سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Showing posts with label محمدبن قاسم، جستجو، justuju. Show all posts
Showing posts with label محمدبن قاسم، جستجو، justuju. Show all posts

Saturday, October 31, 2009

ہیلیری کلنٹن کا طوفانی دورہء پاکستان


م
?ui=2&view=att&th=124a8272df6a351c&attid=0.1&disp=attd&realattid=ii_124a8272df6a351c&zw

Tags: Kerry Lugar, Hillary Clinton, Pak US Relations, Al Qaeda, Taliban, Justuju,
Agricultural Income Tax
جستجو
حکمت اور دانش سے لبریزگفتگو اور مباحث
ہیلیری کلنٹن کا طوفانی دورہءپاکستان
انہوں نے سیدھے سبھاﺅ گفتگو سے دل تو جیتے مگر ذہن نہیں۔۔

محمد بن قاسم

ہیلیری کلنٹن، سکریٹری آف اسٹیٹ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی عمر اب 63 برس ہونے کو آئی ہے۔ وہ قیام پاکستان کے دو ماہ بعد 26 اکتوبر 1947کو شکاگو میں پیدا ہوئیں، اور وہ دو معرکتہ الآراءایسی کتابوں کی مصنّفہ ہیں، جو کم از کم 30لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوچکی ہیں۔ نہ جانے ہماری وزارتِ خارجہ نے ان کے بارے میں کسی قسم کی تحقیق وغیرہ کی بھی تھی یا نہیں! اور نہ جانے ہمارے حکومتی اداروں میں اس قسم کی کوئی روایت بھی ہے کہ جب کوئی اہم مہمان تشریف لائے تو اس کے بارے میں پہلے مناسب تحقیق کرلی جائے، جس سے اس کے بارے میں وہ معلومات دستیاب ہوں جو اس مہمان کے استقبال اور اس سے کامیاب و با مقصد گفت و شنید کے لیے ضروری ہے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ شاید ایسا نہیں کیا گیا ( نہ ہی ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں اس پر کوئی روشنی ڈالی، آہم، آہم۔۔۔)۔ ورنہ 27 اکتوبر2009کو ان کی آمد کے بعد کہیں تو انہیں سال گرہ کی مبارک باد دی جاتی، اور ایک کیک شیک بھی کاٹ لیا جاتا۔ اپنے شوہر ولیم کلنٹن کے کم سن مونا لیونسکی کے ساتھ معاشقہ کے اسکینڈل کے دوران انہوں نے ایک مشرقی عورت کا کردار ادا کیا، اور اپنے صبر و ضبط کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ وہ نیویارک میں رہنے بسنے اور وہاں پر مقامی سیاست بھی کرنے کے سبب یہودیوں کی حمایت کرتی ہیں، 9/11 کے واقعات سے بہت متاءثر ہیں اور انتقام کے جذبہ سے سرشار ہیں، اور بھارت کی معیشت کے حجم اور ثقافت کی بنا پر اس کے عشق میں بھی مبتلا ہیں، انہیں کشمیر سے کوئی دل چسپی نہیں، اور نہ ہی اس کے پس و پیش منظر سے بخوبی واقف ہیں۔ ان اشاروں سے آپ یہ اندازہ لگالیجیے کہ ہمارے ارباب اختیار کس قدر سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، اور انسانی نفسیات، اور انسانیت شناسی کے ان پہلوﺅں پر کس حد تک توجہّ دیتے ہیں، جن کے بغیر انسانی معاشرت میں جینا آسان نہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی ماﺅنٹ بیٹن خاندان سے کچھ ایسا محبت کا رشتہ جوڑا تھا کہ اس پر آج بھی چٹ پٹی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ اسی قسم کے تعلّقات کی بناء پر 1947 میں کشمیر کی حدود کو چپکے چپکے تبدیل کردیا گیا تھا۔ تاہم ، ہم یہ سفارش نہیں کرسکتے کہ پاکستانی نہروانہ محبت کا اظہار کریں جو شرع سے بہت دور ہوگی۔ اور نہ ہی ان سے اس قسم کی خط و کتابت کریں، جیسی کہ سندھ کی دل کش وزیرہ سسی پلیچو کے ساتھ ایک اہل کار نے اپنے دل کے بہکانے پر کر ڈالی، جس کا نتیجہ اس کی گرفتاری اور الزام تراشی وغیرہ میں نکلا، اور اب حراست اور پولیس کی بد سلوکی سے اس کے دماغ کے دریچے وا ہورہے ہیں، اور ایک نئی تاریخِ جنوں لکھی جارہی ہے۔

بہر حال، ہیلیری کلنٹن نے 63 برس کی عمر میں بھی جس طرح سارے پاکستان میں ترت چلت پھرت کا مظاہرہ کیا، اس سے ہمارے جوان سے جوان اربابِ حکومت بھی حیران پریشان رہ گئے۔ ہیلیری کے بارے میں تو ہم نے چک لالہ میں چند قدم کی چہل قدمی تجویز کی تھی، مگر یہ تجویز انہیں کچھ ایسی بھائی کہ وہ میلوں چلیں، اور اپنی صحت بنائی۔ جب سابقہ سکریٹری آف اسٹیٹ، کنڈولیزا رائس، پاکستان آئیں تو انہوں نے پاکستانی پانی تک کا ایک بھی قطرہ نہ پیا۔ یا تو پیاسا رہنا پسند کیا یا اپنے ساتھ لائی ہوئی ’بوتلوں‘ پر گزارا کیا۔ اب ہیلیری کلنٹن نے کیا کھایا پیا، ان تفصیلات کا انتظار رہے گا۔ اپنی پرکشش شخصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہیلیری کلنٹن نے اسلام آباد اور لاہور کے شہریوں کے دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ چند دلوں کو جیتنے کے باوجود وہ پاکستانیوں کے اذہان پر چھانے اور انہیں تسخیر کرنے میں ناکام رہیں۔ تاہم جس طرح وہ پاکستان میں سیکیوریٹی کے خطرات کے باوجود گھومتی پھرتی رہیں وہ ایک قابل ستائش امر ہے، باالخصوص ایک ایسے وقت میں جب کہ ہمارے کئی اہم سیاستدان دم سادھے، دم دبائے، آنکھیں میچے، سر ریت میں چھپائے ، بلوں میں روپوش ہیں۔ وہ جن لوگوں سے ملیں، ان میں صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، مسلم لیگ کے چند رہنما، چند طلبائ، اور قبائلی ’دوست‘ افراد شامل رہے۔ مگر وہ جن افراد سے دور رہیں، یہ ایک دل چسپ امر ہے۔ سب سے پہلے تو کراچی میں بانی ءپاکستان، قائد اعظم، محمد علی جناح ہی اپنے عظیم الشان مزار پر ان کا اسی طرح انتظار کرتے رہے جس طرح وہ نئی پاکستانی نسل کا کرتے ہیں۔ شاید ہیلیری کلنٹن کو کسی نے یہ بتادیا تھا کہ اب قائد کے مزار کے احاطہ میں کسی خاتون کا جانا آنا خطرے سے خالی نہیں، ایک مظلوم پاکستانی لڑکی ابھی تک وہاں کے اہل کاروں کی جانب سے بے آبرو کیے جانے کے بعد انصاف کی منتظر ہے۔ اسی لیے ہیلیری اپنی جوان بیٹی چیلسی کو اپنے ساتھ نہیں لائیں، جب کہ ہمارے رہنما اپنی تمام اولاد کو چین وعرب کی سیر کراتے رہتے ہیں۔ تاہم، کلنٹن خاندان نے اپنی اس اکلوتی بیٹی کو اسلام کے بارے میں ایک خصوصی کورس کرایا، جس کے منفی یا مثبت نتائج کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ کراچی میں متحدہ کا 90 بھی ان کی ایک نظر کا منتظر رہا ہوگا، اور اگر ہیلیری وہاں جا نکلتیں تو وہ اپنے گرم جوش اور منفرد استقبال کو دیکھ کر حیران رہ جاتیں۔ دوسری جانب یہ دیکھتے ہوئے کہ ہیلیری کلنٹن سب سے پہلے ایک کامیاب وکیل رہی ہیں، ان کا وکلاءبرادری کے ساتھ ملاقات کا پروگرام نہ ہونا محل نظر ہے۔ وکلاء تحریک ایک تاریخی کامیابی کے بعد اپنے جامے سے باہر ہے، اور ہر کس و ناکس پر تشدد کرنے پر آمادہ ہے۔ چنانچہ یہی خوف ہیلیری کو ان سے دور رکھنے کا باعث ہوسکتا ہے۔ اور اسی طرح انہوں نے چوہدری شجاعت ، اور دوسری جانب جماعت اسلامی کے گڑھ منصورہ کو ایک محبوبانہ کٹھور پنے سے نظر انداز کردیا۔ اگر وہ وہاں بھی جا پہنچتیں تو جماعت اسلامی سے تلخ و شیریں مکالمہ کرکے انہیں بھی قائل کرلیتیں، یا قائل ہوجاتیں۔ امریکہ کے خلاف سب سے زیادہ شور و غل تو جماعت ہی مچاتی ہے۔ اگر ہمارے فوجی سربراہ ان سے علیحدگی میں ملنے سے انکار کردیتے، اور وزیر اعظم کی موجودگی ہی میں ملتے تو شاید زیادہ مناسب ہوتا۔ تاہم ہیلیری کی اس ملاقات نے یہ ثابت کردیا کہ امریکہ فوج کو اب بھی ایک مقتدر اور ’علیحدہ‘ جماعت سمجھتا ہے۔ چونکہ ہماری فوج اس وقت ایک اہم اور سنجیدہ قسم کے خون خرابہ والی مہم میں مبتلا ہے، ان کا ہیلیری سے مل کر فوجی صلاحیت میں اضافے کے سلسلہ میں بات چیت کرنا کسی حد تک جائز نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک ملنے والی ایسی فوجی امداد اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ہی رہی ہے۔ گنے چنے شبی چشمے (نائٹ وژن)، پرانے ردّی روسی ہیلی کاپٹرز وغیرہ۔ جس وقت ہیلیری پاکستان کا قصد کررہی تھیں، امریکی اور بھارتی جدید تاریخ کی ایک بڑی مشترکہ فوجی مشق جاری تھی، جس کے بارے میں پاکستانی میڈیا لب کشائی نہیں کررہا تھا۔ ہماری فوج کے پاس جو امریکی اسلحہ ہے اس کے مقصدء استعمال اور اس میں تبدیلی ، بہتری، اور اضافہ تک تو امریکہ بہادر کو گوارا نہیں، تو پاکستانی امریکہ پر کیسے یقین کرلیں۔

جاسوسی طیارہ کا واقعہ(1962)،1965 (کشمیر پر جنگ)، 1971(مشرقی پاکستان پر پاک بھارت جنگ) , 1989 (افغانستان میں روسیوں کی پسپائی، اور امریکیوں کا فرار)، 1990(عراقی جنگ)، 2001 ( 9/11) اور 2003 (عراقی جنگ)کے اہم واقعات اور حوادث کے پس منظر میں اگرچہ زیادہ تر پاکستانی امریکہ کو ایک ناقابل اعتبار ساتھی، اور ایک دوست نما دشمن سمجھتے ہیں، پھر بھی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی سابقہ شہرت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہیلیری کا اس نکتہ پر حیرت کا اظہار، کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستانیوں کو یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب القاعدہ نے پاکستانی قبائلی علاقوں میں نفوذ کرلیا، اور ان کے چیدہ چیدہ رہنما کہاں ہیں، پاکستانیوں کے لیے لائقِ فکر ہے - اسی طرح ہیلیری کلنٹن کا پاکستانی ٹیکسیشن نظام پر تنقیدی پیغام بھی بہت اہم ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ آج کل جرمنی کے چند کلیدی سرمایہ دار یہ مہم چلا رہے ہیں کہ ان سے زیادہ ٹیکس لیا جائے۔۔۔ پاگل، اور مجنوں جرمن لوگ۔ پاکستانیوں سے سبق لیں، ہم سب سے زیادہ آمدنی رکھنے والے زرعی شعبہ سے اس لیے ٹیکس نہیں لیتے کہ یہ ’وہی تو ہیں، جو میرا دل چرائے بیٹھے ہیں‘، اور پاکستان کا سب کچھ لوٹ کر پارلیمنٹ میں بھی نقب لگائے ہوئے ہیں۔ ہیلیری کلنٹن اس امر پر اظہارِ حیرت کررہی تھیں کہ جناب وزیرِ اعظم پاکستان کس طرح بخیر و خوبی ایوان کو اتحاد اور یکسوئی سے چلا رہے ہیں۔ انہوں نے موجودہ وزیر اعظم کو سیاسی جادوگر بھی قرار دیا۔ بس یہاں ہیلیری کلنٹن کا بھول پنا ظاہر ہوتا ہے۔ اگر وہ ایوان کی پہلی تقریر سن لیتیں یا پڑھ لیتیں تو انہیں اس جادوگری کے منتر سمجھ میں آجاتے۔ گندم کی قیمت کا تعین اور ہوش ربا اضافہ، مثال کے طور پر! وہ کون سا موقع تھا قیمتوں میں اضافہ کا، اور اس کا مطالبہ اور اس پر تحقیق کس نے کی تھی۔ اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ اور نقصان کس کو ہوا۔ عوام کو تو اس کے بعد آٹا ملنا ہی بند ہوگیا۔

ہمارے سابق سکریٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خان نے یہ انکشاف کرہی دیا ہے کہ ہیلیری کا یہ دورہ بہت پہلے سے طے شدہ تھا، اور اس میں حالیہ اتھل پتھل کا اسی حد تک ہاتھ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے دورہ کے اہداف کو وقت کی ضرورت کے مطابق تبدیل کرلیا ہو۔ ورنہ ان کے اس پکنک نما دورہ کو پاکستانی نقطہ نظر سے مزید مفید بنایا جاسکتا تھا۔ بری امام اور بادشاہی مسجد میں خرچ کیے جانے والے وقت کو بھی عوامی اور رسمی ملاقاتوں کے لیے مخصوص ہونا چاہیے تھا۔ اس قسم کے ذاتی دوروں کے لیے آئندہ وہ اپنی چھٹّیوں میں تشریف لائیں تو بہتر ہے۔ اسی طرح حفظِ مراتب کا تقاضہ تھا کہ کم از کم صدر پاکستان ان کے لیے ضیافت کا اہتمام نہ کرتے۔ قارئین کرام، اب جہاں تک ہماری خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس ، المعروف آئی ایس آئی کا معاملہ ہے، تو یقینا اس میں تعین کیے گئے افراد عارضی ڈیپوٹیشن پر ہونے کے بجائے مستقل حیثیت میں ہوں تو بہتر ہے۔ اسی طرح اس کا سربراہ ضروری نہیں کہ ایک فوجی ہی ہو۔ وہ ایک کامیاب جاسوس، ایک کامیاب تجزیہ کار، جدید ٹیکنولوجی سے واقف، ایک بہترین منیجر اور کو آرڈی نیٹر، جری، بے خوف، اور ایک پر اعتماد، محب وطن پاکستانی ہو، اور بس۔ راما (ریسرچ اینڈ انٹیلی جنس ملّی افغان)، را، موساد، سی آئی اے، اور خاد وغیرہ سے کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے آئی ایس آئی کا ایک مستقل اور فعّال ماہر ترین عملہ سے آراستہ ہونا اشد ضروری ہے۔

چونکہ ہماری موجودہ حکومت کے کرتا دھرتاﺅں نے کیری لوگر بل کے وضاحتی بیان پر نہ جانے کیوں خود اپنے دستخط بھی ثبت کردیے ہیں، اب یہ ایک یک طرفہ دستاویز نہیں رہی، بلکہ اس سے کچھ آگے کی اثر انگیزی کی حامل ہوگئی ہے, اور تاریخ ایسے افراد سے حساب ضرور لے گی جنہوں نے عوامی نمائندگان کے ایوان کو نظر انداز اور دانشورانہ اور عوامی رائے کو پامال کردیا۔ تمام امریکی اہل کاروں کی اس قانون کے نفاذ کے لیے تگ و دو یہ صاف ظاہر کررہی ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں اس خطہ میں امریکی منصوبہ بندیاں مالی دشواریوں کی وجہ سے سست روی کا شکار ہوجاتیں۔ مثلاً اسلام آباد اور پشاور میں مضبوط فوجی قلعوں کا قیام۔۔۔۔ وغیرہ۔ اب امریکی اس ضمن میں چین کی بنسی بجا رہے ہیں، اور پاکستانی حکام اس کی مدھر تانوں کے زیر اثر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
٭
- Saturday, 31 October 2009
اگر کسی قوم کے رہنما خود روشن خیالی سے عاری ہوں تو ان کی ماتحت بھی ہمیشہ تاریکی میں ہی رہیں گے۔۔۔
( ایک چینی کنگ فو کہاوت)
Justuju Media (c) 2009 All Rights Reserved
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
This is a widely syndicated Column. No editing is allowed. It must be published "as is". The intellectual property rights are asserted under the Pakistani and International Copyrights laws.
The Justujumedia hereby grants a fair usage license for publishing this piece without any changes. In case you make some profit out of publishing this material you are urged to consider sharing that with us

Saturday, November 08, 2008

From Uncle Tom's Cabin to White House انکل ٹام کے کیبن سے وہائٹ ہائوس تک









جستجو / حالاتِ حاضرہ
سیاسی، سماجی،ادبی، حکمت و دانش آمیز، طنزومزاح سے بھرپور دل چسپ تحریریں


انکل ٹام کے کیبن سے وہائٹ ہاﺅئوس تک
محمد بن قاسم
email: justujumedia@gmail.com


دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

(مرزاغالب)

یورپ میں چرچ کی، بحیثیت ایک ریاستی مقتدر ادارہ، مذہبی بالادستی اورعیسائی طالبان کے مظالم اور تشدد پسندی سے تنگ آئے مظلوم اور تنگ دست افراد 17ویں صدی میں اطالوی نژاد پرتگالی وہسپانوی مہم جو کرسٹوفر کولمبس (1506-1451)کی 1492 عیسوی میں ایک نئی مالا مال دنیا کے انکشاف کے بعد اس دریافت کی جستجو میں خود بھی بحراوقیانوس کے پار اس ان دیکھی خزانوں سے بھرپور زمین کی جانب چل نکلے۔ اپنی آبائی زمین، رشتہ داروں اور یادوں کو ترک کرکے یہ پرخطر سفر کرتے ہوئے وہ ایک کثیر تعداد میں نئی دنیا کے مشرقی ساحلوں پر جا اترے - عیسائیت کے دو فرقوں، کیتھولک اور پروٹیسٹنٹس کے درمیان ایک متوازن سوچ رکھنے والے یہ افراد اپنے آپ کوپیوریٹن، گویا کہ پاکی یا پاکستانی کہتے۔ نومبر میں وہاں پہنچ جانے کے بعد 11 دسمبر1620 کو 102 مسافروں پر مشتمل ان کا پہلا باقاعدہ سمندری قافلہ ’مے فلاور‘ نامی بحری جہاز میں ساٹھ روز کے سمندری سفر کے بعد اس سرزمین پرپہنچا۔ مشرقی ساحل پر بوسٹن اور نیویارک سے قریب، یہ جگہ پلائی ماﺅتھ، میساچوسیٹس کہلاتی ہے۔ یہ خطہ ءزمین غیرآباد تو نہ تھا، مگر اس وقت یہاں مقامی آبادی سمندر پار سے درآمدی طاعون کا شکار ہوجانے کے بعد بہت ہی قلیل اور اس وقت کی تہذیب یافتہ دنیا سے غیرواقف تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس سرزمین پر پچاس ہزار برس پہلے ہی موجودہ روسی، ایشیائی علاقہ سائبیریا سے کچھ لوگ شمالی امریکہ کے جغرافیائی خطہ میں پہنچ چکے تھے۔ بہرحال، نئے یورپی مہم جو اور مہاجرمشرقی ساحل پرکچھ سستا کر مزید مغرب کی طرف مقامی آبادیوں، جنہیں وہ ریڈ انڈین یعنی سرخ ہندی کہتے، سے لڑتے، بھڑتے، سونا تلاش کرتے پیش قدمی کرتے گئے، یہاں تک کہ انہوں نے 4,500 کلومیٹر دور مغربی ساحل کو چھولیا، اور وہاں بحرالکاہل کے وسیع، عریض، اور عمیق پانیوں نے ان کا استقبال کیا۔ چھ ماہ کے دورانیے کے یہ سفر "اوریگن ٹریل، اوریگن راہ گذر" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ روایتی امریکی ادب میں اس بارے میں کہانیاں اور ناول بڑی تعداد میں لکھے گئے۔ یہ سفر نہایت ہی پرصعوبت، پرخطر، اور جان لیوا ہوتے۔ ان سفروں کے لیے سایہ دار گول چھت والی بیل گاڑیاں استعمال کی جاتیں، جو خاص اس سخت سفر کے لیے بنائی گئیں، اور ان میں عام طور پر بیل جوتے جاتے، جن کے مرجانے پر مسافر بھی بسا اوقات ان کے ساتھ ہی چل بستے۔ اسی قسم کے ایک سفر میں ایک قافلہ نیوادا کے صحرا میں بھٹک گیا، اور آدم خوری کی نوبت آگئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکیوں کی سرشت میں جو مہم جوئی رچ بس گئی ہے، اسی وجہ سے وہ آج بھی بے چین رہتے، اوراپنے ملک کی سرحدوں سے باہرد وردراز علاقوں پرشب خون مارتے رہتے ہیں۔
لگ بھگ پانچ صدیوں پر مشتمل یورپی نوآبادگاروں کی یہ زمینی قبضہ گیری، مقامی غیرتہذیب یافتہ قلیل تعدادی آبادیوں سے مقابلے اوربارودی اسلحہ سے ان کا بے دردی اور بے رحمی سے قتل عام اور ان کے تمام وسائل پر قبضہ، اور دنیا کی سب سے بڑی جائیدادی خرید و فروخت (نپولین سے جنوب میں لوزیانا، اور روس سے شمال مشرق میں الاسکا)، یورپی ممالک کی امریکی خطہ پر کنٹرول پانے کی کشمکش میں آپس میں جنگیں، اور آخر کار 13 امریکی ریاستوں کی جانب سے برطانیہ کے خلاف 4 جولائی 1776 کو اعلان آزادی، امریکی تاریخ کے دل چسپ ترین عنوانات ہیں۔ تاہم جس دوران یورپ کی مغربی سرحدوں سے نئی دنیا کی مشرقی سرحدوں کی جانب ایک کثیر تعداد میں لوگ ہجرت کررہے تھے، افریقہ کے ساحلی علاقوں کے ممالک یہ نہیں جانتے تھے کہ اس ہجرت کے سبب ان پر کیا مصیبتیں ٹوٹ پڑنے والی ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب کہ صنعتی انقلاب برپا نہیں ہوا تھا، اور زراعت کے لیے مویشی اور انسانی ہاتھوں کی مزدوری اورمحنت ہی کی ضرورت تھی، یورپی گوروں کوپہلے یورپی غریبوں، اور بعد میں افریقہ سے انسانی تجارت غلاموں کی شکل میں اس کا بہترین حل نظرآیا۔ اس طرح ایک بڑی تعداد میں آزاد افریقیوں کو زبردستی خرید کر اور ان کی جسمانی آزادی سلب کرکے نئی دنیا لے جایا گیا۔ وہاں ان پر جو ظلم وستم روا رکھے گئے وہ امریکی تاریخ کا ایک تاریک باب ہیں۔ تاہم یہ جسمانی غلامی ان کالی جلد والوں کی روح اور ذہن کو مسخر نہ کرسکی۔ اس کی بہترین عکاسی انیسویں صدی کے ایک امریکی ناول "انکل ٹامزکیبن" میں کی گئی۔ یہ ناول 1852 میں شائع ہوا، اور امریکہ میں بائبل کے بعد سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کی حیثیت اختیار کرگیا۔ ایک نیک دل خاتون ٹیچر، ہیریئٹ بی چر اسٹوو، کے اس ناول نے امریکی شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان خانہ جنگی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ جنوب میں غلامی کو پسند، اور شمال میں اسے برا سمجھا جانے لگا تھا۔ اس خانہ جنگی کے دوران مشہور امریکی صدر ابراہم لنکن برسراقتدار رہے، اور انہوں نے انکل ٹامز کیبن کی اس بارے میں بہت تعریف کی اور اس کی مصنفہ سے خاص طور پر ملاقات کی۔ وہ امریکن خانہ جنگی کے لیے ہیریئٹ کے کردار کو سراہتے اور کہتے کہ یہ جنگ اسی خاتون نے شروع کرائی ہے۔ واضح رہے کہ اس جنگ میں شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان اہم نزاع غلامی کا خاتمہ ہی تھا۔ (20 لاکھ نیگرو غلاموں کی آزادی کی جانب پہلا قدم امریکی صدر ابراہام لنکن کا وہ فرمان ءآزادی تھا جو انہوں نے 1 جنوری 1863 کو جاری کیا۔) ایک کالے پادری ہوسیا ہینسن کی زندگی کی حقیقی کہانی پر مبنی اس جذباتی ناول میں پہلی مرتبہ امریکی شعور کو انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں بیدار کیا گیا، ا ور غلام بنائے جانے والے خاندانوں کے مصائب کو ایک نہایت ہی رحمدلانہ انداز میں پیش کرتے ہوئے اعلی عیسائی مذہبی اقدار کو کام میں لاتے ہوئے گورے مہاجر امریکیوں کے ضمیرکو جھنجھوڑ ڈالا گیا۔ بعد میں "1976" میں امریکی ادب میں ایک اور تہلکہ خیز کتاب کا اضافہ ہوا، جب ایلکس ہیلے نے اپنے خاندان کی جڑیں تلاش کرڈالیں، ا ور وہ افریقہ میں گمبیا میں اپنے گاﺅں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس ناول کو "روٹس" کا نام دیا گیا۔ 1976 میں امریکہ نے اپنے دوسوسالہ جشن آزادی کو بہت جوش و خروش سے منایا، اور اسی دوران ہم نے بھی امریکی سفارت خانہ کے زیراہتمام امریکی تاریخ کا ایک کورس مکمل کیا، جس کی یادیں اس وقت آپ کے لیے یہ مضمون لکھتے اور تحقیق کرتے کام آرہی ہیں۔ اسی دوران ہمیں یہ علم ہوا کہ امریکہ میں نسلی منافرت ایک خاصہ اہم قومی مسئلہ ہے۔ اس کورس کے دوران امریکیوں نے بڑے فخر سے ہمیں 1967میں بنی ایک فلم ’ان دی ہیٹ آف دی نائٹ‘ دکھائی، جس میں سڈنی پوائیٹیر نے ایک ایسے کامیاب سیاہ فام جاسوس کا کردار ادا کیا تھا، جسے سفیدفام پولیس آفیسرز کے غیردوستانہ روّیہ کا سامنا تھا۔ امریکی نسلی تعصبات پر بنی یہ ایک دل چسپ فلم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ موجودہ امریکہ میں تو صرف چار لاکھ غلام لائے گئے، مگر جنوبی امریکہ اور میکسیکو میں ان کی جملہ تعداد پچاس لاکھ سے بھی تجاوز کرگئی تھی۔ ان تمام خطوں میں یورپی نوآباد گار پہنچ چکے تھے، اور وہ سخت محنت کے لیے اپنی انسانی وسائل کی ضروریات کو غلاموں کی تجارت کے ذریعہ پورا کرتے رہے۔ اب 2008 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کل آبادی 30 کروڑ ہے، جس میں افریقی امریکی لگ بھگ 14 فی صد یعنی 4.5 کروڑ ہیں۔ ان میں سے ہی ایک نمایاں نام بارک حسین اوباما کا بھی ہے۔
افریقی امریکیوں کو غلامی کے چنگل سے آزاد ہونے کے باوجود گورے امریکیوں کی جانب سے مستقل نسلی تعصب آمیز سلوک کا سامنا ہے۔ معاشرتی مساوات کی جدوجہد میں ہوسیا ہینسن سے لے کر بارک اوباما تک کئی رہنماﺅں کے نام نمایاں ہیں۔ ان میں روزا پارکس نامی خاتون پہلی شیردل امریکن تھی جس نے1955 میں بسوں میں علیحدہ نشستوں پر کامیابی سے اعتراض کیا۔ دیگر افراد میں مارٹن لوتھر کنگ، عالی جاہ محمد، محمد علی،وغیرہ کے نام ہیں۔ سفیدفام نسل پرستی اور ان کی برتری کے لیے دنیا بھر میں کئی تنظیمیں شدت پرستی سے کام لیتی رہی ہیں۔ امریکہ میں سب سے زیادہ معروف "کو کلکس کلان" ہے۔ جسے کے کے کے بھی کہا جاتاہے۔ یورپ میں اسکن ہیڈز، نازی اور نیونازی بھی اسی نسل پرستی کے پیروکارہیں۔ آپ میں سے وہ دوست جو امریکی تاریخ سے واقف نہیں، وہ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ امریکہ میں ، باالخصوص جنوب میں، معمولی معمولی باتوں پر نیگرو غلاموں اور آزاد افراد کو بھی گرفتار کرکے بپھرے ہوئے گورے ہجوموں کے سامنے اذیتیں دے کر اور درختوں سے لٹکا کر ماردیا جاتا۔ اس عمل کو عوامی لنچنگ کہا جاتا، اور یہ بدترین اعمال اب سے چند برس پہلے تک بھی وہاں جاری تھے۔ نیگروافراد کو عوامی جگہوں پر اٹھنے بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔ واضح رہے کہ اسی قسم کے حالات جنوبی افریقہ میں بھی پائے جاتے تھے، اور موہن کرم داس گاندھی، اور نیلسن منڈیلا نے بھی اس کے خلاف جدوجہد کی۔ امریکی سنیما کی ایک بہترین فلم ’ٹو کل اے موکنگ برڈ‘ جو 1962 میں بنائی گئی، امریکی نسلی تعصب پر مبنی عدالتی نظام پر ایک کڑی ضرب ہے۔ اس میں گریگوری پیک نے ایک دفاعی وکیل کا لافانی کردار ادا کیا، جو اب امریکی نفسیات میںایک مثبت انداز میں داخل ہوچکاہے ۔
بہر حال پیارے دوستو، آج کی امریکی صورت حال کو سمجھنے کے لیے یہ پس منظر آپ کے لیے بڑی اہمیت رکھتاہے، ورنہ آپ آج کے اس عظیم تاریخی موڑ کا ادراک نہ کر پائیں گے، جس پر آج امریکہ کھڑاہے۔ بارک اوباما کی امریکی سیاست کے اکھاڑے میں کامیابی ایک طویل جدوجہد کا ایک اور قدم ہے۔ مگریہ صرف ایک سنگ میل ہے، اور امریکی معاشرتی مساوات کی منزل نہیں۔ نیگرو جنرل کولن پاول، مذہبی اور سیاسی رہنما جیسی جیکسن، اور خاتون کنڈولیزارائس بھی اسی اہم سفر کے خاص خاص نام ہیں۔ تاہم، اس معاشرتی مساوات کو ایک بہت بڑی ترغیب اور بڑھاوا اگست1963میں مارٹن لوتھرکنگ کی ایک تاریخی تقریر نے دیا، جس میں اس نے کہا کہ میر ا ایک خواب ہے کہ امریکہ میں سب لوگ رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر رہ سکیں، اور یہ جان لیں کہ ہرنوزائیدہ بچہ انسانی حقوق کی مساوات کی امید کا ایک چراغ ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کا یہ پیغام اللہ سبحان تعالی ٰ کے آخری نبی محمدبن عبداللہ صلی اللہ و علیہ وسلم کے الوداعی خطبہ ءحج پر مبنی تھا۔ بہرحال سفیدفام نسل پرستوں نے کنگ کو 1968 میں جنوبی شہر میمفس، ٹینیسی میں قتل کردیا۔ اس وقت جیسی جیکسن ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ اور آج جب 47 سالہ بارک اوباما شکاگو میں اپنی کامیابی کے بعد ایک بڑے ہجوم سے خطاب کررہے تھے تو 67 برس کی عمر کے نیگرو پادری جیسی جیکسن کے آنسو کسی صورت تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ ان کی جدوجہد میں کامیابی کا یہ موڑ ان کی زندگی ہی میں آجائے گا اس کا انہیں یقین نہ تھا۔ تاہم یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بارک اوباما کی کامیابی افریقن امریکن شہریوں اور رنگ دار شہریوں کے لیے آخری منزل ہے تو یہ ایک فاش غلط فہمی ہے۔ امریکن انتخابی نظام میں صدارتی امیدوار اسمبلی ممبران کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے، جو زیادہ باشعورمنتخب سیاسی نمائندے کہلائے جاسکتے ہیں۔ دوسری جانب عوام بھی اپنے ووٹ براہ راست ڈالتے ہیں۔ تاہم ان عوامی ووٹوں کا نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چنانچہ یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ اس موقع پر امریکی قوم نے ایک تقسیم شدہ ووٹ دیا۔ بارک اوباما کو 52 فی صد عوامی ووٹ، اور 69 فی صد الیکٹورل ووٹ ملے۔ چنانچہ اب بارک حسین اوباما کو ایک بڑی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا، ان کے مخالفین امریکی میڈیا میں یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اب بارک اوباما کو اپنے تمام انتخابی وعدے پورا کرنا ہوں گے، ورنہ ۔۔۔ ہم دیکھ لیں گے اس کو ۔ ۔۔ چنانچہ اس امر کا قوی امکان ہے کہ ایک مخصوص لابی بارک اوباما کو ایک ناکام صدر ظاہرکرنے کی پوری کوشش کرتی رہے گی۔ ان کے ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ وہ ایک بہترین مقرر و خطیب تو ثابت ہوچکے ہیں، اب عملی میدان میں ان کا کڑا امتحان ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بارک اوباما کی شان دار کامیابی سے دنیا بھر میں کیوں ایک جشن کی سی کیفیت ہے؟ یہاں تک کہ پاکستانی بھی، جنہیں اوباما جنگی دھمکیاں دے چکے ہیں، ان سے خوش ہیں۔ اس کا جواب اس کالم اور مضمون کی پیشانی پر تحریر مرزاغالب کے شعر، اور اس محاورہ میں بھی ہے کہ، نادان دوست سے دانا دشمن بہترہے۔ پاکستانی عدل و انصاف کے لیے کام کرنے والے لوگ یہ جان کر خوش ہیں کہ بارک اوباما بھی ایک وکیل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بارک اوباما دنیا بھر کے مظلوم اور پچھڑے ہوئے انسانوں کے لیے امید کی ایک کرن اور ایک ماڈرن پیغمبر ہیں۔ ان کی امریکہ میں کامیابی دنیا بھر میں نسلی تعصب کے شکار ہر انسان کے لیے ایک مہمیز اور ترغیب ہے کہ اسے بھی اپنے ظالم آقاﺅں سے ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ آپ ملاحظہ کیجیے کہ یہ پیغام نسلی اور مذہبی تعصب پر چلنے والی دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت کے کروڑہاکروڑ دلتوں، مسلمانوں، عیسائیوں، وغیرہ کے لیے کتنا پرکشش ہے۔ اگر وہ بھی اپنی جدوجہد جاری رکھیں تو ایک دن بھارت میں بھی ایک دلت یا مسلمان وزیراعظم بن جائے گا۔ آپ کی اطلاع کے لیے ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ انکل ٹام کے کیبن نامی کتاب کا پورا نام یہ تھا: انکل ٹام کا کیبن یا نچلے طبقات کی زندگی۔ گویا کہ یہ کتاب بھارتی باشندوں کے لیے بھی ایک آفاقی پیغام رکھتی ہے۔
جہاں تک بارک اوباما کا تعلق ہے تو انہیں صدرجان ایف کنیڈی کی طرح قتل کیے جانے کا خدشہ رہے گا، کیوں کہ نسل پرستی امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھِی پائی جاتی ہے، جو اب ان کی حفاظت پر ماءمور رہیں گے۔ آج بھی امریکی نظام انصاف رنگ دار شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتا ہے، جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ اگرچہ رنگ دار امریکی کل آبادی کا 14 فی صد ہیں، مگرامریکی جیلوں میں قید لوگوں میں وہ 50 فی صد ہیں۔ یہ انوکھا صدارتی انتخاب کا امریکی تجربہ اس وقت کامیاب ترین قرار پائے گا جب کہ بارک اوباما کے بعد بھی رنگ دار امریکی شہری باآسانی بلا تمیزرنگ و نسل صدر بن سکیں، اور یہاں تک کہ ایک دن ریڈانڈین یا آنیوٹ شہری بھی صدرچن لیا جائے۔ فی الحال وقتی طور پر انکل ٹام کا اپنے جنوبی شکستہ چوبی کیبن سے شمالی شان دار قصرابیض کا سفر پورا ہوچکاہے۔ اس کے لیے ہم تمام ہم خیال اور عقل مند پاکستانیوں کی جانب سے باشعور امریکی قوم کو سلام تحسین پیش کرتے ہیں۔
*
ہفتہ: 8 نومبر2008 ورژن-4 1
اگر کسی قوم کے رہنما خود روشن خیالی سے عاری ہوں تو ان کی ماتحت بھی ہمیشہ تاریکی میں ہی رہیں گے۔۔۔
ایک چینی کنگ فو کہاوت
All Rights Reserved (c) Justujumedia 2008
National Library of Pakistan Registration: 969-8831-00-00
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
This is a widely syndicated Column. No editing is allowed. It must be published as is. The intellectual property rights are asserted under the Pakistani and International Copyrights laws.
The Justujumedia hereby grants a fair usage license for publishing this piece without any changes. In case you make some profit out of publishing this material you are urged to consider sharing that with us

Tuesday, June 08, 2004

The “KING” is naked: Political Reengineering in the Muslim world -- The Greater Middle East Initiative







THE “KING” IS NAKED:
POLITICAL REENGINEERING IN THE MUSLIM WORLD -- CLASH OF CIVILIZATIONS BY MANY NAMES – THE GREATER MIDDLE EAST INITIATIVE AND THE PARTNERSHIP FOR FUTURE PROGRESS

By: Hashim Syed Mohammad Bin Qasim, Riyadh


As the leaders of World’s leading economic and military powers, the club of G-8, meet from June 8 to June 10 in the eastern US Atlantic resort of Sea Island, Georgia, the Muslim world from Morocco in western Africa to Indonesia in the south eastern Asia continues to ponder about its agenda and outcome affecting the future of Muslim countries. This is the 30th annual summit of this group; the previous one was held in Evian France.

The west has identified a belt of countries from Morocco to Pakistan, including the Far eastern countries of Bangladesh, Indonesia and Malaysia, as a target for bringing about changes in their educational, political, economical, and religious outlooks. Initially dubbed as “Greater Middle East Initiative”, its name has been changed on the insistence of Germany, which does not like the connotations to any “Greatness”, initially proclaimed by Hitler, and considered a Nazi slogan. On the other hand, the African countries have been added to the list of “prospects” to please France, which has had an active role in the politics of many of the African countries.

While the G-8, comprising of Canada, France, Germany, Italy, Japan, Russia, UK, and USA, have targeted the Muslim world, to guide them in accordance with the western intellectual and political thoughts, the Organization of Islamic Conference, OIC, seems to have once again failed to counter this strategy, with its own active brainstorming, stand, and proposals. The west has thus succeeded in dividing the Islamic vision, especially by inviting a few of the Muslim leaders, who are expected to tow the western line, and ignoring a major part of the Muslim world. While some of the more conservative and autocratic countries might not like to participate in this “re-engineering” process, absence of a country like Pakistan is notable, as its current leader has very openly come out in the favour of a moderate and enlightened Islamic thinking. Only very weak and occupied Muslim countries are taking part: Afghanistan, Algeria, Bahrain, Iraq, Jordan, Turkey, and Yemen are on the guests list. Important absentees are: Libya, Egypt, Saudi Arabia, Syria, Iran, Pakistan, Bangladesh, Indonesia, and Malaysia. Some of these countries, even if invited, though, would not give a credence to this forum’s relevant agenda of suspicious regional reforms at this point in time.

USA think tanks, and secret analyses seem to have reached a conclusion, that the roots of terrorism lie within the Muslim world’s educational systems; and the world’s currently known energy resources are under the Muslim controls. They are intent on somehow fixing both of these causes. Countries like Saudi Arabia and Pakistan have been forced to re-consider their school and college curriculums, and some changes have already taken place. It is not to say that a few changes are not required; the problem lies in the objectives behind such requests. Islamists see it as an attack on the roots of Islamic teachings, and that is clearly a Clash of Civilizations, as per the philosophy propounded by US Professor Samuel P. Huntington. Also, such plans ignore the clear injustices and ethnic cleansing carried out by Israel in Palestine, with the overwhelming political and military assistance of USA itself. On the other hand, Kashmiri Muslims have been ignored and left to bleed to their political death. When the East Timor oil resources were required by Australia, the whole Western world stood by their side, and forced Indonesia to “free” one of its dependencies. It was amusing to see the Australian Prime Minister visit Eastern Timor the very next day of declaration of its independence, and hastily sign a oil trade treaty, beating Japan in this race.

The original Greater Middle East Initiative plan has been renamed to Broader Middle East and North Africa Initiative, and also called a Partnership for Future Progress (of the west!). As much of its details have not been made public, only following main points are known so far:

1- Turn Autocratic Monarchies into some sort of Constitutional Monarchies
2- Introduce Democratic Political Reforms, providing a common man participation in the decision and law making process
3- Introduce Economic Reforms, emphasizing open markets, job creations, better distribution of income
4- Introduce Judicial and Legal Reforms, to remove ambiguities and injustices
5- Introduce Social Reforms, to provide equal opportunities to all strata of the society highlighting the Human Rights
6- Empower women-folk, who are a subdued part of the society
7- Control Muslim Population Explosions (a much trumpeted fear by Professor Samuel), introducing the Population control methods so far despised in this part of the world

While the open agenda appears to be based on the foregoing points, the hidden agenda, among other things, might include:

1- Overpowering and controlling the Energy resources, now under the control of Muslim World
2- Controlling the spread of Islam, at least in its current “extremist” form
3- Politically empower non Muslim minorities out of proportion to their respective strengths, using Human Rights as an agent of change
4- Provide full protection to Israel, with possible expansion of its territories in future
5- Creating a chaos in the Muslim world, making them to lose their Muslim brotherhood and identity, by especially promoting divisions among the ethnical and major Muslim sects of Sunnis and Shias
6- To reduce the importance of certain Political and Geographical nations, like Saudi Arabia and Iraq, propose the “internationalization” of holiest of Muslim places on a pattern of Vatican City. Najaf has been targeted as a first step, and, ignoring the Jersulem, the Makkah and Madinah could be included at an appropriate time, when the Muslim world is sufficiently weakened. (Iran has held and promoted similar views in the past, providing a basis to the Western proposals now.)
7- Keep the weapons industry going, by selling the inefficient weapon systems, to those regimes that feel threatened with this political instability
8- Control the Chinese influence, and cut Pakistani Military might to size, by empowering the Indian Military machine
9- To control all the water ways all around the world, using the NATO, and NON-NATO allies, including the ever expanding Indian Navy

The area identified for an extended targeted change is inhabited by at least 1+ Billion Muslims (see the OIC members table at the end of the Article). But none of these countries, except Pakistan, has a military machine that can at least temporarily resist any advances on its sovereignty. In the talks of Democratic candidate for Presidency, USA’s future government is already setting a tone for future controls of Pakistani nukes. Obviously, the leaders of the targeted countries have rejected the US proposals. USA has assured them that if they agree to such eventual reforms, they will not set up a follow up formula, like issuing an edict from United Nations. What is surprising is, however, there has not been an open exchange of views and a dialogue with each of the country, and most of the plan appears to be woven in a secretive way, creating more suspicion about its ultimate objectives. The outcome appears to be what a classical story about the making of an invisible (to virtueless!) dress for a king had: The “King” (USA) appears naked – but only an innocent child, and not the smart political leaders, can dare to declare this fact openly.

Another problem is that should countries like Syria and Saudi Arabia do bring about an instant change in their political set up, it is certain that those elements would assume power, which are not in the good books of the West for now. Iranian Democratic but Clerical oriented rule is an eye opener for that matter. And this is for the same reason, that the current dictatorial democratic set up is continued to be supported in Pakistan, lest the Islamists assume power and take a control of the dreaded nuclear weapons: thus when time is right for action, any leader like President Musharraf would be removed – in a manner like Ziaulhaque’s plane “disaster” – and Pakistani nukes knocked out.

The US costs of Iraq war have exceeded US $ 100 billion, with over 800 personnel killed so far. In order to reduce these losses USA has been “requesting” the rich neighbors of Iraq to forego some of their debts collectible from Iraq. In order to drum up a support for its own Broader Middle East and North African Plans, USA is now dangling carrots of long term Iraqi rebuilding plans in front of its G-8 allies. Iraqi economic occupation is expected to continue for up to 20 years, with budgets of up to US $ 500 billion to be “earned” by these re-builders of the Iraq so effectively destroyed by them.

For now, forget the thousands of innocent Iraqi lives lost since March 2003, forget Israel, forget Cuba, forget North Korea (they are not Muslims, remember!). Long live Iraqi oil revenues! And by the way, what is this place on earth called Kashmir?

OIC Member Countries - Population Estimates:
Population Estimates In Alphabetical Order

S.# Country Millions Target! Millions
1 Afghanistan 22 Yes 22
2 Albania 3 0
3 Algeria 31 Yes 31
4 Azerbaijan 8 0
5 Bahrain 0.8 Yes 0.8
6 Bangladesh 127 Yes 127
7 Benin 6 0
8 Brunei 0.3 0
9 Burkina Faso 12 Yes 12
10 Cameroon 15 Yes 15
11 Chad 8 Yes 8
12 Comoros 0.7 Yes 0.7
13 Cote deivoire 16 0
14 Djibouti 0.6 Yes 0.6
15 Egypt 63 Yes 63
16 Gabon 1.5 Yes 1.5
17 Gambia 1.5 Yes 1.5
18 Guinea 7.5 0
19 Guinea-Bissau 1.3 0
20 Guyana 0.9 0
21 Indonesia 210 Yes 210
22 Iran 65 Yes 65
23 Iraq 23 Yes 23
24 Jordan 7 Yes 7
25 Kazakhstan 15 0
26 Kuwait 2 Yes 2
27 Kyrgyz Republic 5 0
28 Lebanon 3 Yes 3
29 Libya 6 Yes 6
30 Malaysia 23 Yes 23
31 Maldives 0.4 0
32 Mali 11 Yes 11
33 Mauritania 3 Yes 3
34 Morocco 28 Yes 28
35 Mozambique 17 Yes 17
36 Niger 11 Yes 11
37 Nigeria 110 Yes 110
38 Oman 2.5 Yes 2.5
39 Pakistan 145 Yes 145
40 Palestine 3 Yes 3
41 Qatar 0.7 Yes 0.7
42 Saudi Arabia 24 Yes 24
43 Senegal 10 Yes 10
44 Sierra Leone 5 Yes 5
45 Somalia 10 Yes 10
46 Sudan 30 Yes 30
47 Suriname 0.5 0
48 Syria 17 Yes 17
49 Tajikistan 6.5 0
50 Togo 5 0
51 Tunisia 10 Yes 10
52 Turkey 67 0
53 Turkmenistan 4.5 0
54 Uganda 22 Yes 22
55 UAE 3 Yes 3
56 Uzbekistan 2.5 0
57 Yemen 18 Yes 18

Total 1,252 1,102


[end of the Article]

Google Scholar