سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Showing posts with label Mohammad bin Qasim. Show all posts
Showing posts with label Mohammad bin Qasim. Show all posts

Monday, October 19, 2009

شہنشاہیت سے جمہوریت: چار صدیوں کادائری سفر





جستجو / حالاتِ حاضرہ 
 حکمت اور دانش سے لبریز تحریریں


شہنشاہیت سے جمہوریت: چار صدیوں کادائری سفر
محمد بن قاسم

?ui=2&view=att&th=1246aa9996da81a6&attid=0.1&disp=attd&realattid=ii_1246aa9996da81a6&zw

خود اپنے دل کے اندر اک جہاں موجود پاتا ہوں
اُسی کی سلطنت اچھّی، اُسی پر اختیار اچھّا
مری روزی نہ کی قُرق اُس نے میری سرکشی پر بھی
خداوندانِ لندن سے مرا پروردگار اچھّا
(مولانا ظفر علی خان، 1873-1956)

برس تھا 1614 ء ، اور برطانوی تاجر مشرقی مصالحہ جات کی پرکشش تجارتی درآمدات کے لیے ولندیزیوں اورپرتگالیوں سے مسابقت کررہے تھے، اور دوسری جانب ان کی فرانس سے بھی ان علاقوں پر تسلط کی جنگ جاری تھی۔ اسی دوران دیگر یورپی ممالک سے اپنی مسابقت بڑھانے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا ایک سفیر ہند بھیجنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ اس وقت کے مغل شہنشاہ نور الدین سلیم جہانگیر ابن جلال الدین اکبر کے دربار میں رسائی حاصل کرکے ہندوستانی سرزمین پر اپنے تجارتی دفاتر قائم اور سرگرمیاں شروع کرسکے۔ چند برس پہلے سن 1600 ءمیں ملکہ الزبیتھ اوّل نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کا شاہی فرمان جاری کیا تھا۔ جلد ہی یہ ادارہ ایک بڑی سماجی، معاشی، اور فوجی اہمیت بھی اختیار کرتا گیا۔

مغل شہنشاہیت کے دور میں ہندوستانیوں کی جانب سے ہمیں کسی بحری قوت اور دریافتی جدوجہد کے سفروں کی کہانیاں نہیں ملتیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام ہندوستانی حکمرانوں کے دور میں ایسے سمندر پار تاجر مہمانوں کی آمد ایک دہشت آمیزانوکھے اور دل چسپ موقع کی حیثیت رکھتی ہوگی۔ چنانچہ ایسے حکمران اور ان کے مشیران اور وزراء وسیع و عریض تجارتی اور سفارتی دفاتر کے قیام اور تعمیر میں مضمر خرابیوں کا ادراک نہ کرپائے، یا رومانوی مصروفیات، شراب و کباب و شباب، اور تحفہ تحائف کے نشہ نے ان کی مستقبل بینی اور تجزیاتی صلاحیّتوں کو سلب کرلیا۔ چنانچہ 1614ءمیں مغل بادشاہ جہانگیر کی جانب سے برطانوی مندوب سر تھامس رووے ، ایسٹ انڈیا کمپنی ، کو اجازتی فرمان جاری کرنا ہی وہ سنگ بنیاد ثابت ہوا، جس کے باعث یہ تمام وسیع و عریض علاقہ نہ صرف ایک میدانِ جنگ و جدل بنا رہا، بلکہ آخر کار انیسویں صدی میں مغل سلطنت کے خاتمہ اور مسلمانوں کی ایک طویل عرصہ تک تباہی وبربادی اور سماجی حیثیت کے تنزّل پر منتج ہوا۔ اگر آج برصغیر ( جسے حکیم سعید رحمتہ اللہ علیہ ”برکبیر“ قرار دیتے تھے) میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ہندو اکثریت کے زیرِ تسلّط ہے، تو وہ بھی ان ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔

تاریخ کے یہ وہ اسباق ہیں جو حکمرانی کرنے والے طبقات کو یاد رکھنے چاہئیں، کہ کس طرح بعض بے ضرر نظر آنے والے اقدامات دور رس اثرات رکھتے ہیں، اور انہیں قابو میں رکھنے کے لیے کن اقدامات اور احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے، ورنہ ہماری قوم تاریخ کے ایک دائری سفر میں ہی سرگرداں رہے گی، اور کسی بھی نئی منزل کو نہ پاسکے گی۔ چنانچہ، اس پس منظر میں موجودہ بھارت کو دوست قرار دینے والے ، اور ریوڑیوں جیسی امداد پر بغلیں بجا بجا کر خوشیاں منانے والا پاکستانی امراءکا طبقہ صریح نادانیاں کرتا نظر آتا ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ اس امر کا ادراک کرچکا ہے کہ پنج سالہ امریکی امداد کا حالیہ قانون، جسے اوباما بم کہنا درست ہوگا، اور جسے اس کے تجویز کنندگان ارکان امریکی مقننہ بائیڈن، کیری، اور لوگر صاحبان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، عام پاکستانیوں کے لیے ایک ناقابل فہم اور ناقابل قبول امریکی قانون ہے۔ اس میں مندرج شرائط کی شقیں توہین آمیز، تضحیکی، غیر عملی، الزامی، اور ایک ڈھکا چھپا امریکی ایجنڈا بھی رکھتی ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جدید دور میں کسی بھی قوم کو اپنی معاشی اور تکنیکی ترقی کے لیے طویل عرصہ کے منصوبے بنانے ہوتے ہیں، جن کی مدت پانچ برس سے سو برس تک کی ہوسکتی ہے۔ یہ ایک باقاعدہ منیجمنٹ سائنس ہے، جسے مستقبلیات کا نام دیا جاتا ہے۔ امریکہ میں اس بارے میں ایک بین الاقوامی سوسائٹی قائم ہے، جس کا نام ورلڈ فیوچر سوسائٹی ہے۔ اس کے بانی کی ایک مشہور کتاب مستقبلیات ے نام سے ہے۔ سن 2004ءمیں راقم الحروف نے اس کتاب کا ایک نسخہ اس وقت کے وزیر اعظم ، جناب شوکت عزیز، کو پیش کیا تھا۔ پاکستان میں مستقبلیات کے موضوع کو اردو ادب کے عظیم دانش ور اور ایک زندہ جاوید مثالی پاکستانی جناب جمیل الدین عالی نے متعارف کرایا تھا۔ مستقبلیات کے تجزیے کس طرح کیے جاتے ہیں، اور ان کی کیا اہمیت ہے، ہم کوشش کریں گے کہ مستقبل قریب میں آپ کو اس بارے میں کچھ تفصیل سے آگاہ کریں۔

حالیہ امریکی امداد کے قانون کے بارے میں میڈیا میں خاصی بحث ہوچکی ہے، اور اسے تفصیل سے دہرانا شاید کسی حد تک غیر ضروری ہے۔ تاہم، آپ نے یہ نوٹ کیا ہو گا، کہ پاکستان میں امریکی سفیرہ این پیٹرسن پاکستانیوں کی کھلے عام تنقید سے خاصی پریشان ہوئیں، اور انہوں نے ایک غیر معمولی انٹرویو ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل کے کامران شاہد کو دیا۔ اس میں انہوں نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے اس میں موجود فوج سے متعلق شقوں پر ندامت بھی ظاہر کی، اور وہ فوراً امریکہ بھی روانہ ہوگئیں۔ تاہم امریکی مقننہ کے طریقہ کار کے مطابق وہ موجودہ صورتِ حال میں اسے تبدیل نہیں کراسکتی تھیں۔ تاہم انہوں نے پاکستانیوں کے آنسو پونچھنے کے لیے وضاحتی ٹشو پیپر رومال کا ضرور انتظام کرادیا۔ جسے استعمال کے بعد ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔ امریکی ارکان پارلیمنٹ وغیرہ اس قانون کی منظوری کے لیے بہت فعال اور متحرک نظر آئے۔ یہ ایک غیر معمولی امر ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس مالی امداد سے امریکہ کو خود اپنا کچھ ایسا خرچ پاکستان میں کرنا ہے جس کے لیے اس قانون کی فوری منظوری ان کے لیے اشد ضروری تھی۔ دوسری جانب پاکستانی طبقہءامراء بھی اس سے کچھ ذاتی فوائد حاصل کرسکتا ہے، ورنہ بصورتِ دیگر وہ ان ریوڑیوں کے ملنے پر مٹھائیاں کیوں کھاتے ، اور  اس پر دستخط ہونے پر ایوان ِ صدر میں دھمال کیوں ڈالتے۔

پاکستانی عوام کے لیے حیران کن امر یہ ہے کہ آخر پاکستانی ایوانِ نمائندگان، امراءو رﺅسا، اور بیوروکریسی نے صرف ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ مبہم، ناقابل اعتبار، اور بے قابو امداد پر کیوں بھروسہ کیا، اور اس کے متبادل کیوں نہ تلاش کیے! مالی امور پر نظر رکھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ اس امداد کے پانچ سالہ دور میں ہر برس ڈیڑھ ارب ڈالر کی حقیقی قدر شرح افراط زر کے حساب سے گھٹتی جائے گی، اور شاید پانچویں برس میں یہ قدر 20 فی صد بھی نہ رہ جائے۔ دوسری جانب اس مدد کے انتظامی اخراجات بھی اس میں سے منہا کیے جائیں گے، چنانچہ پاکستانیوں کو چٹنی بھربھی اصل مدد نہ ملے گی۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس قانون میں بے شمار ایسی شقیں موجود ہیں جن کی بنیاد پر یہ مالی مدد کسی وقت بھی بند کی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب اس مدد کی نگرانی اور درست استعمال کے بہانہِ امریکی اثر ونفوذ ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی بڑھ جائے گا۔ اس بہانہِ پاکستان کے نہایت ہی حسّاس علاقوں میں بڑی بڑی جائیدادیں خریدی اور وسیع کی جارہی ہیں۔ دوسری جانب ان جائیدادوں کی حفاظت اور دفاع کے لیے بھی کچھ ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جو نہ صرف پاکستانیوں بلکہ پاکستان کے مخلص دوستوں، جیسے چین، کو بھی کھٹک رہے ہیں۔ پاکستان کے اعلیٰ ترین حکام کے حالیہ دورہءامریکہ میں صوبہ سرحد کے کلیدی سیاستدانوں کی خصوصی مہمان نوازی بھی ان ہی اقدامات میں سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ واضح رہے کہ پشاور کا پنج ستاری ہوٹیل امریکہ خرید رہا ہے۔ اس سے پاکستانی سالمیت پر جو مُضر اثرات پڑیں گے وہ تو اپنی جگہ ہیں، مگر اس سے پاکستانی ہوٹیل اور سیاحتی صنعت کو بھی ایک دھچکا پہنچے گا۔ اس قسم کے ہوٹیل تعمیر کرنا معمولی کام نہیں، اور اس کے متبادل عمارت اور سہولیات کو بنانے میں کم و بیش پانچ سال تو لگ ہی جائیں گے۔ دوسری جانب اسلام آباد میں یکے بعد دیگرے ایسے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں جہاں مسلح غیر ملکیوں نے پاکستانیوں کی آزادی اور وقار کو شارع عام پر ہی چیلنج کیا ہے، اور پاکستانیوں کو ہراساں کیا ہے۔ جب کہ عمومی طور پر پاکستانی میڈیا اس ضمن میں خوف زدہ اور خاموش ہے، اور ایسے واقعات کو کھل کر منظرِ عام پر نہیں لارہا ہے۔ ہمیں تو یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اسلام آباد میں پاکستانی 111 بریگیڈ کی کسی بھی ممکنہ کارروائی کی فوری مزاحمت کرنے کی استعداد کا انتظام کرنے میں مصروف ہے، جب کہ کسی بھی ایسی طاقت کو پاکستانی طاقتوں کے دیگر مراکز کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کیری / لوگر بل کے نام سے معروف اس امریکی قانون نے پاکستان کے کلیدی اداروں کے درمیان دراڑیں ڈالنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ اس میں شامل فوج اور پاکستانی ایٹمی پروگرام کے بارے میں شرائط، اور دہشت گردی کے مُبیّنہ مراکز کے ناموں کاذکر خاص طور پر ایسے قابل مُذمّت امور میں شامل ہے۔ امریکی قانون سازوں نے بڑی نخوت اور غرورو تکبّر سے کہا ہے کہ امریکی کانگریس کسی کو بھی جواب دہ نہیں، اور وہ اس قانون میں پاکستانی مرضی سے کوئی تبدیلیاں نہیں کریں گے۔ چنانچہ اب پاکستانی ایوانِ نمائندگان پر بھی یہ قومی فرض عائد ہوگیا ہے کہ وہ ایک فوری پاکستانی قانون بنائے جس میں اس قسم کے تضحیک آمیزغیر ملکی قوانین کو قبول نہ کرنے کی شقیں ہوں، اور اس معمولی اور مبہم بے قابو امداد کو رد کردیا جائے، اور خاص طور پر کسی بھی ایسی مالی مدد کو قبول نہ کیا جائے جو پاکستانی اداروں کے ذریعہ نہ دی جارہی ہو، اور جس میں غیرملکی دخل اندازی ہو۔ ہم یہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ پاکستانی صوبہ پرستی، لسانیت، اور قوم پرستی کے طوفانوں میں ابھی تک حقیقی پاکستانی یک جہتی کی اصل زنجیر فوجی ادارہ ہی ہے۔ اگرچہ مثالی طور پر اس ادارہ کو سیاسی حکومت کی ہدایات بلا چوں و چرا مان لینی چاہیے،  تاہم ابھی تک ایک مثالی اور اہل اور دور اندیش جمہوری حکومت کام کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اسی وجہ سے جب پاکستانی فوج کی جانب سے اہم تجاویز نہیں مانی گئیں، اور ایوانِ نمائندگان بھی غفلت کی نیند میں رہا، تو انہیں اپنے خیالات کا کھل کر عوام کے سامنے اظہار کرنا پڑا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی دیگر افواج بھی عوامی بیانات دیتی رہتی ہیں، بلکہ ان کے اہم اہل کار ٹی وی پر آکر اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک اور اہم واقعہ مارچ 2009ءمیں پیش آچکا ہے، جب کہ پاکستانی فوج کو عدلیہ کی بحالی میں اپنا وہ کردار ادا کرنا پڑا جس پر حکومت ہچر مچر کررہی تھی، اور ایک عوامی سیلاب دارالحکومت کو ڈبونے کے لیے بڑھ رہا تھا۔ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر نیٹو اور امریکی افواج غیر دوستانہ اقدامات کررہی ہیں، مثلاً چمن کے نزدیک بلا انتباہ دھماکہ خیز مشقیں، اور ایک ایسے وقت میں افغانی سرحدی چوکیوں کو خالی کردینا جب کہ پاکستانی افواج جنوبی وزیرستان میں کارروائی میں مصروف ہیں، اور اس سرحد پر آمد ورفت کو روکنا ضروری ہے۔ مشرقی سرحدوں پر بھارت اپنی فضائیہ کو کسی بھی حیران کن کارروائی کے لیے تیار کررہا ہے، اور سمندری سرحدوں پر پاکستانی ماہی گیری کی صنعت کو تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ پاکستانی آبی وسائل پر کنٹرول، اور کشمیر پر عدم پیش رفت اپنی جگہ پر سنجیدہ مسائل ہیں۔ عقل و دانش ان حالات میں یہ تقاضہ کرتی ہے کہ پاکستان امریکہ کو اپنا دوست سمجھنا ترک کردے، اور اس سے اپنے تعلّقات صرف اور صرف تجارتی بنیادوں پر ہی رکھے۔

ایمل کانسی اور رمزی یوسف جیسے ملزمان کو جب پاکستانیوں نے امریکہ کے حوالے کیا تھا، تو ایک امریکی نمائندہ نے واشگاف الفاظ میں اس وقت یہ کہا تھا کہ پاکستانی تو پیسے کے لیے اپنی ماﺅں کو بھی بیچنے پر تیّار ہوجاتے ہیں (نعوذ باللہ)۔ اب اس جمہوری دور میں پاکستانی وقار کا سودا کرنے والے غیرملکی قوانین اور بیانات کو رد کرنا ضروری اور قانونی طور پر آسان ہے۔ چنانچہ نہ صرف اس معمولی مالی مدد کو رد کردیا جائے، بلکہ اس کے متبادل اقدامات اور ذرائع کو دریافت کیا جائے۔ ملکی وسائل پر انحصار، اور خود انحصاری، اور خود اعتمادی حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے، جس کے لیے ہمیں با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جنا ح کی عطا کردہ بنیادی قومی اقدار، اتحاد، یقین محکم، اور تنظیم کو ازسرنو حیاتِ تازہ سے ہمکنار کرنا ہوگا۔ 

 پیارے قارئین ، پس چہ باید کرد؟ اس صورت میں مندرجہ ذیل اقدامات سے کیری/لوگر قانون جیسی امداد سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے:

1
فوری طور پروفاقی زرعی انکم ٹیکس عائد کیا جائے، اور زرعی پیداوار کی مقامی قیمتوں پر اس کا اثر نہ ہونے دیا جائے۔ واضح رہے کہ اس ٹیکس کی عدم موجودگی سے معاشرہ میں کالا دھن خوب پھل پھول رہا ہے۔ مزید زرعی اصلاحات کی جائیں، مثلاً زیرِ کاشت رقبہ، فصلیں، اور فی ایکڑ رقبہ کی پیداوار کو معیاری سطح پر لایا جائے

2
جائیدادوں کی خرید و فروخت پر اور شیئر بازار پر کیپیٹل گین ٹیکس لگایا جائے

3
عمومی ٹیکس چوروں کو پکڑا جائے ، اور قید کی سزا بھی عائد کی جائے تاکہ چوروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے

4
غیرممالک میں مقیم پاکبانوں سے خصوصی مہم کے ذریعہ پیسے پاکستان منگوائے جائیں، اور خاص حد تک رقوم بھیجنے والوں کو اس ضمن میں سرٹیفیکیٹ جاری کیے جائیں، جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو

5
تمام پاکستانی سیاستدان اپنا بیرون ملک پیسہ پاکستان منتقل کریں، یا بصورت دیگر وہ سیاست ترک کردیں

6
تمام پاکستانی صنعتکار اپنا بیرون ملک پیسہ پاکستان منتقل کریں۔ ایسی کئی پیشکشوں کا اعلان ہوچکا ہے، ان کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کی جائے

7
غیر ضروری پر تعیش اشیاءکی درآمد فوری طور پر بند کی جائے، مثلاً میک اپ کا سامان

8
برج فنانسنگ کے لیے فی الحال آئی ایم ایف وغیرہ سے کم سے کم مدد لے لی جائے

9
صرف پڑھے لکھے، اور قابل وزراءکا تعین کیا جائے، اور شفاف اور گڈ گورننس کے منیجمنٹ اصولوں پر عمل کیا جائے، ہر مالی معاملہ پر اخراجات اور فوائد  کی سمری بنائی جائے اور عوام کے سامنے پیش کی جائے

10
عدل و انصاف کو عام اور یقینی بنایا جائے، اور اس عمل میں سرعت لائی جائے

11
پاکستانی برآمدی تجارت کے حجم کو بڑھایا جائے، اور غیرروایتی اشیاء، مثلاً پھل وغیرہ کی کاشت میں اضافہ، اور برآمدات کی کوششیں کی جائیں

12
حکومتی اخراجات اور پھیلاﺅ میں کمی کی جائے، اور سالانہ بجٹ میں کسی بھی ناقابل اعتبار اور ناقابل بھروسہ غیرملکی مدد کو شامل نہ کیا جائے، غذائی اشیاءسے منافع خوری کے رجحان پر قابو پایا جائے


پیارے قارئین یہاں ہم نے تمام ممکنہ متبادل اور اختیارات کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اس ضمن میں آپ بھی اپنا کردار ادا کریں، اور اپنی تجاویز پیش کریں۔ یہ نشست طویل ہورہی ہے، اور اب آپ اس موضوع کی اہمیت کے باوجود بور ہوتے نظر آرہے ہیں، چنانچہ بقول شخصے، یار زندہ صحبت باقی۔ انشااللہ پھر جلد ہی ملاقات ہوگی۔ تاہم جاتے  جاتے، مفکر اسلام، حکیم الامت علامہ اقبال کا یہ شعر دہرانے کا موقع ہے

خودی کو کر بُلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
(علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ1877-1938)

 ٭
 پیر، 19 اکتوبر2009 
حکمت و دانش کو پوشیدہ رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی خزانہ کوتاریکیوں میں چھپادینا ۔۔۔ چینی کہاوت
(c) 2009 Justuju Media - All Rights Reserved

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں

The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Media, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" non commercial universal license





HASHIM SYED MOHAMMAD BIN QASIM
Justuju Media

Researcher, Writer, Publisher, Sociologist, ICT and O&D Consultant
Current Affairs Analyst, Radio Islam International, Johannesberg, South Africa
Contributing Editor: Alqamar.org, Urdupoint.Com



Saturday, November 08, 2008

From Uncle Tom's Cabin to White House انکل ٹام کے کیبن سے وہائٹ ہائوس تک









جستجو / حالاتِ حاضرہ
سیاسی، سماجی،ادبی، حکمت و دانش آمیز، طنزومزاح سے بھرپور دل چسپ تحریریں


انکل ٹام کے کیبن سے وہائٹ ہاﺅئوس تک
محمد بن قاسم
email: justujumedia@gmail.com


دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

(مرزاغالب)

یورپ میں چرچ کی، بحیثیت ایک ریاستی مقتدر ادارہ، مذہبی بالادستی اورعیسائی طالبان کے مظالم اور تشدد پسندی سے تنگ آئے مظلوم اور تنگ دست افراد 17ویں صدی میں اطالوی نژاد پرتگالی وہسپانوی مہم جو کرسٹوفر کولمبس (1506-1451)کی 1492 عیسوی میں ایک نئی مالا مال دنیا کے انکشاف کے بعد اس دریافت کی جستجو میں خود بھی بحراوقیانوس کے پار اس ان دیکھی خزانوں سے بھرپور زمین کی جانب چل نکلے۔ اپنی آبائی زمین، رشتہ داروں اور یادوں کو ترک کرکے یہ پرخطر سفر کرتے ہوئے وہ ایک کثیر تعداد میں نئی دنیا کے مشرقی ساحلوں پر جا اترے - عیسائیت کے دو فرقوں، کیتھولک اور پروٹیسٹنٹس کے درمیان ایک متوازن سوچ رکھنے والے یہ افراد اپنے آپ کوپیوریٹن، گویا کہ پاکی یا پاکستانی کہتے۔ نومبر میں وہاں پہنچ جانے کے بعد 11 دسمبر1620 کو 102 مسافروں پر مشتمل ان کا پہلا باقاعدہ سمندری قافلہ ’مے فلاور‘ نامی بحری جہاز میں ساٹھ روز کے سمندری سفر کے بعد اس سرزمین پرپہنچا۔ مشرقی ساحل پر بوسٹن اور نیویارک سے قریب، یہ جگہ پلائی ماﺅتھ، میساچوسیٹس کہلاتی ہے۔ یہ خطہ ءزمین غیرآباد تو نہ تھا، مگر اس وقت یہاں مقامی آبادی سمندر پار سے درآمدی طاعون کا شکار ہوجانے کے بعد بہت ہی قلیل اور اس وقت کی تہذیب یافتہ دنیا سے غیرواقف تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس سرزمین پر پچاس ہزار برس پہلے ہی موجودہ روسی، ایشیائی علاقہ سائبیریا سے کچھ لوگ شمالی امریکہ کے جغرافیائی خطہ میں پہنچ چکے تھے۔ بہرحال، نئے یورپی مہم جو اور مہاجرمشرقی ساحل پرکچھ سستا کر مزید مغرب کی طرف مقامی آبادیوں، جنہیں وہ ریڈ انڈین یعنی سرخ ہندی کہتے، سے لڑتے، بھڑتے، سونا تلاش کرتے پیش قدمی کرتے گئے، یہاں تک کہ انہوں نے 4,500 کلومیٹر دور مغربی ساحل کو چھولیا، اور وہاں بحرالکاہل کے وسیع، عریض، اور عمیق پانیوں نے ان کا استقبال کیا۔ چھ ماہ کے دورانیے کے یہ سفر "اوریگن ٹریل، اوریگن راہ گذر" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ روایتی امریکی ادب میں اس بارے میں کہانیاں اور ناول بڑی تعداد میں لکھے گئے۔ یہ سفر نہایت ہی پرصعوبت، پرخطر، اور جان لیوا ہوتے۔ ان سفروں کے لیے سایہ دار گول چھت والی بیل گاڑیاں استعمال کی جاتیں، جو خاص اس سخت سفر کے لیے بنائی گئیں، اور ان میں عام طور پر بیل جوتے جاتے، جن کے مرجانے پر مسافر بھی بسا اوقات ان کے ساتھ ہی چل بستے۔ اسی قسم کے ایک سفر میں ایک قافلہ نیوادا کے صحرا میں بھٹک گیا، اور آدم خوری کی نوبت آگئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکیوں کی سرشت میں جو مہم جوئی رچ بس گئی ہے، اسی وجہ سے وہ آج بھی بے چین رہتے، اوراپنے ملک کی سرحدوں سے باہرد وردراز علاقوں پرشب خون مارتے رہتے ہیں۔
لگ بھگ پانچ صدیوں پر مشتمل یورپی نوآبادگاروں کی یہ زمینی قبضہ گیری، مقامی غیرتہذیب یافتہ قلیل تعدادی آبادیوں سے مقابلے اوربارودی اسلحہ سے ان کا بے دردی اور بے رحمی سے قتل عام اور ان کے تمام وسائل پر قبضہ، اور دنیا کی سب سے بڑی جائیدادی خرید و فروخت (نپولین سے جنوب میں لوزیانا، اور روس سے شمال مشرق میں الاسکا)، یورپی ممالک کی امریکی خطہ پر کنٹرول پانے کی کشمکش میں آپس میں جنگیں، اور آخر کار 13 امریکی ریاستوں کی جانب سے برطانیہ کے خلاف 4 جولائی 1776 کو اعلان آزادی، امریکی تاریخ کے دل چسپ ترین عنوانات ہیں۔ تاہم جس دوران یورپ کی مغربی سرحدوں سے نئی دنیا کی مشرقی سرحدوں کی جانب ایک کثیر تعداد میں لوگ ہجرت کررہے تھے، افریقہ کے ساحلی علاقوں کے ممالک یہ نہیں جانتے تھے کہ اس ہجرت کے سبب ان پر کیا مصیبتیں ٹوٹ پڑنے والی ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب کہ صنعتی انقلاب برپا نہیں ہوا تھا، اور زراعت کے لیے مویشی اور انسانی ہاتھوں کی مزدوری اورمحنت ہی کی ضرورت تھی، یورپی گوروں کوپہلے یورپی غریبوں، اور بعد میں افریقہ سے انسانی تجارت غلاموں کی شکل میں اس کا بہترین حل نظرآیا۔ اس طرح ایک بڑی تعداد میں آزاد افریقیوں کو زبردستی خرید کر اور ان کی جسمانی آزادی سلب کرکے نئی دنیا لے جایا گیا۔ وہاں ان پر جو ظلم وستم روا رکھے گئے وہ امریکی تاریخ کا ایک تاریک باب ہیں۔ تاہم یہ جسمانی غلامی ان کالی جلد والوں کی روح اور ذہن کو مسخر نہ کرسکی۔ اس کی بہترین عکاسی انیسویں صدی کے ایک امریکی ناول "انکل ٹامزکیبن" میں کی گئی۔ یہ ناول 1852 میں شائع ہوا، اور امریکہ میں بائبل کے بعد سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کی حیثیت اختیار کرگیا۔ ایک نیک دل خاتون ٹیچر، ہیریئٹ بی چر اسٹوو، کے اس ناول نے امریکی شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان خانہ جنگی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ جنوب میں غلامی کو پسند، اور شمال میں اسے برا سمجھا جانے لگا تھا۔ اس خانہ جنگی کے دوران مشہور امریکی صدر ابراہم لنکن برسراقتدار رہے، اور انہوں نے انکل ٹامز کیبن کی اس بارے میں بہت تعریف کی اور اس کی مصنفہ سے خاص طور پر ملاقات کی۔ وہ امریکن خانہ جنگی کے لیے ہیریئٹ کے کردار کو سراہتے اور کہتے کہ یہ جنگ اسی خاتون نے شروع کرائی ہے۔ واضح رہے کہ اس جنگ میں شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان اہم نزاع غلامی کا خاتمہ ہی تھا۔ (20 لاکھ نیگرو غلاموں کی آزادی کی جانب پہلا قدم امریکی صدر ابراہام لنکن کا وہ فرمان ءآزادی تھا جو انہوں نے 1 جنوری 1863 کو جاری کیا۔) ایک کالے پادری ہوسیا ہینسن کی زندگی کی حقیقی کہانی پر مبنی اس جذباتی ناول میں پہلی مرتبہ امریکی شعور کو انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں بیدار کیا گیا، ا ور غلام بنائے جانے والے خاندانوں کے مصائب کو ایک نہایت ہی رحمدلانہ انداز میں پیش کرتے ہوئے اعلی عیسائی مذہبی اقدار کو کام میں لاتے ہوئے گورے مہاجر امریکیوں کے ضمیرکو جھنجھوڑ ڈالا گیا۔ بعد میں "1976" میں امریکی ادب میں ایک اور تہلکہ خیز کتاب کا اضافہ ہوا، جب ایلکس ہیلے نے اپنے خاندان کی جڑیں تلاش کرڈالیں، ا ور وہ افریقہ میں گمبیا میں اپنے گاﺅں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس ناول کو "روٹس" کا نام دیا گیا۔ 1976 میں امریکہ نے اپنے دوسوسالہ جشن آزادی کو بہت جوش و خروش سے منایا، اور اسی دوران ہم نے بھی امریکی سفارت خانہ کے زیراہتمام امریکی تاریخ کا ایک کورس مکمل کیا، جس کی یادیں اس وقت آپ کے لیے یہ مضمون لکھتے اور تحقیق کرتے کام آرہی ہیں۔ اسی دوران ہمیں یہ علم ہوا کہ امریکہ میں نسلی منافرت ایک خاصہ اہم قومی مسئلہ ہے۔ اس کورس کے دوران امریکیوں نے بڑے فخر سے ہمیں 1967میں بنی ایک فلم ’ان دی ہیٹ آف دی نائٹ‘ دکھائی، جس میں سڈنی پوائیٹیر نے ایک ایسے کامیاب سیاہ فام جاسوس کا کردار ادا کیا تھا، جسے سفیدفام پولیس آفیسرز کے غیردوستانہ روّیہ کا سامنا تھا۔ امریکی نسلی تعصبات پر بنی یہ ایک دل چسپ فلم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ موجودہ امریکہ میں تو صرف چار لاکھ غلام لائے گئے، مگر جنوبی امریکہ اور میکسیکو میں ان کی جملہ تعداد پچاس لاکھ سے بھی تجاوز کرگئی تھی۔ ان تمام خطوں میں یورپی نوآباد گار پہنچ چکے تھے، اور وہ سخت محنت کے لیے اپنی انسانی وسائل کی ضروریات کو غلاموں کی تجارت کے ذریعہ پورا کرتے رہے۔ اب 2008 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کل آبادی 30 کروڑ ہے، جس میں افریقی امریکی لگ بھگ 14 فی صد یعنی 4.5 کروڑ ہیں۔ ان میں سے ہی ایک نمایاں نام بارک حسین اوباما کا بھی ہے۔
افریقی امریکیوں کو غلامی کے چنگل سے آزاد ہونے کے باوجود گورے امریکیوں کی جانب سے مستقل نسلی تعصب آمیز سلوک کا سامنا ہے۔ معاشرتی مساوات کی جدوجہد میں ہوسیا ہینسن سے لے کر بارک اوباما تک کئی رہنماﺅں کے نام نمایاں ہیں۔ ان میں روزا پارکس نامی خاتون پہلی شیردل امریکن تھی جس نے1955 میں بسوں میں علیحدہ نشستوں پر کامیابی سے اعتراض کیا۔ دیگر افراد میں مارٹن لوتھر کنگ، عالی جاہ محمد، محمد علی،وغیرہ کے نام ہیں۔ سفیدفام نسل پرستی اور ان کی برتری کے لیے دنیا بھر میں کئی تنظیمیں شدت پرستی سے کام لیتی رہی ہیں۔ امریکہ میں سب سے زیادہ معروف "کو کلکس کلان" ہے۔ جسے کے کے کے بھی کہا جاتاہے۔ یورپ میں اسکن ہیڈز، نازی اور نیونازی بھی اسی نسل پرستی کے پیروکارہیں۔ آپ میں سے وہ دوست جو امریکی تاریخ سے واقف نہیں، وہ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ امریکہ میں ، باالخصوص جنوب میں، معمولی معمولی باتوں پر نیگرو غلاموں اور آزاد افراد کو بھی گرفتار کرکے بپھرے ہوئے گورے ہجوموں کے سامنے اذیتیں دے کر اور درختوں سے لٹکا کر ماردیا جاتا۔ اس عمل کو عوامی لنچنگ کہا جاتا، اور یہ بدترین اعمال اب سے چند برس پہلے تک بھی وہاں جاری تھے۔ نیگروافراد کو عوامی جگہوں پر اٹھنے بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔ واضح رہے کہ اسی قسم کے حالات جنوبی افریقہ میں بھی پائے جاتے تھے، اور موہن کرم داس گاندھی، اور نیلسن منڈیلا نے بھی اس کے خلاف جدوجہد کی۔ امریکی سنیما کی ایک بہترین فلم ’ٹو کل اے موکنگ برڈ‘ جو 1962 میں بنائی گئی، امریکی نسلی تعصب پر مبنی عدالتی نظام پر ایک کڑی ضرب ہے۔ اس میں گریگوری پیک نے ایک دفاعی وکیل کا لافانی کردار ادا کیا، جو اب امریکی نفسیات میںایک مثبت انداز میں داخل ہوچکاہے ۔
بہر حال پیارے دوستو، آج کی امریکی صورت حال کو سمجھنے کے لیے یہ پس منظر آپ کے لیے بڑی اہمیت رکھتاہے، ورنہ آپ آج کے اس عظیم تاریخی موڑ کا ادراک نہ کر پائیں گے، جس پر آج امریکہ کھڑاہے۔ بارک اوباما کی امریکی سیاست کے اکھاڑے میں کامیابی ایک طویل جدوجہد کا ایک اور قدم ہے۔ مگریہ صرف ایک سنگ میل ہے، اور امریکی معاشرتی مساوات کی منزل نہیں۔ نیگرو جنرل کولن پاول، مذہبی اور سیاسی رہنما جیسی جیکسن، اور خاتون کنڈولیزارائس بھی اسی اہم سفر کے خاص خاص نام ہیں۔ تاہم، اس معاشرتی مساوات کو ایک بہت بڑی ترغیب اور بڑھاوا اگست1963میں مارٹن لوتھرکنگ کی ایک تاریخی تقریر نے دیا، جس میں اس نے کہا کہ میر ا ایک خواب ہے کہ امریکہ میں سب لوگ رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر رہ سکیں، اور یہ جان لیں کہ ہرنوزائیدہ بچہ انسانی حقوق کی مساوات کی امید کا ایک چراغ ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کا یہ پیغام اللہ سبحان تعالی ٰ کے آخری نبی محمدبن عبداللہ صلی اللہ و علیہ وسلم کے الوداعی خطبہ ءحج پر مبنی تھا۔ بہرحال سفیدفام نسل پرستوں نے کنگ کو 1968 میں جنوبی شہر میمفس، ٹینیسی میں قتل کردیا۔ اس وقت جیسی جیکسن ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ اور آج جب 47 سالہ بارک اوباما شکاگو میں اپنی کامیابی کے بعد ایک بڑے ہجوم سے خطاب کررہے تھے تو 67 برس کی عمر کے نیگرو پادری جیسی جیکسن کے آنسو کسی صورت تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ ان کی جدوجہد میں کامیابی کا یہ موڑ ان کی زندگی ہی میں آجائے گا اس کا انہیں یقین نہ تھا۔ تاہم یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بارک اوباما کی کامیابی افریقن امریکن شہریوں اور رنگ دار شہریوں کے لیے آخری منزل ہے تو یہ ایک فاش غلط فہمی ہے۔ امریکن انتخابی نظام میں صدارتی امیدوار اسمبلی ممبران کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے، جو زیادہ باشعورمنتخب سیاسی نمائندے کہلائے جاسکتے ہیں۔ دوسری جانب عوام بھی اپنے ووٹ براہ راست ڈالتے ہیں۔ تاہم ان عوامی ووٹوں کا نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چنانچہ یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ اس موقع پر امریکی قوم نے ایک تقسیم شدہ ووٹ دیا۔ بارک اوباما کو 52 فی صد عوامی ووٹ، اور 69 فی صد الیکٹورل ووٹ ملے۔ چنانچہ اب بارک حسین اوباما کو ایک بڑی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا، ان کے مخالفین امریکی میڈیا میں یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اب بارک اوباما کو اپنے تمام انتخابی وعدے پورا کرنا ہوں گے، ورنہ ۔۔۔ ہم دیکھ لیں گے اس کو ۔ ۔۔ چنانچہ اس امر کا قوی امکان ہے کہ ایک مخصوص لابی بارک اوباما کو ایک ناکام صدر ظاہرکرنے کی پوری کوشش کرتی رہے گی۔ ان کے ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ وہ ایک بہترین مقرر و خطیب تو ثابت ہوچکے ہیں، اب عملی میدان میں ان کا کڑا امتحان ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بارک اوباما کی شان دار کامیابی سے دنیا بھر میں کیوں ایک جشن کی سی کیفیت ہے؟ یہاں تک کہ پاکستانی بھی، جنہیں اوباما جنگی دھمکیاں دے چکے ہیں، ان سے خوش ہیں۔ اس کا جواب اس کالم اور مضمون کی پیشانی پر تحریر مرزاغالب کے شعر، اور اس محاورہ میں بھی ہے کہ، نادان دوست سے دانا دشمن بہترہے۔ پاکستانی عدل و انصاف کے لیے کام کرنے والے لوگ یہ جان کر خوش ہیں کہ بارک اوباما بھی ایک وکیل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بارک اوباما دنیا بھر کے مظلوم اور پچھڑے ہوئے انسانوں کے لیے امید کی ایک کرن اور ایک ماڈرن پیغمبر ہیں۔ ان کی امریکہ میں کامیابی دنیا بھر میں نسلی تعصب کے شکار ہر انسان کے لیے ایک مہمیز اور ترغیب ہے کہ اسے بھی اپنے ظالم آقاﺅں سے ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ آپ ملاحظہ کیجیے کہ یہ پیغام نسلی اور مذہبی تعصب پر چلنے والی دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت کے کروڑہاکروڑ دلتوں، مسلمانوں، عیسائیوں، وغیرہ کے لیے کتنا پرکشش ہے۔ اگر وہ بھی اپنی جدوجہد جاری رکھیں تو ایک دن بھارت میں بھی ایک دلت یا مسلمان وزیراعظم بن جائے گا۔ آپ کی اطلاع کے لیے ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ انکل ٹام کے کیبن نامی کتاب کا پورا نام یہ تھا: انکل ٹام کا کیبن یا نچلے طبقات کی زندگی۔ گویا کہ یہ کتاب بھارتی باشندوں کے لیے بھی ایک آفاقی پیغام رکھتی ہے۔
جہاں تک بارک اوباما کا تعلق ہے تو انہیں صدرجان ایف کنیڈی کی طرح قتل کیے جانے کا خدشہ رہے گا، کیوں کہ نسل پرستی امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھِی پائی جاتی ہے، جو اب ان کی حفاظت پر ماءمور رہیں گے۔ آج بھی امریکی نظام انصاف رنگ دار شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتا ہے، جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ اگرچہ رنگ دار امریکی کل آبادی کا 14 فی صد ہیں، مگرامریکی جیلوں میں قید لوگوں میں وہ 50 فی صد ہیں۔ یہ انوکھا صدارتی انتخاب کا امریکی تجربہ اس وقت کامیاب ترین قرار پائے گا جب کہ بارک اوباما کے بعد بھی رنگ دار امریکی شہری باآسانی بلا تمیزرنگ و نسل صدر بن سکیں، اور یہاں تک کہ ایک دن ریڈانڈین یا آنیوٹ شہری بھی صدرچن لیا جائے۔ فی الحال وقتی طور پر انکل ٹام کا اپنے جنوبی شکستہ چوبی کیبن سے شمالی شان دار قصرابیض کا سفر پورا ہوچکاہے۔ اس کے لیے ہم تمام ہم خیال اور عقل مند پاکستانیوں کی جانب سے باشعور امریکی قوم کو سلام تحسین پیش کرتے ہیں۔
*
ہفتہ: 8 نومبر2008 ورژن-4 1
اگر کسی قوم کے رہنما خود روشن خیالی سے عاری ہوں تو ان کی ماتحت بھی ہمیشہ تاریکی میں ہی رہیں گے۔۔۔
ایک چینی کنگ فو کہاوت
All Rights Reserved (c) Justujumedia 2008
National Library of Pakistan Registration: 969-8831-00-00
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
This is a widely syndicated Column. No editing is allowed. It must be published as is. The intellectual property rights are asserted under the Pakistani and International Copyrights laws.
The Justujumedia hereby grants a fair usage license for publishing this piece without any changes. In case you make some profit out of publishing this material you are urged to consider sharing that with us

Thursday, September 04, 2008

جستجو: حالات حاضرہ ---- بے وقت کی راگنی







جستجو / حالاتِ حاضرہ
بے وقت کی راگنی
محمد بن قاسم
مان لیجیے، شیخ جو دعویٰ کرے
اک بزرگِ دین کو ہم جھٹلائیں کیا
ہوچکے حالی غزل خوانی کے دن
راگنی بے وقت کی اب گائیں کیا
مولانا الطاف حسین حالی 1914-1837
موجودہ صورتِ حال میں، جب کہ پاکستان کے ایک حادثاتی رہنما، جناب آصف زرداری، صدر پاکستان کے عہدہ ءعالیہ پر براجمان ہونے جارہے ہیں، عقل دنگ ہے کہ یہ کیسا منظر نامہ ترتیب پا گیا ہے۔ تمام آزادانہ کام کرنے والے صحافتی ادارے ان کے اثاثہ جات کے بارے میں ہوش ربا، اور طلسمِ سامری جیسی رپورٹیں شائع کررہے ہیں۔ یہ امر روز روشن کی طرح یقینی ہے کہ اگر یہ تمام اثاثے ، جن کی مالیت ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، واقعی زرداری اور بھٹوخاندان کی میراث کے زمرہ میں ہیں، تو اس قدر بڑی رقمیں تو کسی بھی دیانت دار پاکستانی کی قسمت میں نہیں۔ خود ہمارے تازہ تازہ' سابق' ہوئے صدر صاحب پریشان ہیں کہ وہ کس طرح اپنی زندگی ٹھاٹ باٹ ، اور سیر وسفر میں گزاریں گے! وہ پاکستانی زرداروں میں ہری جن (خدا کے بچے) سے زیادہ نہیں لگتے۔ ہم اپنے کم عمر اور کم مطالعہ قارئین پریہ واضح کردیں کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جو طبقاتی نظام ہے، اس میں برہمن سب سے اوپر، اور دلِت سب سے نچلے درجہ پر سمجھے جاتے ہیں۔ ہندوستانی رہنماآنجہانی موہن داس کرم چند گاندھی نے دلتوں کو "خدا کے بچوں" کا لقب دے دیا تھا، جو عیسائی تعلیمات سے زیادہ قریب، اور مغرب کے لیے زیادہ دل کش نعرہ ہے۔ یہ خدا کے بچے اپنی تمام ضرورتوں کے لیے خدا کے ہی محتاج ہیں، کیونکہ بھارتی متعصب معاشرہ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھتا ہے۔ آپ یہ جان کر شاید حیران ہوں گے کہ حالیہ مون سون کے سیلابوں میں کی جانے والی امدادی کارروائیوں میں بھی یہی طبقاتی نظام کارفرما رہا، اور بے چارے مسکین ہری جنوں کی بستیوں کو امدادی کشتیاں اور سازوسامان فراہم نہیں کیا گیا، اور انہیں سیلابی موجوں کے تھپیڑے کھانے پر مجبور کردیا گیا۔
آپ میں سے جو دو چار ذہین قاری ہیں، وہ یقینا یہ سوال کریں گے کہ ہم نے بھارتی طبقاتی نظام کا موضوع کیوں چھیڑ دیا! تو پیارے دوستو، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اور آپ اس آزادی کا شکر ادا کریں جوہمیں ہندو بالا دستی سے فی الوقت نجات دلائے ہوئے ہے۔ اور وقتاْ فوقتاْ اپنے قومی آزادی کے سفر کی یادیں تازہ کرتے رہیں، اور ان عظیم رہنماﺅں کی زندگی کو اپنے کردار کے لیے ایک سانچہ بنانے کی کوشش کریں، جن کی ذہانت ، فراست، تدبر، اور رہنمائی کی بناءپر آج ہم ایک آزاد پاکستان کی فضاﺅں میں سانس لے سکتے ہیں۔ ورنہ خاکم بدہن، ہم اور آپ بھی 'خدا کے بچے' بنے ہوتے۔ اس امر کی نشاندہی کرنے کے لیے ہم اس لیے بھی بے چین تھے کہ گزشتہ دنوں، جب جناب آصف زرداری صاحب نے تمام پاکستانی دوردرشنوں کو ایک جیسا ہی انٹرویو دیا تھا، جن میں بہترین فٹنگ کے نئے نئے سوٹ البتہ مختلف تھے، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ ہم تو بات چیت پر ہی یقین رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح قائد اعظم نے پاکستان صرف بات چیت کے ذریعہ بنا لیا تھا۔ اگرچہ ان کا یہ جواب قائد اعظم کی صلاحیتوں کو خراجِ تحسین پیش کررہا تھا، مگر اس سرسری سے بیان سے یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ انہیں تحریکِ پاکستان کے بارے میں مکمل اور ضروری تاریخی معلومات شاید حاصل نہیں، یا پھر وہ اسے بھول گئے تھے، کم ازکم اپنے انٹرویوز کے وقت۔ پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز ہونے کے خواہشمند پاکستانی کے لیے یہ ایک مثالی صورتِ حال نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ جلد از جلد تحریکِ پاکستان کے بارے میں ایک 'حادثاتی کورس' کرلیں۔ تاکہ وہ سرسید احمد خان، علامہ اقبال، چوہدری رحمت علی، مولانا محمد علی جوہر، مولوی عبدالحق، قائد اعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خاں کی جدوجہد، اور مسلم لیگ کے قیام، اور دیگر تاریخی حقائق جان لیں، جن میں لاکھوں مسلمانوں کی بے لوث قربانیاں شامل ہیں۔ وہ مسلمان، جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ 1947 میں قائم ہونے والے پاکستان میں منتقل نہ ہوسکیں گے، صرف اسلام کے نام پر اپنی جانیں، مال وآن قربان کرگئے۔ یہ ان کا عطیہ کیا ہوا لہو ہی ہے، جو آج بھی پاکستان کی رگوں میں دوڑ رہا، اور اسے زندگی عطا کیے ہوئے ہے۔ اگر آج بھی قربانی اور خدمت کا وہی جذبہ ہو تو پاکستان دنیا میں اپنا کھویا ہواباوقار مقام پھر حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے نامی وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی صاحب نے بھی حال ہی میں اپنے ایک بیان میں یہ فرمایا ہے کہ اگر قائدِ اعظم بیک وقت مسلم لیگ کے صدر اور گورنر جنرل بھی ہوسکتے ہیں، تو جناب آصف زرداری بھی بیک بینی اور دو گوش اپنی سیاسی پارٹی کے چیف، اور صدرِ پاکستان کیوں نہیں ہوسکتے؟ ہمارا بھی وہی خیال ہے جو آپ کا ہوگا۔۔۔۔۔ کہاں قائد اعظم، اور کہاں ہمارے موجودہ رہنما۔ بہتر ہوگا کہ وہ اس قسم کے موازنے کرنے کی کوششیں نہ کیا کریں۔ تعلیم، عمل، کردار، امانت، دیانت، عمیق مطالعہ، قانون پر گرفت، مستقبل پر ایک صاف اور واضح نظر، یہ سب وہ صفات ہیں جن پر آج کا کوئی بھی پاکستانی لیڈر پورا نہیں اترتا۔ ایک مقبول امریکی ویب سائٹ ابائوٹ ڈاٹ کام پر ایک لبنانی عرب امریکی لکھاری پیرے ٹرسٹام نے ایک نہایت ہی پرمغز مقالہ پاکستان کی موجودہ صورتِ حال پر تحریر کیا ہے۔ وہ پاکستانیوں پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ساڑھے سولہ کروڑ کی آبادی میں سے ایک بھی صاف و شفاف رہنما اس قوم کو دست یاب نہ ہوسکا، اور پاکستانی صدارت بھی خورد برد کا شکار ہوگئی۔ ہمارا بھی خیال ہے کہ یہ بہتر ہوگا کہ تمام تینوں کے تینوں صدارتی امیدوار کھلے عام دور درشنوں پر آکر پاکستانی مسائل پر بحث و مباحثہ کریں، اور اپنے اپنے وژن اور منصوبہ بندی سے عوام کو آگاہ کریں۔ جب امریکی ایسا کرسکتے ہیں تو پاکستانی کیوں نہیں؟
رہنماﺅں کی بات کرتے ہوئے، یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ بلوچستان میں جب کچھ عرصہ قبل ایک ساتھ پانچ خواتین کو زخمی کرکے زندہ ہی دفنادیا گیا، تو یہ خبر کسی بھی پاکستانی صحافی یا اخبار نے نہ پائی۔ یہ تو ہانگ کانگ کے ایک انسانی حقوق کا ایک ادارہ تھا جس نے یہ وحشت ناک خبر تمام دنیا کو سنائی۔ پھر ہم بھی اسے راز میں نہ رکھ سکے۔ ان زخمو ں پر نمک چھڑکتے ہوئے ہمارے سینیٹ میں تخت نشین بلوچی رہنماﺅں نے جو ابتدائی بیانات دیئے وہ عذر گناہ، بد تر از گناہ ہیں۔ انسانی جانوں کی ان کے نزدیک کوئی قیمت ہی نہیں، اور اس پر احتجاج انہیں بہت برا لگ رہا ہے۔ مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے ایسے اشخاص، قرآن الکریم کی سورہ ءنور کی ابتدائی آیات کا مطالعہ کرلیں، اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر توبہ کریں، اور انصاف کی فراہمی کے لیے کام کریں تو ان کی عاقبت سدھر سکتی ہے۔ بہر حال، ایسے رہنماﺅں سے اللہ پاکستان کو محفوظ رکھے، اس قسم کے ذہنی مریض افراد کی عدل کے ایوانوں میں موجودگی پاکستان کے لیے ہمیشہ سوہانِ روح رہے گی۔ ہماری مذہبی جماعتوں کا اس معاملہ پر خاطر خواہ اقدامات نہ اٹھانا بڑا معنی خیز ہے۔ کراچی میں لاشوں کی سیاست کرنے والے ذرا بلوچستان میں بھی تو نمازِ جنازہ پڑھانے کی ہمت کریں۔
پیارے قارئین، اگر یہ تحریر آپ کو بے وقت کی راگنی محسوس ہورہی ہے تو اس میں آپ کا چنداں قصور نہیں۔ بین الاقوامی ریشہ دوانیوں کے سازوں کی آواز و جھنکار اس وقت اس قدر بلند ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ امریکہ اور برطانیہ نے اپنی مرضی کے پاکستانی رہنماﺅں کا انتخاب کیوں کیا، اور وہ ایسے کون سے کام ہیں جو محترمہ بے نظیربھٹوزرداری شہید، اور جناب سابق صدر سے نہیں نکلوائے جاسکتے تھے۔ غور کیجیے، اور سر دھنیے، اس کے سوا پاکستانی کر بھی کیا سکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ 6 ستمبر 2008 بھی سنہ 1965 کی طرح ہی ایک یوم دفاع کا تقاضہ کررہا ہے۔ مگر اس مرتبہ دفاع پاکستان کی اخلاقی اور نظریاتی سرحدوں کا ہے، جن کے بغیر پاکستان کوئی ٹھوس حیثیت نہیں رکھتا۔
چلتے، چلتے، ہم جناب ظریف لکھنوی (انیسویں صدی عیسوی)کے چندمزے دار اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جو صدارتی انتخابات کے موقع پر پاکستانی سیاست کے ایک مخصوص طبقہ کی لوٹا بازی اور مفاد پرستی کی دل چسپ عکاّسی کرتے ہیں:۔۔
ووٹ دوں گا عوض میں آپ کو خمسین *کے
اتنے ہی ملتے ہیں مجھ کو وعظ کے، تلقین کے
حضرتِ والا تو خود پابند ہیں آئین کے
اس سے کم لینا مرادف ہے مری توہین کے
ہاں یہ ممکن ہے کہ کچھ تقلیل فرمادیجیے
ہے یہ کارِ خیر، بس تعجیل فرمادیجیے

* خمسین = 50
٭
بدھ، 3 ستمبر 2008
(c) 2008 Justuju Media - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Media, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license

Tuesday, April 15, 2008

ایک ”عزیزستم گر“








Default جستجو: حالات حاضرہ -- ایک ”عزیزستم گر“

جستجو / حالاتِ حاضرہ

ایک ”عزیزستم گر“

پاکستانی قومی اسمبلی کے جری درباں کے لیے تمغہ ءجراءت کی سفارش: ایسے درباں اگر مغلیہ دور میں ہوتے، تو آج بھی تمام ہندوستان مسلمانوں کے زیرِ نگیں ہوتا

محمد بن قاسم

ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نامہرباں نہیں ہے، اگر مہرباں نہیں


مرزا اسد اللہ خاں غالب، جو 27 دسمبر 1797ء کو پیدا ہوئے تھے (وفات 15 فروری 1869ئ)، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی نابغہ ءروزگار شخصیت تھے، جو اپنے زمانہ سے صدیوں آگے تھے۔ ان کا ’ایک ہزار آٹھ سودو‘ اشعار پر مبنی اردو کلام کا دیوان، اور ان کے نثری اردو مکتوبات اس خیال کے بارے میں بذاتِ خود روشن دلیلں ہیں۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں اس دنیا میں تشریف لانے والے اس عظیم شاعر کا دیوان قدردانوں کے لیے آج بھی ایک الہامی کتاب سا درجہ رکھتاہے۔ پیارے قارئین، اب آپ اس کا اندازہ صرف ایک اس امر سے لگا لیجیے کہ وہ پاکستان میں امریکی سفیرہ، این پیٹرسن اور امریکہ کے بارے میں مندرجہ بالا شعر میں کیا، کیا گنجِ معانی چھپاگئے تھے۔ امریکا، اور اس کے نمائندے پاکستان پر کون سا ظلم وستم ہے جو وہ ڈھانے پر تیّار نہیں۔۔۔ اور ہم ہیں کہ ان کی ہر ایک ادا پر واہ، واہ، اور داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اسی قبیل کا ایک تازہ ترین واقعہ بروز جمعہ، 11 اپریل 2008ئ کو اسلام آباد میں پیش آیا۔
پاکستانی اخبارات میں ایک چند سطری، سہمی سہمی سی خبرشائع ہوئی ہے کہ جب امریکی سفیرہ پاکستانی قومی اسمبلی پہنچیں تو ان سے پاکستانی دربانوں نے اسمبلی میں داخلہ کا کارڈ اور شناخت وغیرہ طلب کرلی۔ اس پر ہماری عزیزہ، امریکی سفیرہ، نے بہت برامنایا، اور سنا ہے کہ کئی واسطے دیئے اور ہاتھ بھی جوڑے۔ مگر وہ احمق دربان نہ مانے۔ اس پر امریکی سفیرہ کا ”گارڈ“ مشتعل ہوگیا۔ مشتعل ہونے کے بعد اس نے کیا کیا، اور اس کو کس طرح ’ٹھنڈا کیا گیا‘ اس بارے میں راوی خاموش ہے۔ اس اشتعال سے ہمارا نوزائیدہ ایوانِ قومی اسمبلی دہل اورکسی زلزلہ کے اثرات کی طرح لرز کر رہ گیا، اور امریکی سفیرہ ایک فاتحانہ انداز دل ربائی سے مارچ کرتی ہوئی اسمبلی میں گھس بیٹھیں۔ اب آپ اس واقعہ کی سنگینی کا اندازہ لگائیے۔ اگر ہمارے ’اعلیٰ‘ حکّام (جن کے بارے میں بھی فی الحال کوئی خبر نہیں)، جن کے سہم جانے پر امریکی سفیرہ کوداخل ہونے دیا گیا، ایسا نہ کرتے تو کیاہوتا! ان کے نظروں کے سامنے گوانٹانامو خلیج کے ’کیمپ ایکس رے‘ کے مناظر پھرنے لگے ہوں گے، اور پھر نہ جانے ہمارے اس احمق اور بہادر دربان کا کیا بنا ہوگا، جس نے یہ جراءت مندانہ کارنامہ سر انجام دیا۔ آپ کے ذہن میں بھی وہ ہی سوالات ابھر رہے ہوں گے، کہ آخر یہ مشتعل گارڈ تھا کون؟ کیا وہ ایک پاکستانی گارڈ ہے، یا پھر امریکی کمانڈو فورس کا ایک رکن۔ اور کیا وہ صرف اکیلا ہی مشتعل گارڈ تھا، یا پھر اس کے پیچھے پوری ایک پھنکارتی ہوئی فوجِ جرّار بھی موجود تھی۔ اور پھر بقول امریکیوں کے’ لاکھوںڈالر کا ایک سوال‘، کہ اس امریکی گارڈ کے نزدیک پاکستانیوں نے کون سی اشتعال انگیز حرکت کی تھی! کیا پاکستانی حاکمیت کے مقدس ترین ادارہ میں داخلہ کے وقت باقاعدہ اجازت نامہ، اور جسمانی چیکنگ کی ضرورت نہیں! امریکیوں نے تو پاکستانیوں کے دورہ ءامریکا کے متعدد مواقع پر پاکستانی ’اعلیٰ حکام‘ کی شرم و حیا کے بڑے بڑے امتحان لیے ہیں۔ یہاں تک کہ دو چار برس پہلے پاکستانی سفارت خانہ کو شرما حضوری یہ بیان بھی دینا پڑا تھا کہ یہ مکمّل معائنہ تو ہم نے خودہی کرایا تھا، بلکہ اس کے لیے اخراجات بھی ادا کیے تھے، یعنی یہ کلہاڑی تو ہم نے ہی خود خرید کر اپنے پاﺅں پر ماری تھی، وغیرہ ۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ ہم خود ہی اپنے ملک کے باسیوں پر بھیانک امریکی میزائل گرالیتے ہیں۔ اب جہاں تک اس امر کا تعلّق ہے کہ کیا امریکی سفیرہ کی جسمانی چیکنگ کے لیے کوئی نسائی دربان موجود تھی یانہیں، تو امریکی ثقافت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہمارے نزدیک تو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 11 ستمبر2001ءکے بعد امریکی شہروں اور ایئرپورٹوں پر کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جب کہ مسلمان اور پاکستانی خواتین کے وقار اور روایتوں کے خلاف امریکی مرد اہل کاروں نے ان کی مکمل جسمانی تلاشی لینے پر اصرار کیا، یہاں تک کہ ایک پاکستانی امریکن خاتون ایک سپر مارکیٹ میں اپنے ساتھ روا رکھے جانے والی بد سلوکی کے نتیجہ میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال بھی کرگئیں۔
گزشتہ دوبرسوں کے دوران ہم نے آپ کی طرح پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی وہ تصویر بھی دیکھی، جس میں اٹلی کے وزیرِ خارجہ یا وزیرِ دفاع پاکستانی وزارتِ خارجہ کے دورہ پر تشریف لائے تھے۔ وزارتِ خارجہ کے داخلی دروازہ پر ان کے ساتھ ایک شخص بڑی پُر رعونت انداز میں ایک بہت بڑی مشین گن اٹھائے ہوا تھا، جس قسم کی گن آپ نے ریمبو، اور ٹرمینیٹر جیسی فلموں میں دیکھی ہوں گی۔ ہم اس وقت یہ سوچتے ہی رہ گئے کہ اس دہشت ناک اسلحہ کی نمائش کی کیا ضرورت تھی، اور کیا اسی قسم کا روّیہ پاکستانی سفراءاور ان کا دیگر سفارتی عملہ اور وزراءکرام امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں کر سکتے ہیں؟ ہمارا تو خیال ہے کہ امریکیوں نے پاکستان میں ایک خاتون سفیرہ کا اہتمام ہی اسی لیے کیا ہے کہ وہ پاکستانیوں کی نفسیات اچھی طرح جانتے ہیں۔ جو رسائی اور پذیرائی پاکستانی کسی دل کش خاتون کو دیتے ہیں، وہ بھلا کسی مرد کو کیوں کر دی جاسکتی ہے۔ ہاں، دنیا میں جہاں، جہاں ’خوش باشوں‘ Gays کاراج ہواکرتا ہے، وہاں ان کی موءثر حکمتِ عملی دیگر بھی ہوسکتی ہے۔ کچھ ’حسن ِزن‘ سے کام لینے والے یہ کہتے اور اپنے جمال ِ خیال و حسنِ ظن کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کنڈولیزا رائس بھی اتنے برس واشنگٹن میں بڑی مردانگی سے یوں ہی کام نہیں دکھا گئیں ہیں، اوروہ ایک کامیاب خاتون حکمراں ثابت ہوئی ہیں۔ بس یہ ہے کہ بقول خود رائس کی خودنوشت کے ہمارے شوکت عزیز کی دال اوررائس نہیں گلے، اوروہ اپنی تمام تر خواہشات اورنیک تمنّاﺅں کے باوجود، انہیں اپنی عزیزہ کا درجہ دینے میں ناکام رہے، بالآخر ان کے تخت کا تختہ ہوگیا۔ بصورتِ دیگر وہ کم از کم اس وقت تک برسرِ اقتدار رہ سکتے تھے جب تک کہ2008 ءکے امریکی انتخابات کے نتیجہ میں ری پبلیکن پارٹی شکست کھا کر2009ءمیں اپنے گھروں کو نہ چلی جاتی۔
بہرحال، کچھ بھی ہو، ہم امریکی سفیرہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کی وضاحت کریں، اور پاکستانی قوم سے معذرت کریں۔ اور ہمارے’ شیر دل‘ پاکستانی ’اعلیٰ حکام‘ اور سیاستدان ہم عاجز و لاچار پاکستانیوں کو یہ بھی بتائیں کہ کیا امریکی سفیرہ ہمیشہ ہی اسی دہشت گردانہ انداز میںاپنے گارڈ اور آتشیں اسلحہ کے ساتھ ایوان میں داخل ہوجاتی ہیں، یا ان سے گارڈ اور اسلحہ باہر ہی رکھوالیا جاتا ہے۔ جہاں تک ان کے حسن وجمال اورپیارو محبّت کے اسلحہ جات کا تعلّق ہے، اس پر ہمیں تو قطعی اعتراض نہیں، کیا آپ کو ہے ! ا ور پیارے قارئین، ہم آپ کی خواہشات کو بھی مدّّ نظر رکھتے ہوئے یہ سفارش کرتے ہیں کہ اس دربان کو جس نے امریکیوں سے شناخت اور رسمی اجازت نامہ طلب کیا تھا، نہ صرف اس کے مناصب میں ترقیّ دی جائے ، بلکہ اس کے لیے ایک تمغہ ءجراءت کا بھی اعلان کیا جائے۔ اور اس کی تصویر جری پاکستانیوں کے ’ایوانِ شہرت‘ میں اسی طرح لگا دی جائے، جس طرح ہمارے جری جنرل اشفاق پرویز کیانی کی امریکی فوجی ایوانِ شہرت میں لگادی گئی ہے۔ ایسا کرنا امریکیوں کے غرور اور نخوّت کے بارے میں کم از کم اظہار ناپسندیدگی، اور پاکستان کے وقار میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ ہم یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ جب برّ صغیر ہندوستان میں انگریزوں نے تجارتی نمائندوں کے روپ میں پہلے ایوانِ مغلیہ دربار میں رسائی، اور بعدمیں تمام تر ہندوستان کی حاکمیت سلب کرلی تھی، اگر اس زمانہ میں بھی کوتاہ بیں حکمرانوں کے ساتھ ایسے جری پاسباں ہوتے تو ہماری تاریخ ہی کچھ اور ہوتی، اورشاید آج بھی تمام ہندوستان مسلمانوں کے زیرِ نگیں ہوتا!
چلتے چلتے، مرزا غالب کا ایک اور حسبِ حال شعر آپ کی خاطر امریکی سفیرہ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:


جو آﺅں سامنے ان کے، تو مرحبا نہ کہیں
جو جاﺅں واں سے کہیں کو، تو خیرباد نہیں


٭
جستجو پبلشرز اور ریسرچرز
ہفتہ، ۲۱ اپریل ۸۰۰۲ئ

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
دیکھیے اب ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

(c)2008 A syndicated essay by Justuju Research and Publishing - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Research and Publishing Agency, hereby grant a permission for and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license non commercial agreement. This piece must be published "as is" to qualify for this license

Monday, February 18, 2008

پاکستانی انتخابات ۲۰۰۸ : نادرا کس مرض کی دوا ہے؟


پیارے پاکستانی بھائیو اور بہنو، میرے ہم وطنو، السلام علیکم

logo ecpہمیں یقین ہے کہ آپ آج صبح ہی سے تیاری کرکے، اپنا ووٹ ڈالنے گئے ہوں گے۔ اور اگر آپ خوش قسمت ہیں تو آپ کو اپنا نام بھی ووٹر لسٹ میں مل گیا ہوگا، اور مزید خوش قسمتی سے اگر آپ فیض یاب ہوسکے ہوں گے، تو آپ کے پولنگ اسٹیشن پر عملہ، اور بیلٹ بکس بھی موجود ہوں گے۔ تاہم، ہم جیسے بے شمار ووٹر کسی شمار و قطار میں نہیں ۔۔۔ شکریہ اے نادرا تیرا ۔۔۔۔ آئیے دیکھیں ایسا کیوں ہے ۔۔۔


ایک جاحرف وفا لکھا تھا، وہ بھی مٹ گیا

ظاہرا کاغذ تیرے خط کا غلط بردار ہے

(مرزا غالب)


ہم اور ہمارے تمام اہل خاندان، جملہ 14 افراد، صبح ہی صبح اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں اپنا حصہ ڈالنے پہنچے۔ 14 میں سے صرف 2 ووٹوں کا اندراج مل سکا۔ دوسری جانب پولنگ آفیسرز بھاگ دوڑ کررہے تھے، مطلوبہ تعداد میں بیلٹ بکس موصول نہیں ہوئے تھے۔ اور ایم کیو ایم کے ایک امید وار، فیصل سبزواری، ووٹروں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اطراف میں موجود تھے، جب کہ اپوزیشن اور مخالف پارٹیوں کے امید واراس وقت غائب اور ان کا مددگار عملہ کم کم نظر آرہا تھا۔ ہم اپنا شناختی کارڈ لیے ایک کونہ سے دوسرے کونہ تک دوڑتے رہے، یہاں تک کہ 3 گھنٹے گزر گئے اور ہمارے صبرکا پیمانہ لبریز ہوگیا، اور ہمارا ووٹ نہ پڑ سکا۔ خواتین کے حصہ میں بین الاقوامی مبصرین میں ایک یورپی حسینہ، اور ایک خوش لباس مرد ساتھی متعلقہ کارکنوں سے بات چیت کررہے تھے۔ پردہ اور ٹیبل موجود نہ تھی، چنانچہ باذوق اور عملیت پسند نسائی ووٹر اپنا بیلٹ پیپر دیوار پر رکھ کر مہر کو ایک زوردار دھماکہ سے ثبت کرکے کھلے عام اپنا ووٹ استعمال کررہی تھیں۔

اس دوران پاکستان ٹیلی ویژن کراچی کے نمائندہ مطلوب سید بھی کیمرہ لیے آن پہنچے۔ ہم آگے بڑھے، اور ان کو اپنا شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ حکومتی چینل کی حیثیت سے وہ ہمارا احتجاج ریکارڈ کریں کہ ہمارا نام ووٹر لسٹ میں کیوں موجود نہیں۔ مگر انہوں نے اس شکایت کو ریکارڈ کرنے سے معذرت کرلی۔ ہمارے اصرار پروہ اپنا دفاع کرتے ہوئے کہنے لگے اس وقت میں مختلف مشن پر ہوں، اور آپ کا معاملہ اس وقت الیکشن سے تعلق نہیں رکھتا ۔۔۔ ان کے اس جواب پر ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے، اور اپنا شناختی کارڈ واپس جیب کی حفاظت کے سپرد کردیا۔ اس تحریر کے دوران ہی ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ ہمارے فرشت صفت درویش صوفی، زندہ پیرانسانیت، جناب عبدالستار ایدھی کو بھی فہرست میں نام کے عدم اندراج کی بناء پرمتعلقہ پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔۔ اس کے پیش نظر ہماری کیا حیثیت ہے؟


Faisal Sabzwariاگر کسی ووٹر کا عدم اندراج الیکشن سے متعلق نہیں تو پھر اسے کیا نام دیا جائے۔ پی ٹی وی کی عقل پر ماتم کرنے کا دل چاہتا ہے۔ آپ سوچیں گے کہ پی ٹی وی کا نمائندہ کس مشن پر تھا؟ اس نے جلدی جلدی چند منٹوں میں پولنگ بوتھ پر موجود پولیس اہل کاروں کی وڈیو بنائی کہ یہ دیکھیں پولنگ اسٹیشن پر مناسب سیکیوریٹی انتظام ہے۔ اور لائن میں لگے ہوئے کچھ افراد سے بات چیت کی کہ وہ کس عزم اور مقصد سے ووٹنگ کے لیے آئے ہیں۔ پی ٹی وی کا مقصد الیکشن نظام اور انتظامات کی کامیابی کو سامنے لانا تھا، اور ہماری شکایت اس معاملہ میں راہ کا بتھر ثابت ہورہی تھی۔

ہمارے عزیز ہم وطنو، اس سمع خراشی اور آپ کا اتنا وقت لینے کا مقصد یہ ہے، کہ ہم آپ کی توجہ اس اہم نکتہ کی جانب دلائیں کہ ووٹروں کی فہرست کے لئے حکومت پاکستان نے نیشنل ڈیٹابیس اتھارٹی، المعروف باسم "نادرا" صاحبہ، سے مدد کیوں نہ لی؟ اور آخر کیوں رجسٹرڈ پاکستانیوں کو صرف اس لیے ووٹنگ کے حق سے محروم کردیا کہ ان کے نام و پتے دستی اور روایتی رجسٹریشن کے طریقوں سے ریکارڈ ہونے سے رہ گئے؟

چنانچہ کیا حکام اعلیِ اور الیکشن کمیشن کے کرتا دھرتا اس بارے میں کوئی قابل قبول جواب دے سکتے ہیں ۔۔۔ آخر نادرا کے ریکارڈ کا فائدہ ہی کیا ہے اگر پاکستانی عوام اس کی مدد سے اپنےحکمرانوں کو منتخب نہیں کرسکتے۔ کیا یہ صرف خود کش بمباروں کی بعد از مرگ شناخت کی کوششوں کے لیے ہے۔ آپ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ کیا ہم نے اپنے ووٹوں کے اندراج کے لیے کوئی مناسب اقدامات کیے تھے۔ ہم نے اپنے رجسٹریشن فارم بھر کر جمع کردیے تھے، اور اس کے بعد معاملہ کو نظام کے سپرد کردیا تھا۔ چنانچہ نظام نے اپنی مرضی سے ہی کام کیا، ہماری مرضی سے نہیں۔ ساتھ، ساتھ ہم نے مقامی سیاسی کارکنوں پر بھی بھروسہ کیا، جو مفید ثابت نہ ہوسکا۔ آخری تکیہ نادرا کا ریکارڈ اور ہمارا فخریہ شناختی کارڈ تھا، مگر جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے۔ اورلوٹ کر بدھو گھر کوآئے۔ چنانچہ ہمارے عزیز ہم وطن یہ جان لیں کہ ہم اپنی بریت کا اعلان کررہے ہیں کہ جو بھی پارٹی جیت کر اتھل پتھل کرے گی، اس کو گڑ بڑ کی اجازت ہم نے ہرگز نہیں دی۔ اور اگر اس نے اچھے کام کیےتو اس کا سہرا صرف اور صرف آپ کے اور ہمارے سر ہوگا۔ یہاں ایک تجویز اور نکتہ مزید ذہن میں ابھرتا ہے کہ ہم اورہماری طرح اور بے شمار پاکستانی جو اپنا ووٹ ڈالنے گئے اور فہرستوں میں نام نہ مل سکا، ان کے شناختی کارڈ کے نمبر تو کم از کم علیحدہ طور پر ریکارڈ کرلیے جاتے، تاکہ نہ صرف یہ اعداد و شمار جمع ہوسکتے بلکہ اسی وقت ان کے ووٹوں کا آئندہ کے لیے اندراج بھی ہوجاتا۔

کیا خیال ہے آپ کا؟


Wednesday, August 25, 2004

Confessions of a TOURRORIST in USA !


Confessions of a “Tourrorist” in USA”

How my indiscriminate and careless shootings all around the US cities went un-noticed and I managed to make a clean escape back home!
Justuju / The Quest

Riyadh, Saturday, August 21, 2004

By Hashim Syed Mohammad Bin Qasim


I often talk about the current American mindset. Since the 9/11 tragedies, and the establishment of a Department of Homeland Security, this department has been taking its job so “seriously”, and getting far from realities, that at times it is becoming a laughingstock even in the US congress.

In addition to hundreds of travelers who have reported troubles in US domestic flights, recently at least two Democratic Party Representatives, Edward Kennedy from Massachusetts, and John Lewis, from Georgia, have been subjected to various types of silly questionings and humiliation at the airports. Apparently their names also appear on a nationwide air travelers watch-list. Some suggested in a humorous mood, that since the Kennedy Family is from Ireland, he could have been mistaken for an Irish Terrorist. It follows, then, that the Clintons (Irish roots) would also be on a similar watch-list. If the flamboyant ex President is bodily searched somewhere, at least Monika Lewinsky would feel a bit smug and satisfied. Representative John Lewis finally got some reprieve from this dumb listing database by adding his middle name initial R. So, the system is still under experimentation, and is not as reliable and intelligent as the designers thought it to be.

But, as so far only the Democrats are being stopped from traveling, it could be a part of the ruling GOP (Republicans) campaigners naughty schemes. They are also trying to belittle the Democratic Presidential Candidate, John Kerry, about his Vietnam war decorations and medals. Since John Kerry does not have access to Air force One yet, he is also subject to similar treatment from the Transport Security Administration (DOT) and the Homeland Security, as the senior and very well known and respected politician Edward Kennedy. Only that, being a valiant fighter, John Kerry could fight back.

Text Box: But, as so far only the Democrats are being stopped from traveling, it could be a part of the ruling GOP (Republicans) campaigners naughty schemes!During my trip to USA last year I carried on highly risky and indiscriminate shootings all over the USA. Luckily no one was fatally shot. And many of the people and sights captured by me finally managed to escape my clutches, as the digital camera got ruined on a rainy day in New York City. But still, many beautiful memories remained, that I carried back to Pakistan, and to Saudi Arabia.

However, only when a video maniac Pakistani was arrested by a vigilante type Policeman in Charlotte recently, I realized my foolhardy and the scale of the risks that I took, as a fearless Pakistani camera-slinger.

As I prepared to leave from Las Vegas to San Francisco, I helplessly looked at the professionally valuable Conference Materials, that I so much needed to take back to Saudi Arabia with me. With an overflowing suitcase, and my hand trolley refusing to budge any further, I put some of it in loose shopping bags, and rushed to the airport, looking more like a comic character, close to the Pink Panther.

Unaware of the check-in procedures at the airport, I tried to handover my luggage to an airport passenger assistance worker available at the roadside near the entrance. He was helping the arriving people, with their luggage. This black American, he amusingly looked at me, and decided that I am a suspect (A matter of using an “equal opportunity” rights to become a HERO, by “referring” a terrorist to the authorities ! ). He asked for my passport, and personally handed it over, with a sinister whisper, to the Ticket agents at the airline counter. My passport disappeared for some checks, now usual for most of the Asian and Middle Eastern travelers, and I had to wait for sometime before it re-appeared and I was allowed to travel. When I complained, the agents said, “Feel free to lodge your complaint. (We cannot care less!) Many are filed daily!” There was such a sense of no remorse or apology, that I felt a bit sad from that moment until now, when I learned about the predicaments of the US Senators (albeit Democrats so far!).

Then, I read about the suspicions thrusted upon that Poor Pakistani with a video camera, running loose all over the beautiful scenic sights of USA. My own adventures could be very close to that (I do hope, though, that he has no connections with any un-wanted activities), and could have easily turned in to serious misadventures.

There I am, under the Sears Tower, Chicago, a technically artful picture taken by myself, with the Sears Tower growing right out of my head or something like that. Then I am there, outside the Oprah Studio, the Holography Museum, near the competing Schooners anchored at the Chicago lake shores. Wandering in the Times Square, waiting outside the Canadian Embassy to get my visa application rejected. Resting in the little corners of busy airports, on board steaming ferries, riding the Long Island NY railroad, taking a peek at Long Island from the plane’s window. Then I am there in the Yosemite valley, shooting all over the mountains. Pretty faces, smiling and loving people. Everything has been shot, many times over.

Then, when I return to New York, a sudden rain burst damages my digital camera. So, the USA is saved! One could say …. Many pictures are simply wiped off.

When the US-UK aggression over Iraq started in 2003, the words like “Coalition of the Willing”, made me coin a new term: MAD COWS. Devastatingly Motivated Coalition of the Willing War Mongers. Now, once a carefree lot, the Asian tourists in USA face a high risk of being mistaken for a terrorist. So, may be a new term should emerge: “The Tourrorist”. An innocent person, who does not heed the US Homeland Security concerns, and keeps on merrily hopping around, shooting all over, using his lethal digital camera. Well, it can be lethal for the Tourrorist, if he is caught red handed, tortured well, and imprisoned long enough.

Mr. Hashim Syed Mohammad bin Qasim, based in Riyadh, is a Global Analyst, Writer, Researcher, Sociologist, and an Information and Communication Technology Consultant. In Riyadh, he also represents Online International News Network (OINN), Islamabad. He can be reached via email at hashim.syed@paktribune.com, or at hashims@gmail.com

<>[end]

Google Scholar