سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Saturday, September 13, 2008

پاکستانی The Pakistani 9/11






جستجو: حالات حاضرہ ۔۔ پاکستانی 9/11

جستجو: حالات حاضرہ

جستجو Justuju
سیاسی، سماجی، ادبی، طنزومزاح اور حکمت آمیز تحریریں

Saturday، September 13، 2008


پاکستانی 9/11


سیفو محمد بن قاسم




پاکستانی علاقوں پر امریکی فضائی حملوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔ اور پہلی مرتبہ پاکستانی فوج کے صبر کا پیمانہ کچھ اسی طور پر لبریز ہوگیا ہے، جیسا کہ امریکیوں کا 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردی کے حملوں کے بعد۔ اس وقت امریکیوں کو دنیا بھر میں اپنی بے پناہ فوجی طاقت کے مظاہرہ، استعمال، اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کو کچلنے اور ان کے قیمتی وسائل پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا۔ امریکہ پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ سب اس نے خود ہی ایک مذموم منصوبہ کے تحت کیا، اور وہ تمام دہشت گرد حملہ خود امریکیوں کا ہی کارنامہ ہے۔ ایک فرانسیسی محقق کے مطابق خاص طور پر پہنٹاگون پر جس طیارہ کے گرنے کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ ابھی بھی زیر استعمال ہے۔
امریکیوں نے 2001 میں امریکی سرزمین پر تباہ کاریوں کے بعد یہ کھل کر کہا تھا کہ اب ہم ایک نئی صلیبی جنگ چھیڑ دیں گے، اور اپنے دشمنوں کو مارنے کے لیے ان کی ہی سرزمین پر انہیں جا لیں گے۔ اور اس کے لیے ہر قسم کے ذرائع اخیتار کیے جائیں گے، جن میں کھلے، چھپے، اور حملہ بہترین دفاع ہے کی حکمت عملی بھی شامل ہوگی۔ اسلامی شدت پسندوں سے چھٹکارا پانا امریکیوں کے لیے کچھ نیا نہیں۔ پاکستانی صدر ضیاء الحق، اور ماضی قریب میں ہی پاک فضائیہ کے چیف مصحف علی میر کا پر اسرار فضائی حادثوں میں جاں بحق ہوجانا اسی قسم کی کارروائیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ در حقیقت اگر ہم ان اعلانات کی روشنی میں جائزہ لیں تو یہ حقیقت نمایاں ہوکر ںظر آتی ہے کہ عراق پر ناجائز حملہ، لاکھوں عراقیوں کا قتل عام، وہاں صنعتی ہیئت کی تباہی، عراق میں فرقہ واریت کا فروغ، عراق کی تقسیم کے منصوبے، عراقی تیل کے ذخائر کا امریکی مرضی سے استعمال، اور اس سے پہلے بے بس اور بے کس افغانستان پر حملہ اور وہاں پر نہایت ہی خطرناک اسلحہ کا استعمال، یہ سب دور رس امریکی جنگی چالوں پر مبنی واقعات ہیں۔ ان تمام منصوبوں میں برطانیہ امریکی بغل بچہ کی طرح، اور کسی پالتو کتے کی طرح دم ہلاتا امریکہ کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ وہ آج امریکہ کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کرکے پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیے بے چین ہے۔
افغانستان پر قابو پانے کے لیے امریکہ کو جو زمینی اڈے اور راہداری کی جو سہولیات درکار تھیں وہ انہوں نے پاکستانیوں کو ڈرا دھمکا کر حاصل کرلی تھیں۔ اس وقت پاکستان کے ساتھ، ساتھ امریکی بھارتیوں سے بھی بات چیت کررہے تھے، اور اس امر کا امکان پیدا ہوچلا تھا کہ امریکہ اور بھارت مل کر نہ صرف افغانستان، بلکہ پاکستان کے خلاف بھی کارروائیاں نہ شروع کردیں۔ چنانچہ، اُس وقت، اس پس منظر میں امریکہ کا ساتھ دینا مصلحت آمیز فیصلہ تھا۔ تاہم یہ فیصلہ غیرمشروط نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرکے، پاکستان اپنی کچھ دفاعی ضروریات کی شرائط باآسانی منوا سکتا تھا۔ یہ ہی وہ مرحلہ تھا جس کے بارے میں سابق صدراور جنرل، پرویز مشرف، پر اس ضمن میں سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر وہ ایک بزدل کمانڈو ثابت ہوئے۔ انہوں نے اس قدر جلدبازی کیوں کی تھی اس کے بارے میں پاکستانی تاریخ اب تک کچھ خاموش سی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جناب سابق صدر پرویز مشرف مستقبل قریب میں اس بارے میں کچھ ایسی لب کشائی بھی کریں، جو وہ اپنی کتاب 'سب سے پہلے پاکستان' میں بھی نہ کرسکے۔ یا یہ کہ ان کے اس وقت کے قریبی ساتھی اب اپنی زبان کھولیں، کیوںکہ اب انہیں صدر مشرف سے کوئَی خطرہ نہیں۔
بہر حال آج ہم اپنی شہری آبادی کی قیمت پر، اور ایک بڑی تعداد میں اپنے قیمتی فوجیوں کی جانیں قربان کرکے بھی اس لہو سے امریکی دوستی نہ خرید سکے۔ امریکی دوستی کی قیمت خون کی بوتلیں نہیں، بلکہ خون کا ایک سمندر ہے۔ اسے جاپانیوں سے بہتر کون جان سکتا ہے، ہیروشیما اور ناگاساکی کی قربانی دے کر ہی وہ آج امریکیوں کے سب سے اچھے ایشیائی دوست ہیں۔
امریکی اور یورپی قوتوں نے ایک منصوبہ گریٹر مڈل ایسٹ کے نام سے بنایا ہوا ہے، اور اس پر وہ بڑی یک سوئی سے عمل بھی کررہے ہیں۔ اس منصوبہ کا سب سے بڑا ہدف مراکش سے انڈونیشیا تک تمام مسلمان ممالک کو کمزور کرنا ہے۔ افغانستان، عراق، لبنان، کے بعد ایران، پاکستان، اور سوڈان بھی اسی منصوبہ کے زیراثر سازشوں کا شکار ہیں۔ اس تمام منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کرنے میں مشرق وسطیِ میں تمام غیرجمہوری ممالک امریکی کٹھ پتلیوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ جب کہ اسرائیل بھی ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اسرائیلی جاسوسی صلاحیتیں ایسے منصوبوں کی کامیابی کے لیے بہت اہم ہیں۔ پاکستان سے چین کے تعلقات کو خراب کردینا ان اہداف کے حصول کے لیے ان سازشی عناصر کے لیے بہت اہم ہے۔ چنانچہ ہم چینی شہریوں کے خلاف پاکستان میں، اور سنکیانگ میں مسلمانوں میں ایک بے چینی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ چینیوں کا رویہ ان کی جانب روز بروز سخت ہوتا جارہا ہے۔
امریکہ بھارتی فضائیہ کے ساتھ مسلسل مشقیں کرتا رہا ہے، جن میں بھارتی فضائیہ کو امریکی سرزمین پر تربیت دی جاتی رہی ہے۔ امریکی کمانڈو پاکستان، بھارت، اور چین کی سرحدی علاقوں میں بھارتیوں کے ساتھ مل کر برفانستانوں میں تربیت لے چکے ہیں۔ یہ تربیت کس کے خلاف کام آئے گی، ہم اور آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی ہفتہ اسرائیلی فوجی چیف بھارت کے ایک غیر اعلانیہ دورہ پر پہنچے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ کشمیر میں آزادی کے لیے مظاہرے ہورہے تھے، اور جس وقت پاکستان پر امریکی حملے تیز سے تیز تر ہوتے جارہے تھے، اس شخصیت کا بھارت آنا خالی از علت نہیں ہوسکتا۔
اس وقت پاکستانی ایک دل چسپ اور عجیب اور رنجیدہ صورت حال کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اگر غیرملکی فوجیں آئندہ پاکستانی سرزمیں پر اتریں تو ان سے وہ ہی سلوک روا رکھا جائے گا جو کہ دشمنوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ مگر دوسری جانب پاکستانی امریکی بلا پائلٹ کے ریموٹ کنٹرول سے اڑنے والے تباہ کن ہوائی جہازوں کی کارروائیوں کے بارے میں خاموش ہیں۔ حالانکہ کسی بھی فضائیہ کے لیے انہیں مار گرانا نسبتاً آسان امر ہے۔
پاکستانی قوم کو رنج و غم میں دیکھ کر جنرل پرویز کیانی نے 11ستمبر کو ایک سخت سا بیان دیا کہ آئندہ کوئی امریکی اور نیٹو کی پاکستانی سرزمین پر کارروائی برداشت نہیں کی جائے گی۔ تاہم 12 ستمبر کو ہی انہوں نے اس میں کچھ مصلحت آمیز تبدیلی کرلی، اور یہ کہا کہ فوج سیاسی حکومت کے احکامات کے تابع رہ کر ہی کام کرے گی۔ ان بیانات سے اور کچھ ہوا ہو یا نہیں ہوا ہو، مگر یہ ثابت ہوگیا کہ پاکستانی فوج کا نئی نویلی جمہوری حکومت کے ساتھ ماہ عسل وقت سے پہلے ہی ختم ہوچلا ہے۔ دوسری جانب حکومتی کارپردازوں پر سر سے پائوں تلک ایک مرگ خاموشی جسی کیفیت ہے۔ وہ اس نازک وقت میں قوم سے بات کرنے کے بجائے ملک سے باہر جاکر اپنے ذاتی کاموں کی دیکھ بھال زیادہ ضروری سمجھ رہے ہیں۔ یہ نئی حکومت کئی ایسے اقدامات کررہی ہے جن سے قوم میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ ان میں سرفہرست عدلیہ کے ساتھ کھلواڑ ہے جو کہ جاری ہے۔ اور اس میں اصولوں کو پامال کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب امریکی حملوں کے خلاف کوئی بھی مناسب فورم پر احتجاج نہ کرنا ہے۔ پاکستان میں آج جاری دہشت گردی، اور اس کے خلاف جنگ، امریکی چالوں کا نتیجہ ہے۔ طالبان کے پاس اسلحہ، بارود، اور دیگر رقوم وغیرہ کہاں سے آرہی ہیں؟ اس بارے میں حکومت پاکستان خاموش رہنا ہی پسند کرتی ہے۔ آج جب کہ پاکستان بھرمیں دال روٹی اور چراغ جلانے کا کال پڑا ہے، اورروز افزوں مہنگائی کی وجہ سے ہر طرف ہاہا کار مچی ہے، ہماری فوج کس طرح بہتر طور پر غیرملکی حملہ آوروں سے نمٹے گی۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ نہ تو اس کے پاس اپنا کوئی فوجی سیٹیلائٹ ہے، اور نہ ہی تیز رفتار بردوش ہوا کوئی فوجی ساز و ساماں اور قوت ۔ دوسری جانب من حیث القوم ہم سب پاکستانی قدم قدم پر بدعنوانیوں، مالی بے ضابطگیوں، اور رشوت خوری وغیرہ کا شکار ہیں، چنانچہ ہم اپنی اخلاقی جڑوں کو کھوکھلا کرتے جارہے ہیں، چنانچہ ہمارے شجرقومی کے لیے ان بادسموم سے لدی آندھیوں کے سامنے کھڑا رہنا بہت مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج القاعدہ ایسی کسی بھی حیثیت میں نہیں کہ وہ امریکہ یا یورپ پر از سرنو حملے کرڈالے، اور نہ ہی طالبان امریکیوں کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کیونکہ چھوٹے ہتھیار امریکہ اور اتحادیوں کی فائرپاور کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اور دوسری جانب خودکش حملہ آوروں کی سپلائی بھی کوئی غیرمحدود اعداد نہیں رکھ سکتی۔ مزید یہ کہ ایسے عسکریت آمادہ اشخاص کی آزادانہ نقل وحرکت خود تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مقامی امن پسند مسلح افراد اور پاکستانی ادارے محدود تر اور مشکل تر کرتے جارہے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی قبائلی علاقے وقت کے ایک بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، جسے کوئی افسانوی ٹائم مشین ہی جدید دور میں آناْ فاناْ لاسکتی ہے، ورنہ جدید تعلیم اور جدید مشینی اور سائنسی دور کی سہولیات اور نظریات وہاں کے باشندوں کے حلق سے اتارنے کے لیے جہد مسلسل کی کم از کم ایک صدی اور درکار ہوگی۔
مگر بجائے ملکی بقا کی فکر کرنے کے، ہماری نئی حکومت سندھ اور پنجاب میں ابھی تک اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہی پنجہ آزمائی کررہی ہے، اور کراچی جیسے اہم شہرمیں غیرسنجیدہ سیاست دان اختیارات کی لپا ڈکی میں مشغول ہیں۔ دوسری جانب امریکی انتخابات کے سر پر آجانے کی وجہ سے امریکی بھی کچھ کر دکھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اعصاب اور جذبات کی اس جنگ میں آخری مکہ کس کا ہوگا، یہ وقت ہی بتائے گا۔
ایسے لوگوں کی تعداد اب روز بروز بڑھتی جارہی ہے، جو یہ کہنے لگے ہیں کہ اب پاکستان کا خدا ہی حافظ، ہم پاکستانی لوگ خود تو کچھ کرنے سے رہے۔ بقول شہزاد رائے، یہ لوگ بہت ضروری کام سے سو رہے ہیں، انہیں نہ جگائو۔

*
ہفتہ، 13 ستمبر 2008
حکمت و دانش اور سچ کو چھپا کر رکھنا کسی بھی خزانہ کو اپنے ساتھ قبرمیں لے جانا ہے (چینی، کنگ فو کہاوت)
(c) 2008 Justuju Media - All Rights Reserved)
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Media, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license

No comments:

Google Scholar