سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Showing posts with label Pakistan Politics. Show all posts
Showing posts with label Pakistan Politics. Show all posts

Sunday, April 06, 2008

جستجو / حالاتِ حاضرہ ۔۔ سیاسی فاتحہ خوانیاں


جستجو / حالاتِ حاضرہ

سیاسی فاتحہ خوانیاں:

ہماری سیاست کے چند واضح منا فقتی روّیے؛ فوج کی طرح رینجرز کو بھی شہروں سے واپس اپنے اصل کام پر بھیجاجائے؛ جامعہ کراچی میں ایک پروفیسر پر رینجرزکابہیمانہ تشدّد

محمد بن قاسم

مرحوم و مغفور استاد قمر جلالوی نے کیا خوب کہا تھا:

کب میرا نشیمن اہلِ چمن ،گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں، بجلی کو پکارا کرتے ہیں

یہ ایک ایسی خوبصورت غزل ہے، جسے جناب حبیب ولی محمد نے اپنی پرسوز اور دل کش آواز میں گا کرامر کردیا۔ ساتھ ساتھ یہ خوبصورت اشعار تمام محروم پاکستانی طبقات کی حسرتوں کی بھی آفاقی اور مستقل نمائندگی کرتے رہیں گے۔ 2 اور3 اپریل 2008 کی درمیانی رات جب متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم قائدین کراچی کے ایک متوسط علاقہ عزیزآباد کے ایک تنگ اور چھوٹے سے ، لگ بھگ 5 مرلہ( 120 مربع گز) پر بنے، گھرکی ایک چھوٹی سی بیٹھک میں ایک علامتی اور باوقار و پرشکوہ ملاقات کررہے تھے، تو پاکستانی سیاست کی تاریخ میں ایک نیا بابِ محبت واہوتا نظر آرہا تھا۔ تاہم، یہ محبت یکساں میزان کی بنیادوں پر استوار ہوتی نظر نہیں آتی۔ مرکزی اور وفاقی سطح پر متحدہ کو ابھی تک پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر اہم پارٹیوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ یہ وہ ہی قوتیں ہیں جن میں سے چند نمایاں رہنما 1970 کی دہائیوں کی آمریت کے گٹرباغیچوں کے شگوفے ہیں، اور ببانگ دہل پاکستانی جاگیرداروں، غاصب سرمایہ داروں اور سیاسی طالع آزماﺅں کے مفادات کے رکھوالے ہیں، اور اپنے ماضی اور تاریخ کوچھپاکرآج سب سے زیادہ شور و غل مچا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں ، اور ان کے اتحادیوں میں سے، چند دانش ور بھی اپنی جمہوری قربانیوں کے باوجود پاکستان کے ان زمینی حقائق سے اتنی گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں کہ ایک تاریخی عوامی قوت حاصل کرنے والا وزیراعظم بھی، فرنگی زبان میں حلف اٹھا تے ہوئے اپنی قومی زبان کی آبرو کے بارے میں نہیں سوچتا، خود ارباب ِ حل و عقد میں رتبہ ءاعلیٰ پانے کے باوجود، بین الاقوامی قوتوں کو کھلے عام اپنے داخلی معاملہ میں تفتیش کی دعوت دیتا اور اس طرح خود اپنے ہی نظام پر ایک طرح کا عدم اعتماد کا اظہار کرتا، اور اپنی پہلی تقریر میں سب سے پہلے عوام کو گندم کی قیمت میں ایک حیران کن اضافہ کا تحفہ دے کرششدر کردیتاہے۔ ہمارے ایک کرم فرما جناب میاں چنوں ہمارے کان میں سرگوشی کررہے ہیں، کہ اگر اقوام متحدہ سے کچھ تفتیش کرانی ہی ہیں، تو اس فہرست میں اپنا نام شامل کرانے کے لیے کئی اور روحیں بھی بے تاب ہیں۔ مثلاً، جنرل ضیاءالحق اور ان کے ساتھی، مرتضیٰ بھٹو اور ان کے ساتھی، متحدہ کے ہزاروں ماورائے عدالت مقتول کارکنان ، وغیرہ۔۔
چند ایسی پاکستانی سیاسی پارٹیاں بھی ہیں جن کی سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست کے مصلّے متحدہ کی سیاست کی اذانوں کے بعد لپٹ چکے ہیں، اور دیگر پاکستانی علاقوں میں اس پیغام کے پھیلنے اور مقبولِ عام ہونے کے امکانات روشن ہورہے ہیں۔ متحدہ کا وہ سیاسی عزم، جس میں عوام کو بااختیار بنانا، اور سرداری، اور جاگیرداری کے نقائص کو دور کرنا شامل ہے، تقریباً ہر خاندانی سیاستدان کی آنکھوں میں ایک شہتیر کی حیثیت رکھتا ہے، چنانچہ اس عزم اور ارادے کو وفاقی سطح پر قدم جمانے سے روکنا ان کا خفیہ ایجنڈا رہے گا، جو دیگر تمام سیاسی قوتوں کو مل جل کر متحدہ کے پرکاٹنے پر مجبور کرتا رہے گا۔ یہ بھی ایک دل چسپ امر ہے کہ متحدہ اب تک وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو معاشرتی اور سماجی اقدار اور عوامی خدمت پر مبنی عملی سیاست کررہی ہے، اور اس کا بنیادی ایجنڈا ہی دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے لیے پیغامِ اجل ہے۔ چنانچہ اس کی ہر سیاسی دوستی کھٹی میٹھی رہے گی، جب تک کہ، خدانخواستہ، متحدہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو ہی تبدیل کرکے سیاسی زمین داروں کے آگے شکست تسلیم نہ کرلے، اور اس کانِ نمک میں خود بھی نمک نہ بن جائے۔ فی الحال شکست خوردہ مسلم لیگ قائد اعظم آئندہ چند برسوں میں اپنا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اسی طرح قومی خدمات کے ایجنڈے پر عمل پیرا رہے تو وہ بھی آئندہ انتخابات میں واپسی کے امکانات بڑھالے گی۔
بہرحال، سندھ میں شہری اور دیہی باشندوں کے درمیان محبت کے فروغ کا تقاضہ یہ نظر آرہا ہے کہ متحدہ فی الوقت بلا چوں و چرا قربانیاں دیتی جائے، اور ملکی مفاد میں ان سے گریز نہ کرے۔ جس وقت رات گئے یہ اہم ملاقات ہونے جارہی تھی، مسلم لیگ نواز شریف دھڑہ کے ایک لیڈر، آصف خواجہ، اپنی تمام تر کوششوں میں مصروف تھے کہ کسی طرح اس میٹنگ کو بادِ سموم کی ایک دھونی دے دی جائے۔ وہ اپنے میڈیاکو دیے گئے تازہ بیان میں فرماتے رہے کہ تمام ملک و قوم کو متحدہ کے کردار اور اندازِ سیاست پر اعتراض ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ سندھی قوم پرست جماعتیں بھی ذاتی مفادات کی سیاست کو قومی دھارے کی سیاست پر اوّلیت دیتے ہوئے متّحدہ سے مخاصمت کا اظہار کررہی ہیں، اور آصف زرداری کے اختیارِ رہنمائی کو کھلا چیلنج دے رہی ہیں۔ چونکہ آصف زرداری نے ابھی تک سندھ میں وہ وزن نہیں پایا ہے جو کہ بے نظیر کو حاصل تھا، اس لیے اس قسم کی شدید مخالفت مستقبل قریب میں مزید سامنے آنے کا خطرہ ہے۔ ایسے کوتاہ بین افراد کی جانب سے مزاحمت کے اثرات خاصی اتھل پتھل اور بد امنی پر منتج ہوسکتے ہیں، بالخصوص یونین بازی کے کھلے میچوں میں ہونے والی متوقع ہلّڑ بازی ان ہی بنیادوں پر ہوگی، جس سے تعلیمی، زرعی، صنعتی، اور شہری امن کونقصان پہنچے گا۔ اور گویا یہ عناصر اس طرح ان پاکستانیوں کے حقِ خود ارادی اور رائے دہی کی توہین کر رہے ہیں، جنہوں نے متحدہ کو کثیر ووٹ دے کر خاصی نمایاں تعداد میں پارلیمان میں اپنا نمائندہ بناکربھیجاہے۔ چنانچہ مسلم لیگ نواز دھڑہ، اور عوامی نیشنل پارٹی کی بھی ہرممکن کوشش ہے کہ متحدہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان کوئی ایسی مفاہمت نہ ہونے پائے جو طویل المیعاد ہو، یا وفاقی حیثیت کی حامل ہو۔ 12 مئی 2007 کے واقعات کو یادرکھنے والے سیاست دان کراچی اور حیدرآباد کے عوام کے ساتھ دسمبر 1986 سے 1997 تک ، اور اس کے بعد دسمبر 2007 میں کیے جانے والے صریح مظالم نہ بھولیں۔ یہ ایک ایسی خونچکاں حکایت ہے جس کے سامنے 12 مئی کے واقعات رائی کے دانے سے زیادہ نظر نہیں آئیں گے۔ چنانچہ یہ ہی بہتر ہوگا کہ پی پی پی کی طرز پر مسلم لیگ نواز دھڑہ بھی اب متحدہ کے ساتھ معافی تلافی کرکے ایک نئے عملی کام کاباب کھول دے، اور قوم پرست عناصر بھی پاکستانیت کو مقدم رکھتے ہوئے سب کو گلے لگائیں۔ جہاں تک صدر مشرف کا ساتھ دینے پر ناراضگی کا معاملہ ہے تویہ یاد رکھا جائے کہ جمیعت علماءاسلام پر بھی اسی قسم کے الزامات لگائے جاسکتے ہیں، اور یہ پی پی پی کے صدر سے مذاکرات ہی تھے، جن کی وجہ سے آج نون نمک بھی اقتدار کے مزے اڑارہے ہیں۔ تو کیا یہ سب اتحادی ایک روز پی پی پی کو بھی اپنے اتحاد سے باہر کردیں گے! یہ سب ایسے دباﺅ ہیں، جن کا سامنا کرناکسی عام رہنما کے بس میں نہ ہوگا۔ ہر شخص کو منانا، اور اپنے ساتھ ملانا ممکن ہی نہیں، خاص طور پر جب کہ ان میں سے شدید قوم پرست عناصر کو اس قسم کے قانونی مسائل کا سامنا ہی نہیں، جن سے قومی مفاہمت آرڈیننس نے تحفظ فراہم کیا ہے۔ یعنی کہ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔۔۔ تو کیوں نہ وہ نہ تو کھیلیں، اور نہ ہی دوسروں کو کھیلنے کودنے دیں!
بدہ 2 اپریل کو پی پی پی کے بادشاہ گر رہنما آصف زرداری تمام دن نہایت ہی اہم مصروفیات میں اسلام آباد میں الجھے رہے۔ وہ خاصی رات گئے 90 پہنچے۔ آپ میں سے کچھ افراد جو تجسس کے مارے ہیں، وہ نہ جانتے ہوں گے کہ 90 کا مطلب کیا ہے۔ یہ دراصل متحدہ کے صدردفتر کے ایک فون نمبر (6313690)کے آخری اعداد ہیں۔ تو حاصل کلام یہ ہے کہ تمام دن کی شدید مصروفیات اور طویل سفروں کے بعد آصف زرداری اور ان کے وفدکے ارکان بہت تھک چکے تھے، اور کسی بھی طویل مذاکراتی میٹنگ کرنے سے قاصر تھے۔ چنانچہ اس تاریخی میٹنگ کے بعد پریس کانفرنس کے دوران کسی بھی قرارِ واقعی پیش رفت کا فوری طور پر پتہ نہ چل سکا۔ اس بارے میں سندھ میں تیزی سے پھیلتی ہوئی ایک دوستانہ فضا میں چند روز اور انتظار کرنا پڑے گا، جس سے اس نئی بہارِ سیاست کی فصلوں اور پیداوار کا پتہ چل سکے گا۔ اس دوران اس میٹھی محبت کے بے شمار رقیب اپنے حسد اور رشک کے جذبہ سے مغلوب ہوکر کیدو کا کردار ادا کرتے رہیں گے، اور اس ملاقات کو”نشستند، گفتند، و برخاستند“ سے زیادہ کا درجہ نہیں دیں گے۔
جہاں تک ہمہ وقتی مایوسی اور قنوطیت کا شکار لوگوں کا سوال ہے، ان کے لیے موجودہ حکومت علی بابااور چالیس چوروں کی وقتی کامیابی سے زیادہ کچھ اور نہیں۔ جب کہ اکثر دانش وروں کے نزدیک قومی مفاہمتی آرڈیننس ایک ایسا قانون ہے جس کی کوئی منطقی اور اخلاقی بنیاد ہی نہیں نظر آتی، اور اس کھوکھلے پلیٹ فارم پر وزن زیادہ بڑھنے سے اس کے منہدم ہونے کے خدشات ہمیشہ ایک تلوار کی طرح سروں پر لٹکتے رہیں گے۔ اسی تناظر میں وکلاءکی تحریک میں ایک واضح منافقت نظر آتی ہے، جو میٹھا، میٹھا ہپ، ہپ، اور کڑوا، کڑوا تھو، تھو کرتی ، اور اس مضحکہ خیز قانون اور پاکستانی عدالتی نظام میں ہر سطح پر رائج بدعنوانیوں سے نظریں چراتی دکھائی دیتی ہے۔ نئی حکومت کے کارپردازوں کے لیے یہ ایک بڑی اخلاقی فتح ہوگی اگر وہ اس کالے قانون کو اپنی سپر بنانے کے بجائے عام قوانین کے تحت ہی اپنی معصومیت اور بریت کو ثابت کردیں۔ تاہم یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس میں ابھی تک وہ دیومالائی داستانی بچہ نظر نہیں آرہا، جو یہ چلا اٹھے، ”بادشاہ بے لباس ہے“۔ اور ایسا جراءت مند وقت آنے تک پاکستانی سیاست فاتحہ خوانیوں کے گرد ہی گھومتی رہے گی۔ ایسے ہی ستم ظریف قنوطیوں کے نزدیک 90 پر فاروق ستار اور آصف زرداری کے درمیان جو سندھی ٹوپی کا تبادلہ کیا گیا، وہ بھی ایک ”ٹوپی ڈرامہ“ ہے۔ واضح رہے کہ اردو سلینگیات میں ٹوپی پہنانے کا مطلب دھوکہ دینا، اور بے وقوف بنانا ہوتاہے۔ کاش ان قنوطیوں کے یہ خیالات باطل ثابت ہوں۔
دوسری جانب یہ بھی امکان ہے کہ ضرورت سے زیادہ قومی مفاہمت کہیں اپنے اپنے غیرقانونی مفادات کی حفاظت پر منتج نہ ہو، جس کا مطلب پاکستانی قوم کی بچی کھچی لنگوٹی بھی چھن جانے کا باعث ہوگا۔ جہاں تک 100 روزہ حکومتی ارجنٹ کارروائیوں اور نتائج کا تعلّق ہے تو یہ یاد رہے کہ ایسے تمام اقدامات صرف عوام کے دل جیتنے کی خاطر ہوں گے، نہ کہ پاکستانیوں کے طویل المیعاد مستقبل کے مفادات کی خاطر۔ اصل امتحان تین چار ماہ کا نہیں، بلکہ کم از کم 5 برس کاہے، جب کہ زندہ قومیں اپنے مستقبل کے کم از کم صد سالہ پلان بناتی ہیں اور اس پر عمل درآمد کرتی ہیں۔ اس دوران کاش ہم سب مرحوم مشرقی پاکستان کی روح سے اب تک بڑے پیار سے چمٹے ہوئے بدنصیب پاکستانیوں کو بھی اس دھرتی پر لا بسائیں، جہاں ان کی دو لاکھ کی تعداد کے مقابلہ میں 40لاکھ افغانیوں کو قوم پرستی کی بنیاد پر نہ صرف پناہ دی گئی، بلکہ ان میں سے ایک کثیر تعداد جعلی طور پر پاکستانی شناختی کاغذات حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ یہ کیسی منافقت ہے۔۔۔۔ اس کا جواب کون دے سکتاہے! اور پاکستان کے محسن اعلیٰ جناب ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب کی عزّت اور آبرو، اثاثہ جات، اور آزادی کب بحال ہوگی! چند گھنٹوں کی ایک ہی فوجی بریفنگ نے جدید رہنماﺅں کے ذہن کے چند دریچے کھول دیئے، اور خاصے دریچے بند بھی کردیئے ہیں۔ نہ جانے ان میں کہیں ڈاکٹرصاحب کے زندان کا دروازہ مزید مضبوطی سے بند نہ کردیا گیا ہو۔۔
چلتے چلتے ایک اور خیال آرائی۔ وہ یہ کہ جس طرح ہماری فوج کی اعلیٰ قیادت نے تمام باقاعدہ فوجیوں کو سول اداروں سے فوری واپسی کا حکم دے دیا ہے، وہ رینجرز کو بھی شہروں سے واپس بلاکر شہری اداروں کی حاکمیت پر رحم فرمائیں۔ کراچی یونی ورسٹی میں ایک حالیہ واقعہ نے رینجرز کی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کردیا ہے، جہاں ایک باعزّت پروفیسر پر بہیمانہ تشدّد بھی کیا گیا، اور اس غلط طرز عمل کا دفاع بھی کیا جارہاہے۔ امید ہے کہ ہمارا میڈیا، اور نئے اور فی الوقت مقبول وزیراعظم اس واقعہ کا بھی نوٹس لیں گے، جس طرح وہ اور دوسرے معاملات میں بھی کررہے ہیں۔ آخر ایک غریب دانش افروزاستاد کا درجہ کسی امیر وکبیر، البیلے اور رنگیلے کرکٹ کے کھلاڑی سے کہیں اونچا ہے۔ رینجرز کے سرحدوں اور اپنے تربیتی علاقوں میں واپس جانے سے نہ صرف ملکی دفاع مضبوط ہوگا، بلکہ شہری علاقوں میں سیکیوریٹی کے بہتر نظام کے لیے پولیس اور اسی قبیل کے دیگر کئی اداروں میں ہزاروں قابل افراد کو نوکریوں کے مواقع فراہم ہوجائیں گے، شہری سہولیات کی کئی عمارتیں اور جگہیں خالی ہوجائیں گی، اور دوسری جانب شہریوں کو حقیقی طور پر ایک غیرفوجیانہ اور غیرقابضانہ ماحول، احساسِ طمانیت اور اعتمادحاصل ہوگا۔ اسی طرز پر یہ بھی مناسب ہوگا کہ شہری حدود کے اندر محصور ہوجانے والے پرانے کینٹونمنٹ کے علاقے بھی اب شہری ملکیت قرار دے دئیے جائیں ، تمام فوجی سہولیات شہر کے باہر منتقل کردی جائیں، اور اس طرح خالی ہوجانے والی زمینوں کو کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے مکانات اور فلیٹوں کی تعمیر، اور بچّوں کے لیے کھیل کے میدانوں کے لیے استعمال کیا جائے۔
٭
جستجو پبلشرز اور ریسرچرز
جمعہ، 4 اپریل 2008

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
دیکھیے اب ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

(c)2008 A syndicated essay by Justuju Research and Publishing - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Research and Publishing Agency, hereby grant a permission for and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license non commercial agreement. This piece must be published "as is" to qualify for this license

Monday, January 28, 2008

پاکستانی سیاست، بے نظیر کے بعد

جستجو / حالاتِ حاضرہ

پاکستانی سیاست، بے نظیر کے بعد

محمد بن قاسمؔ

یہ الفاظ صرف مشہور برطانوی ڈرامہ نگارولیم شیکسپیئر( 1564-1616 ) ہی کے نہیں ، کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے، جس پرہر عورت اور مرد کو صرف ایک اداکار کی حیثیت میں آنا اور جانا ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم سے آج تک تمام نسلِ انسانی یہ مناظر دیکھتی آئی ہے، اور اسی قسم کے خیالات کا اظہار مختلف ادیب اور فلسفی پہلے بھی کرتے رہے تھے۔ البتہ یہ ایک خاص بات ہے کہ اس اسٹیج پر کچھ ایسے افراد بھی آکر اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو ان کی کارکردگی کی وجہ سے تاریخ میں نمایاں طور پر رقم ہوجاتاہے، اور دیگر عام افراد کی نسبت انہیں ان کی خوبیوں، خامیوں، اور کارناموں کی وجہ سے ایک عرصہ تک یاد رکھا جاتاہے۔ پاکستانی سیاسی بھٹّو خاندان کے کئی افراد اس تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ بے نظیر بھٹّو (953-2007) اپنی ڈرامائی زندگی کی طرح اپنی موت کے بعد بھی اپنا سایہ پاکستانی سیاست پر ڈالتی رہیں گی۔ بالکل اسی طرح، جیسے کہ وہ خود اپنی زندگی میں اپنے مرحوم والد کی تصویر، کارناموں اور ان کی روایات کے سائے میں سیاست کرتی رہیں۔ انہیں یہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ کسی بھی اسلامی ملک کی پہلی اور 35 برس کی عمر میں کم سن ترین وزیر اعظم بنیں۔

پاکستان کے ایک زندگی سے بھرپور شہر، راولپنڈی کی وجہ ء شہرت 1951 میں اس وقت کے ایک مقبول وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے کھلے عام قتل کے بعد سے آج تک کسی قابل تعریف واقعہ سے نہیں جڑی ہوئی ہے۔ چاہے وہ اوجھڑی کیمپ کا حادثہ ہو، یا پھر 27 دسمبر 2007کی خونی شام ہو، جب کہ عین اذانِ مغرب کے وقت لگ بھگ 5:15 پر ایک قاتلانہ حملہِ نے ایک اور وزیر اعظم(سابقہ) کی جان اس کے ہزاروں حمایتیوں کے سامنے لے لی۔ پاکستانیوں کے لیے یہ سانحہ کئی معنوںمیں رنجیدگی کے رنگ لیے ہوئے ہے۔ بے نظیر بھٹو ایک عرصہ کے بعد اپنی سیاسی جدّوجہد کا پھل پانے والی نظر آرہی تھیں۔ اور بھٹّو خاندان میں خوشیوں کا دور لوٹ آنے کا سماں پیدا ہوگیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی حمایتوں کے ریکارڈ کے مطابق عوام کی ایک کثیر تعداد اُن کی اِن متوقّع خوشیوں میں شریک ہورہی تھی۔ دوسری جانب، بے نظیر کے حمایتی، اور مخالفین، اور دیگر غیرجانب سیاسی پارٹیاں بھی جلد ہی ہونے والے انتخابات کی وجہ سے خوش تھیں، کہ اب ایک مرتبہ پھر انہیں جمہوریت کی دوڑ میں مسابقت اور متوقّع جیت کا امکان نظر آتاتھا۔ بے نظیر کی اس رنجیدہ اور غم انگیز موت کی وجہ سے ان کے مخالفین بھی پریشان ہیں، کیونکہ غم زدہ عوام کا غیض و غضب ایک سیلاب کی صورت میں سڑکوں، گلیوں، شہروں اور دیہاتوں میں بہہ نکلا ہے، اور جو قتل و غارت گری، توڑ پھوڑ ہوچکی ہے، اور ہورہی ہے، وہ پاکستان کے دشمنوں کے منصوبوں کے عین مطابق ہے۔ اور یہ مخالفین یہ بھی جانتے ہیں کہ آج بے نظیر تو کل اُن کی بھی باری ہوسکتی ہے۔ کیونکہ بے نظیر کو اس سفّاکی سے قتل کرنے والا دشمن فی الوقت نادیدہ ہے، اور اس کا ہدف صرف شخصیات ہی نہیں، بلکہ پاکستان کا وجوداور اس کا استحکام ہے۔ یہ ہی دشمن اپنی کارروائیوں کا نشانہ صدر پرویز مشرّف، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، اور سابق وزیرِ داخلہ آفتاب احمد شیرپائو کو بھی بنا چکاہے۔ اس کے علاوہ وہ وقتاً فوقتاً ہماری مسلّح افواج، اور دیگر معصوم افراد کو بھی زخمی اور قتل کرچکا ہے۔ چند بے شعور صحافی جنہیں ٹیلی وژن اسکرین تک رسائی حاصل ہوگئی ہے، اس سانحہ کی ذمّہ داری ان شکوک کی بنیاد پر متعیّن کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن کا اظہار مرحومہ نے اکتوبر 2007 میں صدر مشرّف کے نام ایک خط میں کیا تھا۔ اس خط میں اپنے چند اہم سیاسی مخالفین، اور احتساب عدالت کے چند کارکنان کے نام درج کردیے گئے تھے۔ اس بارے میں سابق جنرل(ر) حمید گل کا کہنا قابل قدر ہے کہ ان سمیت تمام متذکرہ افراد سے تفتیش کی جائے۔ چنانچہ تمام تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کو اس امر کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، اور اس بارے میں ایسی قیاس آرائیوں سے گریز کرنا بہتر ہوگا، جن میں قبل از وقت کسی شخص کو ذاتی حیثیت میں ملوّث کردیا جائے۔ پاکستان کے دشمن نہ صرف اس کی سرحدوں کے اندر مقیم ہیں، بلکہ وہ مختلف دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے روپ میں بھی پاکستان میں اتھل پتھل برپا کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی کارروائی کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ خود ان کے ایجنٹوں کو بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کا اصل باس کون ہے۔ تہہ در تہہ تنظیمی سطحوں کی بناء پر وہ اصل مقاصد سے بہرہ ور نہیں ہوتے، اور صرف اپنے مالی فوائد سے ہی واسطہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ القاعدہ کی کارروائی ہے، تو وہ اس بارے میں چپ رہنے والی تنظیم نہیں۔

اب موجودہ حکومت ایک عجیب مخمصہ کا شکار ہے۔ اگر وہ 8 جنوری 2008 کے انتخابات کا انعقاد اپنے اعلان شدہ پروگرام کے مطابق کرتی ہے تو وہ ایک سنگ دل حکومت کہلائے گی۔ اور اگر انتخابات کو کسی حد تک ملتوی کیا گیا تو تمام دنیا اور حزبِ اختلاف بھی اس کو تنقید کا نشانہ بنائے گی۔ ہماری تاریخ کے اس سیاہ باب کے لکھے جانے کے موقع پر جہاں دنیا کے اہم ممالک کے رہنما اس پر شدید رنج و غم کا اظہار کررہے ہیں، یہ ایک دل چسپ معاملہ ہے کہ امریکی صدر یہ قبل از وقت بیان دے رہے ہیں کہ پاکستانی انتخابات کو ہرگز ملتوی نہ کیا جائے! اور اقوامِ متحدہ کی سیکوریٹی کونسل ایک نادر روزگار اجلاس کا اہتمام کررہی ہے، جس میں اس سانحہ کے حوالہِ سے پاکستانی استحکام کو یقینا نشانہ بنایا جانے کا امکان ہے۔ جہاں تک حکومت مخالف افراد اور پارٹیوں کا تعلّق ہے تو وہ اس سنگین موقع پر اس کے سیاسی فوائد سمیٹنے کے لیے ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا بھی اعلان کرہے ہیں، اور ساتھ ساتھ صدر پرویز مشرّف کو بھی اس دلدل میں گھسیٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستانی عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ مغربی طاقتیں جو بے نظیر اور پاکستان پیپلز پارٹی پر اپنے دائو لگائے ہوئے تھیں، اس وقت سخت گو مگو کی حالت میں ہیں۔ اور وہ اس وقت نئے سیاسی مہرے ڈھونڈنے کی تگ و دو میں لگ جائیں گی۔ کیوں کہ انہیں بہر حال بے نظیر کی موت کے بعد بھی اپنے ایجنڈے کو بڑھانے کے لیے کوئی ساتھی فریق درکار ہیں۔ بے نظیر کی اس بے وقت موت کے بعد بھٹّو خاندان کے ایک عرصہ سے جاری رہنے والے مالی اور جائیدادوں کے تنازعات اب ایک اور نیا رُخ اختیار کرلیں گے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خاندان کچھ وقت کے لیے سیاست سے کنارہ کشی ہی اختیار کرلے۔ تاہم ایسا کرنا وراثتی سیاست کے لیے مفید نہ ہوگا، کیونکہ کسی ایسی صورت میں غیرخاندانی سیاسی بڑے اس پر قبضہ جما سکتے ہیں۔ اس فہرست میں اعتزاز احسن، اور مخدوم امین فہیم جیسے ممکنہ رہنما شامل ہوسکتے ہیں۔ وہ تمام افراد جو اس سیاسی پارٹی میں صرف شخصی پوجا کی بناء پر شامل رہے، وہ سب اب اپنے آپ کو ایک دوراہے پر پائیں گے، جو پی پی پی میں اب ایک اصلی جمہوری اقدار کی بحالی، اور کسی ایک نئے خاندانی وارث کی گدّی نشینی کی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ جب تک بے نظیر زندہ رہیں، انہوں نے کسی اور اعلیٰ پایہ کے رہنما کو ابھرنے نہ دیا، اور نہ ہی پارٹی کے مستقبل کی رہنمائی کے بارے میں کوئی ایسی پالیسی بنائی یا چھوڑی جس کے بارے میں عوام کو علم ہو۔ چنانچہ، بے نظیربھٹو کے بعد پی پی پی کے لیے یہ ایک موقعہ ہے کہ وہ اب اپنی اندرونی سیاست کا رخ بھی جمہوریت کی جانب موڑ دے۔ اگر ایسا ہوا بھی تو اس کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا، تاکہ موجودہ غم زدہ اور نہایت ہی جذباتی فضاء میں ایک ٹھیرائو آجائے۔ مرتضیٰ بھٹّو مرحوم کی تعلیم یافتہ صاحبزادی فاطمہ بھٹّو سے کچھ امیّدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ مگر اب تک انہوں نے سیاست میں اپنی آمد کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ آصف زرداری، صنم بھٹو، مرتضٰی کی اہلیہ غنویٰ بھٹو، اور دیگر افراد کی جانب سے پارٹی کی کامیاب سرداری حاصل کرنے کے بھی امکانات مختلف وجوہ سے روشن نہیں۔ چونکہ اس وقت قومی سطح کا کوئی بھی پی پی پی کا رہنما سامنے نہیں آسکا ہے، چنانچہ اب پی پی پی میں علاقائی عنصر کے ابھر آنے اور اس کے کئی حصّوں میں بٹ جانے کے منفی امکانات بھی پائے جاتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو اپنے تمام تر متنازعہ کرداروں کے باوجود ایک بہادر خاتون کی حیثیت سے یاد رکھی جائیں گی۔ انہیں اپنی زندگی کے بارے میں لاحق خطرات کا نہ صرف بخوبی اندازہ تھا، بلکہ وہ 18 اکتوبر 2007 کو ایک خاک وخون کے دریا سے گزر بھی چکی تھیں۔ تاہم انہیں یہ یقین ِ واثق تھا کہ پاکستانی معاشرہ میں انہیں ایک خاتون رہنما کی حیثیت سے جو وقار اور مرتبہ حاصل ہے، اس کا پاس کیا جائے گا، اور کوئی بھی حملہ آور انہیں قتل کرنے کے بارے میں نہیں سوچے گا۔ تاہم ایک بدلے ہوئے اور کسی قدر انارکی کا شکارپاکستانی معاشرہ میں یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ اس بارے میں کئی پاکستانی رہنما انہیں تنبیہ کرتے رہے، اور بتاتے رہے کہ آج کا پاکستان 8 برس پہلے کا پاکستان نہیں، اور وہ تخریب کاروں کے اہداف کی فہرست میں شامل ہیں۔ نہ صرف بے نظیر بھٹونے اس پر کان نہیں دھرا، بلکہ وہ اپنے مربیّوں کے دبائو میں ایسے بیانات بھی جاری کرتی رہیں، جو ایک طاقت ور، با اثر اور مخصوص طبقہِ میں ان کی غیر مقبولیت کا سبب بنتے رہے۔ ان میں پاکستانی ایٹمی اثاثوں، اس کے بانیوں، اور جنگجوئوں کے خلاف اقدامات کے بارے میں ان کے خیالات شامل ہیں۔ وہ اپنا عوامی جلسوں اور ریلیوں کا اندازِ سیاست تبدیل کرکے، جدید میڈیا کی قوّتِ ابلاغ استعمال کرکے اس انجام سے بچ سکتی تھیں۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔

جہاں تک ایک مقبول سیاسی لیڈر کے قتل کے بعد اپنے غم و غصّہ کے پُر تشدّد اظہار کا تعلّق ہے، تو یہ ہماری ایک قومی اور معاشرتی کمزوری ہے کہ ہم خود کو ہی نقصان پہنچا کر اظہارِ غم کرتے ہیں۔ کیا راجیو گاندھی ، جان ایف کنیڈی جیسے چوٹی کے رہنمائوں کے قتل کے بعد ان کی قوم نے بھی اپنی قومی املاک کو تباہ،ا ور اپنے متصوّرہ مخالفین کو تشدّد کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ ہماری قوم کو اس نسبت سے ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ صرف کراچی میں نذرِ آتش کیے گئے ایک بہترین میڈیکل سنٹر کا اگر ذکر کردیا جائے تو اس نقصان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ نیشنل میڈیکل سنٹر ہسپتال، ڈیفنس، ہزاروں مریضوں کا علاج دیگر پرائیویٹ ہسپتالوں کے مقابلہِ میں ایک چوتھائی قیمت پر کردیتا تھا، خاص طور پر دل کے مریضوں کے کامیاب اور کم قیمت آپریشنوں کے لیے اس کی شہرت آسمانوں کو چھو رہی تھی۔ بدقسمتی سے یہ بھی تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بن گیا۔ تادمِ تحریر صرف کراچی میں 500 سے زائد معصوم شہریوں کی کاریں تباہ کی جاچکی ہیں، کئی ٹرینوں کو اندرونِ سندھ جلادیا گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں یہ ایک امرِ حیرت ہے کہ پی پی پی کے کسی بھی مرکزی رہنما کی جانب سے عوام کو پرُ امن رہنے کی کوئی بھی موء ثر اپیل سامنے نہیں آئی ہے۔ یہاں تک کہ جب مخدوم امین فہیم کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں صحافیوں کی جانب سے انہیں اشارہ دیا گیا کہ کیا ان کے پاس عوام کے لیے کوئی پیغام ہے! تو انہوں نے اس کا ایک گول مول سا جواب دے دیا۔ ایسے رہنمائوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ تاریخ ایک محدّب عدسہ اور خوردبین لے کر ان کے اس روّیہ اور کردار کا احتساب کرتی رہے گی۔

آخر میں اس سیاسی اور قومی جائزہ کے بعد، ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہوئے مرحومہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، اور ان کے تمام لواحقین ، ورثاء ، اہلِ خاندان ، پی پی پی کے تمام کارکنوں، اور پاکستانی عوام کو بھی صبر عطا فرمائے، اور اس بھیانک واقعہ کے ذمہ دار مجرمین کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچائے۔ آمین۔ اس ضمن میں حکومت کی جانب سے 3 روزہ سوگ کا اعلان، اور اس واقعہ کی مکمل تفتیش اور تحقیق کا عزم ایک خوش آئند امر ہے۔ یہ بھی بہتر ہوگا کہ فی الوقت انتخابات کو ملتوی کردیا جائے، اور محترمہ کے چہلم کے بعد کی کوئی مناسب تاریخ مقرر کی جائے،جس میں انتخابی مہم کے لیے بھی مزید وقت ہو، اور اس دوران بائیکاٹ پر تلی سیاسی جماعتیں بھی اپنے خیالات اور فیصلوں پر ٹھنڈے دل سے نظرِ ثانی کرلیں۔
٭
جمعہ، 28 دسمبر 2007
(c) 2007 Justuju Publishers - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Publishers, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license


Google Scholar