سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Monday, October 26, 2009

چک لالہ میں ہیلیری کلنٹن کی چہل قدمی







جستجو / حالاتِ حاضرہ
حکمت اور دانش سے لبریز تحریریں


چک لالہ میں ہیلیری کلنٹن کی چہل قدمی




محمد بن قاسم
justujumedia@gmail.com




زباں کو میری ،وہ اپنی زباں شاید سمجھتے ہیں
جو فرماتے ہیں اخگر، اپنا اندازِ بیاں بدلے
[حنیف اخگر، امریکن صوفی شاعر، 1928-2009]


امریکہ کے دارالحکومت، واشنگٹن ، ڈسٹرکٹ آف کولمبیا، میں جولائی اور اگست شدید گرم موسم کے مہینے شمار کیے جاتے ہیں۔ امریکی ماہرین موسم فرماتے ہیں کہ 31 ڈگری سنٹی گریڈ کا درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کا زیادہ تناسب اس قدر تکلیف دہ ہوسکتا ہے کہ باہر نکلنے کے بجائے ایئرکنڈیشنڈ گھروں میں ہی پناہ لینا بہترہے۔ چنانچہ 30 جولائی 2008ءایک ایسا ہی دن رہا ہوگا، جب کہ نومنتخب پاکستانی جمہوری وزیراعظم گیلانی اپنی اہلیہ محترمہ ، اور وزراء ، مصاحبینِ خاص، اور صحافیوں کے ایک جمگھٹے کے ساتھ اینڈریوز ایئرفورس بیس پر اُترے۔


پاکستانی حکام اور امراءوی وی آئی پی پروازوں کے عادی ہیں، عام پاکستانی شاہ راہوں پر انہیں کاروں میں بھی اس طرح لے جایا جاتا ہے جیسے کہ وہ اُڑے جارہے ہوں، تمام چوراہے اور اشارے اور عام شہری اپنا منہ تکتے ہی رہ جاتے ہیں، اور بادشاہ سلامت اور امراءکی سواریاں چشم زدن میں ان کے سامنے سے گزر جاتی ہیں۔ چنانچہ، آپ اپنی چشمِ تصوّر سے سوچ اور دیکھ سکتے ہوں گے کہ جب عام طور پر زمین پر رہتے بھی ہمارے رہنما ﺅںاور حکام کا دماغ آسمانوں پر ہوتا ہے ، تو 35ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے مزید کتنا بلند ہوجاتا ہوگا۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس امر کا احساس امریکی حکّام کو بھی ہوچکا تھا، اور وہ یہ بھی جان گئے تھے کہ ملتان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی افراد کس قدر گرمی برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس روز انہوں نے کئی ایسے اقدامات کیے جو دنیا بھر میں سفارتی آداب کے منافی سمجھے گئے۔ واضح رہے کہ ہم نے دنیا بھر کہا ہے، پاکستان نہیں۔ محترم قارئین، اگر آپ پہلے یہ تفصیلات نہیں جان سکے تو اب سہی۔ سب سے پہلے تو چچا سام کی اولادوں نے ہمارے وزیراعظم اور ان کی قابلِ عزت اور قابل احترام اہلیہ کوطیّارے سے اتار کر لگ بھگ 4 منٹ تک رن وے سے ہوائی اڈّے کی عمارت تک ننگے فرش پر بلا سایہ پیدل مارچ کرایا۔ وہ یہ بھول چکے تھے کہ اب پاکستان میں ایک فوجی حکومت نہیں رہی، جو باآسانی لیفٹ رائٹ مارچ کرتی تھی، بلکہ اب ایک اعلیٰ شان جمہوری گھوڑ سواری والی حکومت ہے۔ مزید ظلم یہ کیا کہ ان کے دیگر مصاحبین کو جہاز سے اترنے ہی نہیں دیا گیا، اور یہ بہانہ بنایا گیا کہ طوفانی موسم کی پیشن گوئی ہے، چنانچہ وہیں تشریف رکھیں۔ گویا کہ پاکستانی وزیر اعظم اور بیگم وزیراعظم کو اس طوفان سے کوئی خطرہ لاحق نہ تھا! یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ جانتا ہے کہ گیلانی صاحب طویل جیلیں کاٹ کر کتنے طوفانوں کا مردانہ وار مقابلہ کرچکے ہیں، بلکہ وہ ان چند گنے چنے سیاستدانوں میں ہیں جنہوں نے بدنام زمانہ کالے پاکستانی قانون قومی مفاہمتی آرڈی ننس کی پناہ لینے سے انکار کیا، اور عام عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کر کے سرخ رو ہوئے۔ جہاز میںقید رہ جانے والوںمیں ہماری ایک بہادر خاتون رہنما، جناب شیری رحمٰن بھی تشریف فرما تھیں۔ بقول راوی صرف انہوں نے ہی جہاز میں ایک ہلکا پھلکا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مگر پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔ پاکستانی سفارت خانہ نے نہ جانے کس قسم کے” خصوصی حفظِ مراتب“، پروٹوکول، کا انتظام کرایا تھا کہ ان سب بقیہ اکابرین کو اپنی درست حیثیت کا احساس دلانے اور دماغ درست کرنے کے لیے امریکی حکام کو 8 گھنٹے لگے، جب جا کر انہیں ایئرپورٹ سے باہر جانے کی اجازت ملی۔ اب تو آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ اگر پاکستانی سفارت کاروں کی اس ناقص کارکردگی کا اسی وقت نوٹس لے لیا جاتا تو ان کی یہ لاپروائی بعد میں جوزف بائیڈن ، کیری، لوگر امدادی بل کی متنازعہ زبان و بیان اور شرائط کی شکل میں نہ ظاہر ہوتی۔


قارئین کرام، اس روز پاکستانی وزیراعظم کی آمد پر ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کے لیے سکریٹری آف اسٹیٹ ، کنڈولیزا رائس، کے ایک نائب جناب رچرڈ باﺅچر صاحب ہی آئے، یہ وہی شخص ہیں جو آئے دن اسلام آباد میں مہمان نوازی کے مزے اڑاتے تھے، اور بعد میں یہ منصب اور عزت و مواقع ہالبروک کے حصّہ میں آگئے۔ عام طور پر صدرِ پاکستان سے لے کر نچلی سطح تک کی کٹھ پتلیوں سے امریکی نائب وزیر خارجہ سے زیادہ اونچی سطح کے امریکی اہل کار بات چیت کرنے کی نہ تو ضرورت سمجھتے ہیں، اور نہ ہی ان کے پاس اس کے لیے وقت ہے۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں تیری محبت کے سوا۔ امریکی تو چلیے پھر غیر ہیں۔ پاکستانی سفیر، جناب حسین حقّانی صاحب، جنہیں ہمارے ادیبِ عصر، شہزادہءلطائف، جناب یونس بٹ” حسین امریکانی“ کا لقب بھی دیتے ہیں، انہوں نے اسی روز رات کو ایک ڈنر کا اہتمام کیا، اور مرے پر سو دُرّے کے مصداق اس میں زیادہ تر مہمان پاکستانی صحافیوں کو مدعوہی نہیں کیا گیا۔ کہا یہ گیا کہ بھئی اخراجات بچانے کے لیے یہ ضروری تھا، شاید وہ اب تک یہ ہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں آٹے اور چینی کی کمیابی کی بناءپرپاکستانی صحافی غیرممالک میںکھانے پینے میں ذوق و شوق ِ فراواں رکھتے ہیں [ حالانکہ اکثر امراء روٹی نہ ملنے پر کیک کھانے کے عادی ہوچکے ہیں، فرانسیسی حکومت یہ خاص طور پر نوٹ کرلے، تاکہ بوقت ضرورت کام آئے]۔ تاہم، اخراجات کو بچانے کا یہ عالم تھا کہ ڈنر میں شریک ہر مہمان کو 150 امریکی ڈالر کا ایک ایک گلدستہ پیش کیا گیا۔


قصّہ کوتاہ، اس امریکی دورہ میں، جو سابق صدر جارج بش کا عہدِ صدارت تھا، کئی اور ناگفتہ بہ اور سخت مقام آئے، جہاں پاکستانی رہنماﺅں کی گفت و شنید کی اہلیت اور قابلیت پر کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن اس سفر کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی جمہوری حکام کو امریکی سیاستدانوں اور اہل کاروں کی نظروں میں اپنی درست قدر و قیمت کا احساس ہوگیا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان واپسی پر امریکی روّیہ کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا، اور پارلیمنٹ، وزارتِ خارجہ، اور وزارتِ داخلیہ، مل جل کر جوابی قانونی کارروائی کرتے جس کی رُو سے نہلے پر دہلا نہیں تو ایک عدد نہلا ہی لگانے کا انتظام کیا جاتا، مگریہ بے توقیری برداشت کرلی گئی، اور اس پر مناسب بحث و مباحثہ تک نہیں کیا گیا۔ تاہم آج ایک برس سے زیادہ گزرجانے کے بعد پاکستانی حکام کو یہ خیال آیا کہ امریکی سفارت کاروں اور ان کے طفیلیوں کی پاکستان میں حرکات و سکنات ، چال چلن،اور چہل پہل تمام سفارتی حدود کو پار کررہی ہیں۔ وہ نہ صرف آزادانہ طور پر سارے پاکستان میں گھوم پھررہے ہیں، بلکہ سیاسی رہنماﺅں اور عوامی نمائندگان سے بے دریغ ملاقاتیں کرکے ان پر اثراندازہونے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ چنانچہ وزارتِ خارجہ نے ایک منمناتا ہوا سا ایک خط جاری کیا ہے جس میں متنبہّ کیا گیا ہے کہ وہ براہ راست، بلااجازتِ وزارتِ خارجہ، ایسی کارروائیوں سے باز رہیں۔ اب اس کا کتنا اثر ہوتا ہے، یہ دیکھنا ہوگا۔ اس قسم کی ہدایتیں اور طریقِ کار تو پہلے سے موجود ہیں، مگر پاکستانی خود ہی امریکی بانہوں کی پناہ میں جانا پسند کرتے ہیں۔ ہم نے ایک مرتبہ پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہمارے معاشرہ اور ثقافت میں خواتین کو جومقام دیا جاتا ہے، اس کا ناجائز فائدہ امریکی حکام ایک خاتون سفیر کو یہاں متعین کرکے اُٹھا رہے ہیں۔ شاید ہمارے سیاسی رہنما انہیں ”نا جی نا“ کرکے ان کا دل توڑنا نہیں چاہتے، اور ہر وقت ان سے ملاقات کے مشتاق رہتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صدّام حسین کا 1990 ءمیں پٹرا کرنے میں بھی ایک خاتون امریکی سفیرہ کا ہاتھ اور ادائیں رہی تھیں، ان سے بات چیت کرکے صدّام مطمئن تھے کہ کویت پر ان کا قبضہ امریکیوں کو منظور ہوگا۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے، جس کے نتیجہ میں ایک عظیم اسلامی ثقافت کو تہس نہس کردیا گیا، اور ایک پوری عراقی نسل کو خوراک اور صحت کی سہولتوں سے محروم رکھا گیا، یہاں تک کہ 2003 ءمیں اس پر مکمل قبضہ جما لیا گیا۔


اس تمام پس منظر میں، قارئین کرام، با شعور پاکستانی اس وقت کا انتظار ہی کرتے رہے ہیں کہ کب امریکی صدر اور ان کی بیگم پاکستان آئیں اور وہ ہمارے چک لالہ ایئر بیس پر اپنے امریکی اینڈریوز ایئر بیس جیسی پیدل مہمان نوازی کا لطف اٹھائیں۔ تاہم چونکہ مستقبل قریب میں تو بارک حسین اوباما اور ان کی بیگم ایسی چہل قدمی کا ارادہ نہیں رکھتے، کیونکہ وہ بقول خود ان کے، اپنے خاندانی فرد بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کے استقبال کی تیّاریوں میں مصروف ہیں اور اپنے سوتیلے اتّحادی پاکستانی وزیر اعظم کو بھولے ہوئے ہیں، ہم یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ محترمہ ہیلیری کلنٹن، موجودہ وزیرہءخارجہ، کی جلد ہی آمد پرقناعت کرتے ہوئے ایک ریہرسل کرلی جائے، اور انہیں بھی کم از کم اتنی چہل قدمی ، مع سود، کرادی جائے جتنی کہ گیلانی صاحب کو کرائی گئی تھی۔ اگر ہمارا دفترِ وزارتِ خارجہ انہیں پہلے سے بتادے تو وہ کم از کم مناسب جوگرز پہن کر تشریف لائیں، ورنہ پاکستانی حکا م انہیں ملتانی کھُسّے فراہم کردیں۔ دوسری جانب ہمارے میڈیا کے بزرجمہر نقّاد ہوشیار رہیں، سنا ہے کہ آج کل واشنگٹن میں اعلیٰ حکّام چند امریکی چینلوں، بالخصوص فوکس Foxسے، جو اپوزیشن ریپبلیکن پارٹی کا ماﺅتھ پیس ہے، بہت ناراض ہیں۔ جہاں تک پاکستانی میڈیا کا تعلّق ہے، اس نے کیری لوگر بل کے جس طرح پرخچے اڑائے ہیں، اس سے بھی وائٹ ہاﺅس ششدر ہے او ر اس کار نگ فی الحال قوس قزح جیسا،غصہ سے لال، پیلا، اورسرخ ہوگیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک جارحانہ پالیسی بناڈالی ہے، جس کی رو سے ایسے میڈیا سے ”نمٹا“ جائے گا۔ اس کا پہلا مزہ ہمارے جیو کے حامد میر نے اس وقت چکھا، جب حالیہ دورہءامریکہ کے دوران ان سے وائس آف امریکہ کے پروگرام ”خبروں سے آگے“ میں یہ چبھتا ہوا سوال  کیا گیا کہ پاکستانی میڈیا عوام کے سامنے ”اپنا نظریہ“ کیوں پیش کرتا ہے۔ اسے تو صرف مہمانوں کا نقطہءنظر پیش کرنا چاہیے۔ ہمارے پیارے حامد میر اس کاجارحانہ جواب دینے سے قاصر رہے، اگرچہ انہوں نے اس امر کا خاصہ دفاع کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جدید میڈیا کی بدولت ہی ہے کہ مغرب میں حکمرانوں پر 24 گھنٹے تنقید کی جاتی ہے، اور مثال کے طور پر اس کی عوامی خدمت کا اس طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ہفتہ ہی بی بی سی نے اپنے ایک مقبول پروگرام ”کوئیسچن ٹائم“ میں ایک متعصب ، اسلام اور امیگریشن مخالف برطانوی نیشنل پارٹی کے موجودہ رہنما نک گریفن کے پرزے اڑادیے۔ یہاں تک کہ اس کے اپنے پارٹی حمایتی بھی اس کی اس ناقص کارکردگی پر تلخ تنقید کرنے لگے۔


ہیلیری کلنٹن کی اسلام آباد آمد پر یہ بھی خیال رکھا جائے کہ کہیں ان کا طیّارہ کہوٹہ یا جنوبی وزیرستان وغیرہ کی جانب نہ جا نکلے۔ امریکی پائلٹوں سے یہ بعید نہیں۔ گزشتہ ہفتہ ہی ایک امریکی مسافر طیّارہ امریکی حدود میں اپنی منزل پر اترنے کے بجائے پراسرار طور پر 80 منٹوں تک غائب غلّا ہوگیا، اور راڈار پر نظر آنے کے باوجود مسافروں سمیت ایک خاموش پرواز کرتا رہا، شنید ہے کہ اس کے پائلٹ نیند کے مزے لُوٹ رہے تھے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ محترمہ ہیلیری کلنٹن کا مقابلہ ہمارا میڈیا کیسے کرتا ہے۔ ہم تو جب مانیں جب کہ ہمارے دو چار ٹی وی چینلوں کو وہ بلا قدغن آزادانہ انٹرویو دیں، اور ہمارے بزرجمہر بی بی سی جیسی جراءت کا مظاہرہ کرہی ڈالیں۔ دوسری جانب ہم اُمّید کرتے ہیں کہ چک لالہ پر مجوّزہ چہل قدمی کا ہیلیری کلنٹن کی صحت پرایک مثبت اثر ہوگا، خاص طور پر اگر ان کا ساتھ ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان دیں، جنہیں اس دورہ ءپاکستان کے دوران ان کی مستقل افسرہ ِ مہمان نوازی مقرر کردیا جائے۔


اس پرآشوب دور میں ہم اپنی افواج اورتمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، جو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ہمیں سکون اور آزادی سے جینے کے لمحات فراہم کررہے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت جی کھول کر مالی امداد اور انعامات نچھاور کررہی ہے۔ ہم ان کی توجّہ اس بہادر پاکستانی پولیس آفیسر کی جانب دلانا چاہتے ہیں جس نے تمام دہمکیوں اور خطرات کے باوجود سہالہ میں مشکوک غیرملکی سرگرمیوں کا انکشاف کیا۔ کاش حکومت ایسے جری اور محب الوطن افراد کو فوری طور پر اعلیٰ ترین اعزازی میڈل اور نقد انعام عطا کرنے کی ہمّت پالے۔ اس اقدام سے اُن پاکستانیوں کا حوصلہ بڑھے گا جو اِس وقت دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ دوست نما دشمنوں سے بھی نبردآزما ہیں۔ اس مرحلہ پراگر اس جری سیکیوریٹی گارڈ کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی، جس نے مشرف دور میں امریکی سفیرہ کے ساتھ آنے والے مسلّح اور پرغرور گارڈ کو پارلیمنٹ میں جانے سے روک دیا تھا۔ نہ جانے اس بہادر پاکستانی کا کیا بنا! کیا اسے ملازمت سے ہی برخاست کردیا گیا؟ اس جمہوری دور میںاسے تلاش کرکے اس کی فوری حوصلہ افزائی کی جائے اور اِس ضمن میں پاکستانی میڈیا اپنا کردار ادا کرے۔ اسی طرح ہم اس بہادر پاکستانی نوجوان کو بھی دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں جس نے گزشتہ دنوںاسلام آباد کی شاہ راہوں پر اپنے ایک ننھے سے پستول کی مدد سے دانتوں سے پیروں تلک مسلّح جیپ سوار مشتبہ غیرملکیوں سے خوف زدہ ہونے کے بجائے پاکستانی وقار کا دفاع کیا۔ یہ درخواست ہم ایک اور جری صحافی، انصار عباسی سے کرتے ہیں، کہ وہ اس نوجوان کی تفصیلی کہانی منظرِ عام پر لائیں۔[ اس بارے میں مختصر اطلاعات سب سے پہلے جناب حامد میر نے اپنے ایک کالم میں دی تھیں۔]


اب ہم ایک امریکی صوفی اردو شاعر، جناب حنیف اخگرمرحوم کا کچھ کلام آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ اس پُرمعنی شاعری سے آپ یقینا لطف اندوز ہوں گے:


جب آئینِ چمن بدلا، نہ اس کے باغباں بدلے
تو مجبوراً پرندوں نے، قفس سے آشیاں بدلے


جو خود اپنی زباں دے کر، بدلتا ہے زباں بدلے
مگر وہ شدّتِ آوازہ، لفظ و بیاں بدلے


زبوں حالی خمستاں کی، نہ طبعِ مے کشاں بدلے
تو لازم ہے کہ اب جیسے بھی، ہو پیرِ مغاں بدلے


نصیبِ دوستاں اس شدّتِ قحطِ مسرّت میں
خوشی سے کوئی کتنے غم، نصیبِ دشمناں بدلے


اگر وہ دشمنِ آسودگی، ہے بے خبر اب تک
تو اب اٹھّے کوئی، کیفیتِ خوابِ گراں بدلے


زباں کو میری ،وہ اپنی زباں شاید سمجھتے ہیں
جو فرماتے ہیں اخگر، اپنا اندازِ بیاں بدلے


٭






پیر، 26 اکتوبر2009
حکمت و دانش کو پوشیدہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی خزانہ کوتاریکیوں میں چھپادینا۔۔۔ چینی کہاوت
Justuju Media
All Rights Reserved.- Copyright 2009
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
This is a syndicated column. The writer and the syndicating agency, Justuju Multimedia, allows you to publish this article without any changes and editing. The moral and copyrights of the writer are asserted. This article may be published for non commercial purposes, under a fair usage concept.

No comments:

Google Scholar