منڈھتی ہے۔ کتنے معصوم اور بے گناہ افراد جاں بحق، اور کتنے زخمی اور معذور ہوچکے ہیں۔ آپ کو اس عراقی بچے کی تصویر تو یاد ہی ہوگی، جس کے دونوں بازو اور ٹانگیں 2003 میں وحشیانہ امریکی بم باری سے ضائع ہوگئی تھیں۔ فلوجہ ، نجف، اور کربلا وغیرہ کے بے شمار شہید، اور تباہ شدہ مقدس عمارات بھی دہائی دے رہی ہیں۔ اس ریکارڈ کے ساتھ امریکی تعاون کو ایک فاصلہ پر ہی رکھنا بہتر ہوگا۔ اپنے آپ پر مناسب حد تک اعتماد رکھنا پاکستانی قوم کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔
اب کچھ بات اسلام آباد کی سیکیوریٹی کے بارے میں بھی ہوجائے۔ یہ امر صاف ظاہر ہے کہ یہ انتظامات قطعی ناقص تھے۔ سب سے پہلے تو پاکستان کے تمام منتخب شہری اور فوجی رہنماﺅں کو ایک ہی جگہ جمع کردیا گیا تھا۔ اگر خدانخواستہ یہ بارودی ٹرک پارلیمنٹ کی عمارت سے ٹکراجاتا تو پاکستان کا کیا ہوتا ۔۔۔۔ امریکی فوری طور پر اپنی فوجیں اسلام آباد میں اتاردیتے کہ ایٹمی پاکستان اس وقت ایک خطرہ بن چکا ہے، جہاں کہ کوئی بھی حکومت باقی نہیں بچی ہے، اور ایٹمی اثاثہ جات دہشت گردوں کے قبضہ میں جانے والے ہیں۔ یہ خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکی یہی تفتیش کرنا چاہتے ہوں گے کہ وہ ٹرک اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب کیوں نہ ہوسکا۔ اسلام آباد کی سیکیوریٹی کا جو بھی ذمہ دار تھا، اسے فوری طور پر برطرف کردیا جائے۔ اور مشیر داخلہ پہ درپہ بہت بڑی ناکامیوں کے پس منظرمیں اپنا استعفیٰ قوم کے سامنے پیش کردیں، اور اسے فوری طور پر قبول بھی کرلیا جائے۔ وہ 81 اکتوبر 2007 سے اب تک تمام ہائی پروفائل واقعات میں سیکیوریٹی کے ذمہ دار رہے ہیں، اور ان میں انہیں مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جمہوریت کا ساز ہر وقت بجانے والے اور اس کے راگ الاپنے والے یہ بھی سیکھ لیں کہ جمہوریت میں ناکام ذمہ دار افراد خود ہی اپنا استعفیٰ پیش کردیا کرتے ہیں، ورنہ ایک حقیقی سیاسی پارٹی ان سے خود ہی استعفیٰ طلب کرلیا کرتی ہے، جیسا کہ جنوبی افریقہ میں ہوا ہے، جہاں صدر ایم بیکی کو عہدہ سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ تاہم افسوس کہ اس وقت حکومتی سیاسی پارٹی صرف ایک خاندانی پارٹی اور موروثی جاگیر کی طرح ہی چل رہی ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ کی بالا دستی کے بارے میں جو بھی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے وہ اس لیے ہے کہ پارلیمنٹ اس وقت بالا دست نہیں، بلکہ زیردست ہے۔ حکومتی پارٹی اور اس کے اتحادی اپنی مرضی کے قوانین بنانے کی مثالی حالت میں ہیں۔ اکثر معاملات میں حزب مخالف، اور دیگر جماعتیں بھی حکومت کا ساتھ دینے کو تیارہیں۔ اسلام آباد کے حالیہ واقعہ میں سب سے بڑا سیکیوریٹی شگاف یہ رہا کہ شارع دستور، جو پارلیمنٹ ہاﺅس وغیرہ ، اور میریٹ ہوٹیل کے سامنے سے گزرتی ہے ، اس پر ثقیل گاڑیوں کو گزرنے دیا گیا۔ تمام ہیوی ٹریفک کو اس شارع کی طرف آنے والے تمام راستوں پر ہی روک لیا جاتا، یا کم ازکم اس اہم دن انہیں شہر سے دور رکھا جاتا۔ پاکستانی مشیر داخلہ ایک بچکانہ انداز میں اپنے ٹی وی انٹرویوز میں یہ فرماتے رہے کہ بتائیے کہ اس علاقہ میں کنسٹرکشن ہورہی ہے، ہم کس طرح بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کو روکتے! کسی بھی سیکیوریٹی کے ذمہ دار فرد کی جانب سے یہ ایک نہایت ہی حیران کن بیان قرار دیا جاسکتا ہے۔ حکومت قوم پر رحم کرے، اور فوری طور پر یہ اہم محکمہ کسی قابل ترین شخصیت کے حوالہ کرے۔
اس رنجیدہ موقع پر میریٹ ہوٹیل کے سرکردہ مالک و منیجر جناب صدرالدین ہاشوانی کو سلام پیش کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے مالی نقصان کو قومی نقصان قرار دیا، اور کہا کہ مال تو آنے جانے والی چیز ہے، اصل نقصان تو جانی ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ جناب ہاشوانی صاحب، گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قریبی بزنس دوست رہے ہیں، اور یہ امید کی جاتی ہے کہ سلمان تاثیر صاحب ایک نئے میریٹ ہوٹیل کی تعمیر کی جائزہ رپورٹ وغیرہ تیار کرنے میں ان کی اسی طرح مدد کرسکیں گے جیسے کہ وہ ان کی مدد ایک منیجمنٹ مشیر کی حیثیت سے 1970 کے عشرہ میں کرتے رہے۔ اتنا وقت گزرجانے کے بعد یہ امکان تو نہیں کہ سلمان صاحب کو یاد رہا ہو، مگر اس دوران ہمیں بھی سلمان تاثیر صاحب کے ساتھ ان کی ٹیم کے ایک قریبی ممبر کی حیثیت سے اس قسم کے کئی جائزہ پراجیکٹس پر کام کرنے کا موقع ملا، اور وہیں ہم نے پاکستان کے ایک عبقری شخص مسعود علی نقوی (موجودہ سینیئر پارٹنر، کے پی ایم جی، تاثیر ہادی خالد اینڈ کمپنی، چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹس) کی ذہانت سے بے پناہ استفادہ کیا، اور سلمان تاثیر کے اوّلیں بزنس پارٹنر جناب خورشید ہادی صاحب سے ٹیکسیشن، منیجمنٹ اورمالی اخلاقیات کے زرّیں اسباق سیکھے۔
اسلام آباد میں حادثاتی منیجمنٹ، جسے ڈس آسٹر منیجمنٹ بھی کہا جاتا ہے، کی کمزوریاں بھی عیاں ہوگئیں۔ میریٹ ہوٹیل کی بالائی منزلوں میں لگنے والی آگ کی شدت اور نوعیت ایسی تھی کہ ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اسلام آباد ایئرپورٹ سے سول ایوی ایشن کے مخصوص آگ بجھانے والے آلات اور ہیلی کاپٹر وغیرہ طلب کرنا لازمی ہوگیا تھا۔ مگر افسوس کہ وہ سب بہت تاخیر سے موقع پر پہنچے۔ اس آگ پر قابو پانے کے لیے اوپر سے آگ بجھانے والا کیمیکل پاﺅڈر، پانی، وغیرہ ڈالنے سے یہ جلد بجھ جاتی۔ اسی طرح ٹی وی پر نظر آنے والے مناظر میں اونچی عمارات تک پہنچ جانے والی فائر بریگیڈ کی سیڑھیاں، اسنارکلز، کم از کم ہمیں تو نظر نہیں آئیں۔ اگر آپ نے دیکھی ہوں تو ہمیں ضرور مطلع کریں۔
دہشت گردی کے معاملات سے نمٹنے کے لیے دور رس حکومتی پالیسی کا اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے، چنانچہ صرف ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ 1979 (افغانستان پر روسی فوج کشی) سے اس علاقہ میں امریکہ کی مسلط کردہ یہ جنگ امریکی نااہلیوں کی وجہ سے اب ہماری جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ تاہم جب تک حالات میں ایک ٹھہراﺅ اور درستی نہیں آجاتی، قبائلی علاقوں سے آنے والے تمام افراد، اور گاڑیوں کی اسی طرح چیکنگ کی جائے جس طرح کہ امیگریشن اور کسٹم پوائنٹس پر کی جاتی ہے۔ شہرمیں چلنے والے ٹرکوں کی وقتاً فوقتاً چیکنگ جاری رکھی جائے کہ ان میں کس قسم کا مواد منتقل کیا جارہا ہے۔ اس واقعہ میں مقامی افراد کے ملوث ہونے کے امکانا ت کے باوجود یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اکثر اوقات ایسے بھٹکے ہوئے افراد کی ڈوریں سامنے نظر نہ آنے والے پراسرار کردار بھی کھینچتے ہیں، اور وہ منظر عام پر آئے بغیر ہی اپنا کام صرف مالی وسائل کی بنیاد پر کرجاتے ہیں۔ چنانچہ اس اور ایسے ہی دیگر واقعات کے پیچھے غیرملکی دشمنوں کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے۔
قارئین کرام، جناب صدر گرامی کے خطاب پر تبصرہ کسی اور وقت صحیح، مگر کاش وہ یہ تقریر اردو میں کرتے تو قوم کی سمجھ میں آجاتی اور نہ ہی ان سے تقریر پڑھنے میں کوئی غلطیاں ہوتیں، مگر شاید یہ تقریر انہوں نے قوم کے لیے نہیں بلکہ ممالک ِ غیر کے لیے کی، اور کشمیری تو ان کی جانب سے چند سُریلے الفاظ کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ بے چارے۔ اس رنجیدہ اور الم ناک حادثہ کے باوجود یہ ضروری ہے کہ نہ تو جناب پرویز اشفاق کیانی اپنا دورہ ءچین ملتوی کریں اور نہ ہی جناب صدر صاحب اقوام متحدہ اور امریکہ کا۔ تاکہ پاکستان دشمنوں کے مذموم مقاصد کو شکست دی جاسکے۔

٭
اتوارہ 21 ستمبر 2008
حکمت و دانش کو پوشیدہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی خزانہ کوتاریکیوں میں چھپادینا ۔۔۔ چینی کہاوت
(c) 2008 Justuju Media - All Rights Reserved

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں

The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Media, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" non commercial universal license

No comments:

Google Scholar