سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Saturday, September 20, 2008

جستجو / حالاتِ حاضرہ .. آبلوں پر حنا








جستجو / حالاتِ حاضرہ
سیاسی، سماجی،ادبی، حکمت و دانش آمیز، طنزومزاح سے بھرپور دل چسپ تحریریں
آبلوں پر حنا
محمد بن قاسم

غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
اہل تدبیر کی واماندگیاں ! ۔۔
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
مرزا اسد اللہ خاں غالب 1797-1869
آپ سب نے اس ہفتہ کئی ہولناک، دل چسپ ، اور حیران کن خبریں اور بیانا ت پڑھے، سنے ہوں گے۔ مثلاً، پاکستانی صدر محترم ایک نیم رسمی، اور نیم ذاتی سے دورہ پر لندن تشریف لے گئے۔ وہاں انہوں نے برطانویوں سے بات چیت کی، اور اس کے بعد وہ لندن میں مقیم جلاوطن پاکستانی سیاست داں جناب الطاف حسین صاحب سے بھی ملے۔ اس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو ایک ہوائی جہاز چارٹر کرکے اس کے اسکول لے گئے، اور وہاں اس کو بنفسِ نفیس داخل کرادیا۔ اس سے پاکستانی بچّوں کی یقیناْ بڑی حوصلہ افزائی ہوئی، اور انہیں بھی اپنے اسکول جانے کے لیے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا خواب دیکھنے کا موقع مل گیا۔ اسلام آباد میں امریکیوں نے آکر پاکستانیوں کو یقین دلایا کہ وہ پاکستانی سرحدوں کا احترام کریں گے، اور میزائل وغیرہ اِدھر اُدھر چلا کر خوشی کا اظہار نہیں کریں گے۔ مگر اس خوبصورت بیان کے چند گھنٹوں ہی کے بعد اس کے بارے میں خوشی منانے کے لیے انہوں نے پھر میزائل اور بم پاکستان کی سرزمین پر پھاڑنا شروع کردیے۔ محسوس ہوتا ہے کہ امریکیوں کو بھی وہی دماغی بیماری لاحق ہوگئی ہے، جس کا چرچا ہمارے صدر کے بارے میں ان کے دشمنوں نے دل کھول کر ان کے صدارتی انتخاب کے موقع پر کیا تھا ۔۔۔۔ یعنی بھول جانے کی۔
اس سے پہلے کہ ہم امریکیوں کے جذبات، احساسات، اور روّیوں کے بارے میں بات چیت کریں، سب سے پہلے اس دل چسپ معاملہ کے بارے میں بحث کرلیں، جو کہ جناب صدر پاکستان کے اپنی جیب خاص سے ایک طیارہ لندن سے ایڈنبرا چارٹر کرنے سے متعلق ہے۔ صدر صاحب کے دیرینہ دوست و خادم، جناب واجد شمس الحسن صاحب، موجودہ پاکستانی ہائی کمشنر، لندن، فرمارہے ہیں کہ جناب صدر صاحب نے اخراجات میں کٹوتی کرکے ملک و قوم کی بڑی خدمت کی۔ نہ تو انہوں نے ہوٹل سے کھانا کھایا، اور نہ ہی طیارہ چارٹر کرنے کے پیسے ملک و قوم سے مانگے۔ اب اس ضمن میں چند سوالات ابھرتے ہیں، جن کے بارے میں امید ہے کہ جناب صدر صاحب کسی وقت خود ہی جوابات قوم کے سامنے رکھ دیں گے۔ ایک تو یہ کہ وہ خود اپنے بیانات اور عزم کے مطابق سب سے پہلے پاکستان کے ایک سچے اور دیرینہ دوست ملک چین جانے والے تھے۔ ایسا کیا ہوا کہ وہ اچانک لندن جا پہنچے! ان کی برطانویوں سے ملاقاتوں کا کوئی خاص نتیجہ تو سامنے آیا نہیں۔۔۔ بس نشستند، گفتند، برخاستند قسم کی ایک ملاقات رہی۔ (گورڈن برائون، وزیراعظم برطانیہ نے 19 ستمبر کو البتہ ایک بیان پاکستان کی حمایت میں جاری کردیا ہے، مگر اس پر یقین کیا جائے؟) خود امریکیوں اور برطانویوں کے پرنالے تواب بھی پاکستانی سرزمین پر ہی بہہ رہے ہیں۔ جن میں ان کی بربریت کے نشان کے طور پر پاکستانی خون دھڑا دھڑ بہہ رہا ہے۔ نیٹو امریکی پالیسیوں کے بارے میں پہلے ہی بیان دے چکا تھا کہ وہ ان سے فی الحال متفق نہیں ہے۔ تاہم یہ اتفاق کسی وقت بھی وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔ ناٹو کی امریکہ کے مقابلہ میں پاکستان کو اہمیت دینا چہ معنی دارد؟ چلیں، اگر جناب صدر کی بیٹی کے اسکول کا معاملہ نہ ہوتا تو کیا وہ پہلے چین ہی نہ جاتے؟ وہ چین ہوتے ہوئے بھی برطانیہ جاسکتے تھے۔ اب جہاں تک چارٹرڈ ہوائی جہاز کا معاملہ ہے تو جناب صدر قوم کو بتادیں کہ اس میں کس قدر خرچ ہوا،کس بنک حساب سے ادا کیا گیا، اور جناب صدر اور ان کے اہل خاندان کے پاس اس وقت ملکی و غیرملکی ذرائع سے حاصل ہونے والا کس قدر مال و دولت موجود ہے۔ یعنی کہ وہ سب اپنے اپنے اثاثہ جات ، آمدنی و خرچ کے گوشوارے ملک و قوم کے سامنے پیش کردیں۔ اس سے ایک ایسی مثال قائم ہوجائے گی جو تمام پاکستانی قوم کے لیے ہمیشہ ایک مشعل راہ بنی رہے گی۔ چونکہ جناب صدر اور ان کے اہل خاندان یہ بتا ہی چکے ہیں کہ ان کے تمام اثاثہ جات وغیرہ جائز طور طریقوں سے حاصل کردہ ہیں، چنانچہ انہیں اس ضمن میں کسی بھی دشواری کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔

اب ہم دوسری جانب دیکھتے ہیں کہ ہمارے جمہوریت کے لبادہ میں ملبوس سیاسی رہنما پاکستانی سالمیت، عزت و عظمت کے قلعہ پر امریکی یلغار کے بارے میں کیا، کیا کہہ رہے اور سوچ رہے ہیں؟ ہمارے وزیر خارجہ، وزیردفاع، اور یہاں تک کہ وزیراعظم بھی قوم کو ایک مایوسانہ تصویر دکھاکر ڈرا رہے ہیں۔ اگرچہ اس تصویر اور تصوّرمیں خاصی سچائی بھی ہے، مگر قوم کا حوصلہ بڑھانا ایک اور امر ہے، اور اسے بونا بنانا کچھ اور رنگ اورپہلو رکھتا ہے۔ اس وقت تو اہل تدبیر، اور تمام حکومتی بیانات سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ان کے پاس پاکستان مخالف مذموم امریکی اور مغربی منصوبوں سے نمٹنے کے لیے کوئی بھی واضح حکمتِ عملی نہیں۔ ہاں پیروں کے آبلوں پر حنا بندی اپنے بیانات سے ضرور کررہے ہیں، تاکہ جو کچھ بھی دفاعی چلت پھرت ممکن ہے اسے بھی بریک لگ جائے۔ جو کچھ بھی پاکستانی پلّے میں ہے، وہ صرف یہ ہے کہ سر جھکا کرامریکی مطالبات اور دھمکیوں سے خوف زدہ رہا جائے، اور وہی خوف پاکستانیوں کی نفسیات میں اس حد تک داخل کردیا جائے کہ وہ ہر امریکی ظلم و بربریت کوبلا چوں و چرا سہے جائیں۔ اسی نفسیات کے سبب کوئی بھی پاکستانی امریکی کھانوں، خدمات، امریکی ویزوں اور اشیاءصرف وغیرہ کا بائی کاٹ کرنے کا نہیں سوچ رہا، جب کہ ڈنمارک کے خلاف اس قسم کی ایک کمزور سی تحریک چلی ضرور تھی۔ امریکی منصوبہ سازوں کی جانب سے پراپیگنڈہ جنگ میں ہمارے دیوزاد ٹی وی چینلز ایک متنازعہ سا کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ امریکی جرائد میں شائع ہونے والی ہر خبر اور تجزیہ کو خوب اچھال کر، اور ان کی کاٹ نہ کرکے، امریکی منصوبوں میں نادانستہ، یا شاید دانستہ بھی، شریک ہورہے ہیں۔ پاکستانی تجزیہ کاروں کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کے بارے میں منطقی دلائل پیش کیا کریں تاکہ یہ معاملہ یک طرفہ نہ رہے۔ پاکستانی فوج کو بھی چاہیے کہ وہ قوم کو، پارلیمنٹ کے ذریعہ، یہ بتائے کہ اس نے پاکستان دشمن غیرملکی عناصر، غیرملکی افواج، سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی بنا رکھی ہے۔ اس کے خفیہ پہلو برسرعام نہ لائے جائیں، مگر قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ بھارت، افغانستان، امریکہ، نیٹو،ا ور اسرائیل کے مشترکہ پاکستان مخالف حملوں کی صورت میں کیا کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا پاکستانی قوم ذہنی طور پر اپنے دفاع کے لیے اقدامات شروع کردے! اور وہ اقدامات کیا ہوں!
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستانی قوم اس نازک مرحلہ کے بارے میں جذباتی ضرور ہو، مگر تمام فیصلے ایک ٹھنڈے دل سے ہی کرے۔ موجودہ دور میں جب کہ ہر مغربی فوجی، سیٹیلائٹ اور انٹرنیٹ کمیونیکیشن، سیٹیلائٹ کی آنکھوں، جسم کی حفاظت کرنے والی مخصوص وردی، بکتر بند گاڑیوں، برق رفتار اور تباہ کن ہوائی جہازوں کی مدد، فضائی نگرانی کے طیاروںاور برقی آلات اورفوجی کمپیوٹروں کو جام کرنے، ٹیلی فونوں کو سننے اور ای میلوں کو دیکھنے کے نظاموں، اور وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلانے والے بم اور میزائیلوں، اور پاکستان کے چپہ چپہ پر اپنے ایجنٹوں کی موجودگی سے لیس ہے، تو پاکستانی افواج بے سروسامانی کی کیفیت میں ان سے کس طرح نبرد آزما ہوسکتی ہیں! ہاں وہ اپنے ملک و قوم پر ایک "اندھا دھند لڑائی" میں اپنی جان ضرور قربان کرسکتی ہیں، مگر اس قربانی کا مثبت یا مطلوبہ نتیجہ برآمد نہ ہوگا۔ پاکستان، چونکہ دہشت کے خلاف نام نہاد جنگ میں اب تک امریکہ اور مغرب کا ساتھ دیتا رہا ہے، یقینا اس کے لیے ایک فوری اباﺅٹ ٹرن لینا اور واپسی آسان قدم نہیں۔ مگر وہ اس ضمن میں اپنی پیش قدمی، مارچ، کو ایک ٹھہراﺅ کی صورت میں ضرور لاسکتا ہے۔ اگر واقعی کوئی پاکستان مخالف غیرملکی طبقہ قبائلی علاقوں میں اب تک باقی اور موجو د ہے تو انہیں نکال باہر کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بارے میں پاکستان کو کس حد تک امریکی امداد و تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان سٹھیانے کی عمر کو پہنچ کر بھی اپنی فوجی استعداد کو اس سطح پر نہیں لاسکا ہے جہاں کہ وہ اپنی حدود میں دراندازوں سے نمٹ سکے تو قوم یہ سوال کرنے میں قطعی حق بجانب ہوگی کہ وہ ایک بہترین استعداد کار رکھنے والی چہار جانب سے گھیراﺅ کرلینے والی مشترکہ دشمن فوج سے کس طرح لڑ سکے گا! ان تمام سوالات اور حقائق کو پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاسوں میں فوری طور پر اٹھایا جائے، اور ہمارے ان دانش وروں اور ناکام سیاسی رہنماﺅں کو سمجھایا جائے جو امریکیوں کو دنداں شکن جوابات دینے کی رائے رکھتے ہیں کہ اس طرح پاکستان کو کیا نقصانات پہنچ سکتے ہیں، اور کیا پاکستانی قوم اس ضمن میں درکار قربانیوں کے لیے ویٹ نامیوں، اور لبنانیوں کی طرح تیار ہے؟ پھر ایک واضح اور منظور شدہ حکمت عملی پر عمل کیا جائے۔ اس میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی آبرومندانہ واپسی، پاکستان مخالف قوتوں کی سپلائی اور ترسیلات میں رکاوٹیں کھڑی کرنا(مثلاً سامان لے جانے والے ٹرکوں کی جانچ پڑتال، ان کی رفتار اور کاغذات وغیرہ کی جانچ میں مطلوبہ وقت کا خرچ، اور اسی قسم کی دیگر سرخ ٹیپی کارروائیاں ، جن سے پاکستانی ناراضگی کابھی اظہار ہوجائے، اور معاملہ بھی ہاتھ سے نہ نکلے)، ملک و قوم کو قربانیوں اور سخت اوقات کے لیے تیار کرنا شامل ہیں۔ بھارت نے ہمیں طویل مدتی جھوٹے مذاکرات میں الجھا کر کشمیر سے آنے والے پانیوں کو روک لیا ہے، اور امریکی ایٹمی معاہدہ میں کامیابی حاصل کرکے اب وہ امریکی احسانات کا بدلہ چکانے کو تیار ہے۔ پاکستان کو تنہا کرکے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس پاکستانیوں کو کھلا چیلنچ دے چکے ہیں کہ وہ اپنی کارروائیاں پاکستانی حدود میں جاری رکھیں گے، اور وہ ایسا کرنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں کیونکہ افغانستان میں امریکیوں کی جانیں بچانے کا ان کے نزدیک صرف یہ ہی ایک طریقہ ہے۔ پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ بھی پاک افغان سرحدپر اپنے بلا پائلٹ ہوائی جہاز اڑانا اور سرحدوں کی نگرانی کرنا شروع کردے۔ اس میں امریکی افواج اور دہشت گردوں، دونوں کی نگرانی اور سرکوبی کرنے کا مقصد پیش نظر ہو۔ جہاں تک امریکیوں اور مغربی اتحادیوں کی جانیں بچانے کا معاملہ ہے تو وہ افغانستان کو افغانیوں کے حوالہِ کرکے اپنے اپنے ممالک میں واپس جاکر خوش و خرم زندگی بسرکرسکتے ہیں۔
فی الحال پاکستان کو اپنا معاملہ فوری طور پر ہر موجود بین الاقوامی فورم پر اٹھانا چاہیے، اور یہ ایک حیران کن امر ہے کہ اسلامی کانفرنس کے ممالک اور کرتا دھرتاﺅں پر بھی ایک خاموشی طاری ہے۔ یا تو وہ اس خطرے کو سمجھنے سے قاصر ہیں جو واحد اسلامی ایٹمی قوت کو للکار رہا ہے، یا وہ بھی پاکستانیوں ہی کی طرح شدید خوف زدہ ہیں۔ پاکستان اپنے دفاع کے لیے اس وقت ہر قسم کی تیاری کا حق رکھتا ہے، اور اسے اپنے ایٹمی پروگرام کو بھی فوری طور پر غیرمنجمد کرکے د وست نما دشمن افواج کے ہتھیاروں کے توڑ میں تجربات کرنے شروع کردینے چاہیئیں۔ پاکستانی جیٹ انجن ہر صورت میں تیار کیے جائیں اور امریکی ایف سولہ طیاروں کو بھول کر امریکی جال سے نکل آنا چاہیے، امریکہ سے تعلقات کو نسبتاً کم تر درجہ پر لے آنا چاہیے، اور ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ پاکستانی وقار کے علم بردار ہمارے وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کے ساتھ امریکیوں نے گزشتہ رسمی دورہ میں کس قسم کا سلوک روا رکھا تھا۔ کم از کم اس امریکی مثال کی تقلید ہی کی جائے اور امریکی سفیرہ اور سفارت کاروںکی پاکستان میں آزادانہ آمد ورفت اور بلا روک ٹوک سیاسی ملاقاتوں پر فوری پابندی لگا دی جائے۔ وہ اپنا تمام رسمی کام وزارتِ خارجہ کے توسط سے سرانجام دیں، اور ہر وہ سیاستدان جو امریکی سفارت کاروں سے بلا اجازت ملے، اس کا مواخذہ شروع کردیا جائے۔ اب جب کہ صدرِ پاکستان امریکہ اور اقوام متحدہ کے دورہ پر جانے والے ہیں، سفارتی پروٹوکول ، حفظ مراتب، کے ایک ایک قدم اور باریکیوں کو پہلے سے ہی مدنظر رکھ کر سفری منصوبہ بندی اور انتظامات کیے جائیں، جن میں استقبال، امیگریشن، ٹرانسپورٹ، پریس کانفرنسوں میں بات چیت کے مواقع، رہائش، کھانا پینا، پاکستانی فوجی کمانڈو گارڈاور حفاظتی اقدامات ، صرف ترجمان کے ذریعہ قومی زبان میں گفتگو، اور پہلے سے منظور شدہ صحافیوں کی بارات وغیرہ سب ہی امور شامل ہوں۔ غرضیکہ کوئی بھی ناپسندیدہ، ماضی میں پیش آنے والا واقعہ کسی صورت دہرایا نہ جائے۔ اگر کسی وجہ سے ایسے امور پر اختلاف ہوجائے تو یہ دورہ ہی منسوخ کردیا جائے۔ بہتر یہ ہوگا کہ امریکہ جاتے ہوئے راستہ میں اپنے سچے چینی دوستوں سے مشاورت کرتے جائیں، اور اس بارے میں کسی بھی خوف اور وہم کا شکار نہ ہوں۔

فی الحال تو پاکستانی قوم کا یہی حال ہے جس کی طرف مرزا غالب پہلے ہی اشارہ کرگئے ہیں: ۔۔۔

! اس سادگی پہ کون نہ مرجائے، اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
انشااللہ آپ سے پھر جلد ہی ملاقات ہوگی، آپ سب کو رمضان کی برکتیں مبارک ہوں۔
٭
جمعہ، 19 ستمبر 2008
حکمت و دانش کو پوشیدہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی خزانہ کوتاریکیوں میں چھپادینا ۔۔۔ چینی کہاوت
(c) 2008 Justuju Media - All Rights Reserved
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Media, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" non commercial universal license

No comments:

Google Scholar