سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں
Justuju Tv جستجو ٹی وی
Monday, October 19, 2009
شہنشاہیت سے جمہوریت: چار صدیوں کادائری سفر
Saturday, November 08, 2008
From Uncle Tom's Cabin to White House انکل ٹام کے کیبن سے وہائٹ ہائوس تک
Thursday, September 04, 2008
جستجو: حالات حاضرہ ---- بے وقت کی راگنی

Tuesday, April 15, 2008
ایک ”عزیزستم گر“
![]() جستجو / حالاتِ حاضرہ ایک ”عزیزستم گر“ پاکستانی قومی اسمبلی کے جری درباں کے لیے تمغہ ءجراءت کی سفارش: ایسے درباں اگر مغلیہ دور میں ہوتے، تو آج بھی تمام ہندوستان مسلمانوں کے زیرِ نگیں ہوتا محمد بن قاسم ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز نامہرباں نہیں ہے، اگر مہرباں نہیں مرزا اسد اللہ خاں غالب، جو 27 دسمبر 1797ء کو پیدا ہوئے تھے (وفات 15 فروری 1869ئ)، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی نابغہ ءروزگار شخصیت تھے، جو اپنے زمانہ سے صدیوں آگے تھے۔ ان کا ’ایک ہزار آٹھ سودو‘ اشعار پر مبنی اردو کلام کا دیوان، اور ان کے نثری اردو مکتوبات اس خیال کے بارے میں بذاتِ خود روشن دلیلں ہیں۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں اس دنیا میں تشریف لانے والے اس عظیم شاعر کا دیوان قدردانوں کے لیے آج بھی ایک الہامی کتاب سا درجہ رکھتاہے۔ پیارے قارئین، اب آپ اس کا اندازہ صرف ایک اس امر سے لگا لیجیے کہ وہ پاکستان میں امریکی سفیرہ، این پیٹرسن اور امریکہ کے بارے میں مندرجہ بالا شعر میں کیا، کیا گنجِ معانی چھپاگئے تھے۔ امریکا، اور اس کے نمائندے پاکستان پر کون سا ظلم وستم ہے جو وہ ڈھانے پر تیّار نہیں۔۔۔ اور ہم ہیں کہ ان کی ہر ایک ادا پر واہ، واہ، اور داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اسی قبیل کا ایک تازہ ترین واقعہ بروز جمعہ، 11 اپریل 2008ئ کو اسلام آباد میں پیش آیا۔ پاکستانی اخبارات میں ایک چند سطری، سہمی سہمی سی خبرشائع ہوئی ہے کہ جب امریکی سفیرہ پاکستانی قومی اسمبلی پہنچیں تو ان سے پاکستانی دربانوں نے اسمبلی میں داخلہ کا کارڈ اور شناخت وغیرہ طلب کرلی۔ اس پر ہماری عزیزہ، امریکی سفیرہ، نے بہت برامنایا، اور سنا ہے کہ کئی واسطے دیئے اور ہاتھ بھی جوڑے۔ مگر وہ احمق دربان نہ مانے۔ اس پر امریکی سفیرہ کا ”گارڈ“ مشتعل ہوگیا۔ مشتعل ہونے کے بعد اس نے کیا کیا، اور اس کو کس طرح ’ٹھنڈا کیا گیا‘ اس بارے میں راوی خاموش ہے۔ اس اشتعال سے ہمارا نوزائیدہ ایوانِ قومی اسمبلی دہل اورکسی زلزلہ کے اثرات کی طرح لرز کر رہ گیا، اور امریکی سفیرہ ایک فاتحانہ انداز دل ربائی سے مارچ کرتی ہوئی اسمبلی میں گھس بیٹھیں۔ اب آپ اس واقعہ کی سنگینی کا اندازہ لگائیے۔ اگر ہمارے ’اعلیٰ‘ حکّام (جن کے بارے میں بھی فی الحال کوئی خبر نہیں)، جن کے سہم جانے پر امریکی سفیرہ کوداخل ہونے دیا گیا، ایسا نہ کرتے تو کیاہوتا! ان کے نظروں کے سامنے گوانٹانامو خلیج کے ’کیمپ ایکس رے‘ کے مناظر پھرنے لگے ہوں گے، اور پھر نہ جانے ہمارے اس احمق اور بہادر دربان کا کیا بنا ہوگا، جس نے یہ جراءت مندانہ کارنامہ سر انجام دیا۔ آپ کے ذہن میں بھی وہ ہی سوالات ابھر رہے ہوں گے، کہ آخر یہ مشتعل گارڈ تھا کون؟ کیا وہ ایک پاکستانی گارڈ ہے، یا پھر امریکی کمانڈو فورس کا ایک رکن۔ اور کیا وہ صرف اکیلا ہی مشتعل گارڈ تھا، یا پھر اس کے پیچھے پوری ایک پھنکارتی ہوئی فوجِ جرّار بھی موجود تھی۔ اور پھر بقول امریکیوں کے’ لاکھوںڈالر کا ایک سوال‘، کہ اس امریکی گارڈ کے نزدیک پاکستانیوں نے کون سی اشتعال انگیز حرکت کی تھی! کیا پاکستانی حاکمیت کے مقدس ترین ادارہ میں داخلہ کے وقت باقاعدہ اجازت نامہ، اور جسمانی چیکنگ کی ضرورت نہیں! امریکیوں نے تو پاکستانیوں کے دورہ ءامریکا کے متعدد مواقع پر پاکستانی ’اعلیٰ حکام‘ کی شرم و حیا کے بڑے بڑے امتحان لیے ہیں۔ یہاں تک کہ دو چار برس پہلے پاکستانی سفارت خانہ کو شرما حضوری یہ بیان بھی دینا پڑا تھا کہ یہ مکمّل معائنہ تو ہم نے خودہی کرایا تھا، بلکہ اس کے لیے اخراجات بھی ادا کیے تھے، یعنی یہ کلہاڑی تو ہم نے ہی خود خرید کر اپنے پاﺅں پر ماری تھی، وغیرہ ۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ ہم خود ہی اپنے ملک کے باسیوں پر بھیانک امریکی میزائل گرالیتے ہیں۔ اب جہاں تک اس امر کا تعلّق ہے کہ کیا امریکی سفیرہ کی جسمانی چیکنگ کے لیے کوئی نسائی دربان موجود تھی یانہیں، تو امریکی ثقافت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہمارے نزدیک تو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 11 ستمبر2001ءکے بعد امریکی شہروں اور ایئرپورٹوں پر کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جب کہ مسلمان اور پاکستانی خواتین کے وقار اور روایتوں کے خلاف امریکی مرد اہل کاروں نے ان کی مکمل جسمانی تلاشی لینے پر اصرار کیا، یہاں تک کہ ایک پاکستانی امریکن خاتون ایک سپر مارکیٹ میں اپنے ساتھ روا رکھے جانے والی بد سلوکی کے نتیجہ میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال بھی کرگئیں۔ گزشتہ دوبرسوں کے دوران ہم نے آپ کی طرح پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی وہ تصویر بھی دیکھی، جس میں اٹلی کے وزیرِ خارجہ یا وزیرِ دفاع پاکستانی وزارتِ خارجہ کے دورہ پر تشریف لائے تھے۔ وزارتِ خارجہ کے داخلی دروازہ پر ان کے ساتھ ایک شخص بڑی پُر رعونت انداز میں ایک بہت بڑی مشین گن اٹھائے ہوا تھا، جس قسم کی گن آپ نے ریمبو، اور ٹرمینیٹر جیسی فلموں میں دیکھی ہوں گی۔ ہم اس وقت یہ سوچتے ہی رہ گئے کہ اس دہشت ناک اسلحہ کی نمائش کی کیا ضرورت تھی، اور کیا اسی قسم کا روّیہ پاکستانی سفراءاور ان کا دیگر سفارتی عملہ اور وزراءکرام امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں کر سکتے ہیں؟ ہمارا تو خیال ہے کہ امریکیوں نے پاکستان میں ایک خاتون سفیرہ کا اہتمام ہی اسی لیے کیا ہے کہ وہ پاکستانیوں کی نفسیات اچھی طرح جانتے ہیں۔ جو رسائی اور پذیرائی پاکستانی کسی دل کش خاتون کو دیتے ہیں، وہ بھلا کسی مرد کو کیوں کر دی جاسکتی ہے۔ ہاں، دنیا میں جہاں، جہاں ’خوش باشوں‘ Gays کاراج ہواکرتا ہے، وہاں ان کی موءثر حکمتِ عملی دیگر بھی ہوسکتی ہے۔ کچھ ’حسن ِزن‘ سے کام لینے والے یہ کہتے اور اپنے جمال ِ خیال و حسنِ ظن کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کنڈولیزا رائس بھی اتنے برس واشنگٹن میں بڑی مردانگی سے یوں ہی کام نہیں دکھا گئیں ہیں، اوروہ ایک کامیاب خاتون حکمراں ثابت ہوئی ہیں۔ بس یہ ہے کہ بقول خود رائس کی خودنوشت کے ہمارے شوکت عزیز کی دال اوررائس نہیں گلے، اوروہ اپنی تمام تر خواہشات اورنیک تمنّاﺅں کے باوجود، انہیں اپنی عزیزہ کا درجہ دینے میں ناکام رہے، بالآخر ان کے تخت کا تختہ ہوگیا۔ بصورتِ دیگر وہ کم از کم اس وقت تک برسرِ اقتدار رہ سکتے تھے جب تک کہ2008 ءکے امریکی انتخابات کے نتیجہ میں ری پبلیکن پارٹی شکست کھا کر2009ءمیں اپنے گھروں کو نہ چلی جاتی۔ بہرحال، کچھ بھی ہو، ہم امریکی سفیرہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کی وضاحت کریں، اور پاکستانی قوم سے معذرت کریں۔ اور ہمارے’ شیر دل‘ پاکستانی ’اعلیٰ حکام‘ اور سیاستدان ہم عاجز و لاچار پاکستانیوں کو یہ بھی بتائیں کہ کیا امریکی سفیرہ ہمیشہ ہی اسی دہشت گردانہ انداز میںاپنے گارڈ اور آتشیں اسلحہ کے ساتھ ایوان میں داخل ہوجاتی ہیں، یا ان سے گارڈ اور اسلحہ باہر ہی رکھوالیا جاتا ہے۔ جہاں تک ان کے حسن وجمال اورپیارو محبّت کے اسلحہ جات کا تعلّق ہے، اس پر ہمیں تو قطعی اعتراض نہیں، کیا آپ کو ہے ! ا ور پیارے قارئین، ہم آپ کی خواہشات کو بھی مدّّ نظر رکھتے ہوئے یہ سفارش کرتے ہیں کہ اس دربان کو جس نے امریکیوں سے شناخت اور رسمی اجازت نامہ طلب کیا تھا، نہ صرف اس کے مناصب میں ترقیّ دی جائے ، بلکہ اس کے لیے ایک تمغہ ءجراءت کا بھی اعلان کیا جائے۔ اور اس کی تصویر جری پاکستانیوں کے ’ایوانِ شہرت‘ میں اسی طرح لگا دی جائے، جس طرح ہمارے جری جنرل اشفاق پرویز کیانی کی امریکی فوجی ایوانِ شہرت میں لگادی گئی ہے۔ ایسا کرنا امریکیوں کے غرور اور نخوّت کے بارے میں کم از کم اظہار ناپسندیدگی، اور پاکستان کے وقار میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ ہم یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ جب برّ صغیر ہندوستان میں انگریزوں نے تجارتی نمائندوں کے روپ میں پہلے ایوانِ مغلیہ دربار میں رسائی، اور بعدمیں تمام تر ہندوستان کی حاکمیت سلب کرلی تھی، اگر اس زمانہ میں بھی کوتاہ بیں حکمرانوں کے ساتھ ایسے جری پاسباں ہوتے تو ہماری تاریخ ہی کچھ اور ہوتی، اورشاید آج بھی تمام ہندوستان مسلمانوں کے زیرِ نگیں ہوتا! چلتے چلتے، مرزا غالب کا ایک اور حسبِ حال شعر آپ کی خاطر امریکی سفیرہ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں: جو آﺅں سامنے ان کے، تو مرحبا نہ کہیں جو جاﺅں واں سے کہیں کو، تو خیرباد نہیں ٭ جستجو پبلشرز اور ریسرچرز ہفتہ، ۲۱ اپریل ۸۰۰۲ئ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں دیکھیے اب ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں (c)2008 A syndicated essay by Justuju Research and Publishing - All Rights Reserved The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Research and Publishing Agency, hereby grant a permission for and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license non commercial agreement. This piece must be published "as is" to qualify for this license |
Monday, February 18, 2008
پاکستانی انتخابات ۲۰۰۸ : نادرا کس مرض کی دوا ہے؟
ہمیں یقین ہے کہ آپ آج صبح ہی سے تیاری کرکے، اپنا ووٹ ڈالنے گئے ہوں گے۔ اور اگر آپ خوش قسمت ہیں تو آپ کو اپنا نام بھی ووٹر لسٹ میں مل گیا ہوگا، اور مزید خوش قسمتی سے اگر آپ فیض یاب ہوسکے ہوں گے، تو آپ کے پولنگ اسٹیشن پر عملہ، اور بیلٹ بکس بھی موجود ہوں گے۔ تاہم، ہم جیسے بے شمار ووٹر کسی شمار و قطار میں نہیں ۔۔۔ شکریہ اے نادرا تیرا ۔۔۔۔ آئیے دیکھیں ایسا کیوں ہے ۔۔۔
ایک جاحرف وفا لکھا تھا، وہ بھی مٹ گیا
ظاہرا کاغذ تیرے خط کا غلط بردار ہے
(مرزا غالب)
اس دوران پاکستان ٹیلی ویژن کراچی کے نمائندہ مطلوب سید بھی کیمرہ لیے آن پہنچے۔ ہم آگے بڑھے، اور ان کو اپنا شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ حکومتی چینل کی حیثیت سے وہ ہمارا احتجاج ریکارڈ کریں کہ ہمارا نام ووٹر لسٹ میں کیوں موجود نہیں۔ مگر انہوں نے اس شکایت کو ریکارڈ کرنے سے معذرت کرلی۔ ہمارے اصرار پروہ اپنا دفاع کرتے ہوئے کہنے لگے اس وقت میں مختلف مشن پر ہوں، اور آپ کا معاملہ اس وقت الیکشن سے تعلق نہیں رکھتا ۔۔۔ ان کے اس جواب پر ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے، اور اپنا شناختی کارڈ واپس جیب کی حفاظت کے سپرد کردیا۔ اس تحریر کے دوران ہی ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ ہمارے فرشت صفت درویش صوفی، زندہ پیرانسانیت، جناب عبدالستار ایدھی کو بھی فہرست میں نام کے عدم اندراج کی بناء پرمتعلقہ پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔۔ اس کے پیش نظر ہماری کیا حیثیت ہے؟
اگر کسی ووٹر کا عدم اندراج الیکشن سے متعلق نہیں تو پھر اسے کیا نام دیا جائے۔ پی ٹی وی کی عقل پر ماتم کرنے کا دل چاہتا ہے۔ آپ سوچیں گے کہ پی ٹی وی کا نمائندہ کس مشن پر تھا؟ اس نے جلدی جلدی چند منٹوں میں پولنگ بوتھ پر موجود پولیس اہل کاروں کی وڈیو بنائی کہ یہ دیکھیں پولنگ اسٹیشن پر مناسب سیکیوریٹی انتظام ہے۔ اور لائن میں لگے ہوئے کچھ افراد سے بات چیت کی کہ وہ کس عزم اور مقصد سے ووٹنگ کے لیے آئے ہیں۔ پی ٹی وی کا مقصد الیکشن نظام اور انتظامات کی کامیابی کو سامنے لانا تھا، اور ہماری شکایت اس معاملہ میں راہ کا بتھر ثابت ہورہی تھی۔
ہمارے عزیز ہم وطنو، اس سمع خراشی اور آپ کا اتنا وقت لینے کا مقصد یہ ہے، کہ ہم آپ کی توجہ اس اہم نکتہ کی جانب دلائیں کہ ووٹروں کی فہرست کے لئے حکومت پاکستان نے نیشنل ڈیٹابیس اتھارٹی، المعروف باسم "نادرا" صاحبہ، سے مدد کیوں نہ لی؟ اور آخر کیوں رجسٹرڈ پاکستانیوں کو صرف اس لیے ووٹنگ کے حق سے محروم کردیا کہ ان کے نام و پتے دستی اور روایتی رجسٹریشن کے طریقوں سے ریکارڈ ہونے سے رہ گئے؟
چنانچہ کیا حکام اعلیِ اور الیکشن کمیشن کے کرتا دھرتا اس بارے میں کوئی قابل قبول جواب دے سکتے ہیں ۔۔۔ آخر نادرا کے ریکارڈ کا فائدہ ہی کیا ہے اگر پاکستانی عوام اس کی مدد سے اپنےحکمرانوں کو منتخب نہیں کرسکتے۔ کیا یہ صرف خود کش بمباروں کی بعد از مرگ شناخت کی کوششوں کے لیے ہے۔ آپ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ کیا ہم نے اپنے ووٹوں کے اندراج کے لیے کوئی مناسب اقدامات کیے تھے۔ ہم نے اپنے رجسٹریشن فارم بھر کر جمع کردیے تھے، اور اس کے بعد معاملہ کو نظام کے سپرد کردیا تھا۔ چنانچہ نظام نے اپنی مرضی سے ہی کام کیا، ہماری مرضی سے نہیں۔ ساتھ، ساتھ ہم نے مقامی سیاسی کارکنوں پر بھی بھروسہ کیا، جو مفید ثابت نہ ہوسکا۔ آخری تکیہ نادرا کا ریکارڈ اور ہمارا فخریہ شناختی کارڈ تھا، مگر جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے۔ اورلوٹ کر بدھو گھر کوآئے۔ چنانچہ ہمارے عزیز ہم وطن یہ جان لیں کہ ہم اپنی بریت کا اعلان کررہے ہیں کہ جو بھی پارٹی جیت کر اتھل پتھل کرے گی، اس کو گڑ بڑ کی اجازت ہم نے ہرگز نہیں دی۔ اور اگر اس نے اچھے کام کیےتو اس کا سہرا صرف اور صرف آپ کے اور ہمارے سر ہوگا۔ یہاں ایک تجویز اور نکتہ مزید ذہن میں ابھرتا ہے کہ ہم اورہماری طرح اور بے شمار پاکستانی جو اپنا ووٹ ڈالنے گئے اور فہرستوں میں نام نہ مل سکا، ان کے شناختی کارڈ کے نمبر تو کم از کم علیحدہ طور پر ریکارڈ کرلیے جاتے، تاکہ نہ صرف یہ اعداد و شمار جمع ہوسکتے بلکہ اسی وقت ان کے ووٹوں کا آئندہ کے لیے اندراج بھی ہوجاتا۔
کیا خیال ہے آپ کا؟
Wednesday, August 25, 2004
Confessions of a TOURRORIST in USA !
Confessions of a “Tourrorist” in USA”
How my indiscriminate and careless shootings all around the US cities went un-noticed and I managed to make a clean escape back home!
Justuju / The Quest
Riyadh, Saturday, August 21, 2004
By Hashim Syed Mohammad Bin Qasim
|
I often talk about the current American mindset. Since the 9/11 tragedies, and the establishment of a Department of Homeland Security, this department has been taking its job so “seriously”, and getting far from realities, that at times it is becoming a laughingstock even in the US congress.
In addition to hundreds of travelers who have reported troubles in US domestic flights, recently at least two Democratic Party Representatives, Edward Kennedy from Massachusetts, and John Lewis, from Georgia, have been subjected to various types of silly questionings and humiliation at the airports. Apparently their names also appear on a nationwide air travelers watch-list. Some suggested in a humorous mood, that since the Kennedy Family is from Ireland, he could have been mistaken for an Irish Terrorist. It follows, then, that the Clintons (Irish roots) would also be on a similar watch-list. If the flamboyant ex President is bodily searched somewhere, at least Monika Lewinsky would feel a bit smug and satisfied. Representative John Lewis finally got some reprieve from this dumb listing database by adding his middle name initial R. So, the system is still under experimentation, and is not as reliable and intelligent as the designers thought it to be.
But, as so far only the Democrats are being stopped from traveling, it could be a part of the ruling GOP (Republicans) campaigners naughty schemes. They are also trying to belittle the Democratic Presidential Candidate, John Kerry, about his Vietnam war decorations and medals. Since John Kerry does not have access to Air force One yet, he is also subject to similar treatment from the Transport Security Administration (DOT) and the Homeland Security, as the senior and very well known and respected politician Edward Kennedy. Only that, being a valiant fighter, John Kerry could fight back.
During my trip to USA last year I carried on highly risky and indiscriminate shootings all over the USA. Luckily no one was fatally shot. And many of the people and sights captured by me finally managed to escape my clutches, as the digital camera got ruined on a rainy day in New York City. But still, many beautiful memories remained, that I carried back to Pakistan, and to Saudi Arabia.
However, only when a video maniac Pakistani was arrested by a vigilante type Policeman in Charlotte recently, I realized my foolhardy and the scale of the risks that I took, as a fearless Pakistani camera-slinger.
As I prepared to leave from Las Vegas to San Francisco, I helplessly looked at the professionally valuable Conference Materials, that I so much needed to take back to Saudi Arabia with me. With an overflowing suitcase, and my hand trolley refusing to budge any further, I put some of it in loose shopping bags, and rushed to the airport, looking more like a comic character, close to the Pink Panther.
Unaware of the check-in procedures at the airport, I tried to handover my luggage to an airport passenger assistance worker available at the roadside near the entrance. He was helping the arriving people, with their luggage. This black American, he amusingly looked at me, and decided that I am a suspect (A matter of using an “equal opportunity” rights to become a HERO, by “referring” a terrorist to the authorities ! ). He asked for my passport, and personally handed it over, with a sinister whisper, to the Ticket agents at the airline counter. My passport disappeared for some checks, now usual for most of the Asian and Middle Eastern travelers, and I had to wait for sometime before it re-appeared and I was allowed to travel. When I complained, the agents said, “Feel free to lodge your complaint. (We cannot care less!) Many are filed daily!” There was such a sense of no remorse or apology, that I felt a bit sad from that moment until now, when I learned about the predicaments of the US Senators (albeit Democrats so far!).
Then, I read about the suspicions thrusted upon that Poor Pakistani with a video camera, running loose all over the beautiful scenic sights of USA. My own adventures could be very close to that (I do hope, though, that he has no connections with any un-wanted activities), and could have easily turned in to serious misadventures.
There I am, under the Sears Tower, Chicago, a technically artful picture taken by myself, with the Sears Tower growing right out of my head or something like that. Then I am there, outside the Oprah Studio, the Holography Museum, near the competing Schooners anchored at the Chicago lake shores. Wandering in the Times Square, waiting outside the Canadian Embassy to get my visa application rejected. Resting in the little corners of busy airports, on board steaming ferries, riding the Long Island NY railroad, taking a peek at Long Island from the plane’s window. Then I am there in the Yosemite valley, shooting all over the mountains. Pretty faces, smiling and loving people. Everything has been shot, many times over.
Then, when I return to New York, a sudden rain burst damages my digital camera. So, the USA is saved! One could say …. Many pictures are simply wiped off.
When the US-UK aggression over Iraq started in 2003, the words like “Coalition of the Willing”, made me coin a new term: MAD COWS. Devastatingly Motivated Coalition of the Willing War Mongers. Now, once a carefree lot, the Asian tourists in USA face a high risk of being mistaken for a terrorist. So, may be a new term should emerge: “The Tourrorist”. An innocent person, who does not heed the US Homeland Security concerns, and keeps on merrily hopping around, shooting all over, using his lethal digital camera. Well, it can be lethal for the Tourrorist, if he is caught red handed, tortured well, and imprisoned long enough.
Mr. Hashim Syed Mohammad bin Qasim, based in Riyadh, is a Global Analyst, Writer, Researcher, Sociologist, and an Information and Communication Technology Consultant. In Riyadh, he also represents Online International News Network (OINN), Islamabad. He can be reached via email at hashim.syed@paktribune.com, or at hashims@gmail.com