سیاسی، سماجی، ادبی، مزاح اور حکمت آمیز تحریریں

ہے جستجوکہ خوب سے ہےخوب ترکہاں
اب د یکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں

Justuju Tv جستجو ٹی وی

انٹرنیشنل سیکیوریٹی نیٹ ورک - سوئٹزرلینڈ

Logo ISN

VerveEarth

Saturday, October 31, 2009

ہیلیری کلنٹن کا طوفانی دورہء پاکستان


م
?ui=2&view=att&th=124a8272df6a351c&attid=0.1&disp=attd&realattid=ii_124a8272df6a351c&zw

Tags: Kerry Lugar, Hillary Clinton, Pak US Relations, Al Qaeda, Taliban, Justuju,
Agricultural Income Tax
جستجو
حکمت اور دانش سے لبریزگفتگو اور مباحث
ہیلیری کلنٹن کا طوفانی دورہءپاکستان
انہوں نے سیدھے سبھاﺅ گفتگو سے دل تو جیتے مگر ذہن نہیں۔۔

محمد بن قاسم

ہیلیری کلنٹن، سکریٹری آف اسٹیٹ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی عمر اب 63 برس ہونے کو آئی ہے۔ وہ قیام پاکستان کے دو ماہ بعد 26 اکتوبر 1947کو شکاگو میں پیدا ہوئیں، اور وہ دو معرکتہ الآراءایسی کتابوں کی مصنّفہ ہیں، جو کم از کم 30لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوچکی ہیں۔ نہ جانے ہماری وزارتِ خارجہ نے ان کے بارے میں کسی قسم کی تحقیق وغیرہ کی بھی تھی یا نہیں! اور نہ جانے ہمارے حکومتی اداروں میں اس قسم کی کوئی روایت بھی ہے کہ جب کوئی اہم مہمان تشریف لائے تو اس کے بارے میں پہلے مناسب تحقیق کرلی جائے، جس سے اس کے بارے میں وہ معلومات دستیاب ہوں جو اس مہمان کے استقبال اور اس سے کامیاب و با مقصد گفت و شنید کے لیے ضروری ہے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ شاید ایسا نہیں کیا گیا ( نہ ہی ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں اس پر کوئی روشنی ڈالی، آہم، آہم۔۔۔)۔ ورنہ 27 اکتوبر2009کو ان کی آمد کے بعد کہیں تو انہیں سال گرہ کی مبارک باد دی جاتی، اور ایک کیک شیک بھی کاٹ لیا جاتا۔ اپنے شوہر ولیم کلنٹن کے کم سن مونا لیونسکی کے ساتھ معاشقہ کے اسکینڈل کے دوران انہوں نے ایک مشرقی عورت کا کردار ادا کیا، اور اپنے صبر و ضبط کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ وہ نیویارک میں رہنے بسنے اور وہاں پر مقامی سیاست بھی کرنے کے سبب یہودیوں کی حمایت کرتی ہیں، 9/11 کے واقعات سے بہت متاءثر ہیں اور انتقام کے جذبہ سے سرشار ہیں، اور بھارت کی معیشت کے حجم اور ثقافت کی بنا پر اس کے عشق میں بھی مبتلا ہیں، انہیں کشمیر سے کوئی دل چسپی نہیں، اور نہ ہی اس کے پس و پیش منظر سے بخوبی واقف ہیں۔ ان اشاروں سے آپ یہ اندازہ لگالیجیے کہ ہمارے ارباب اختیار کس قدر سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، اور انسانی نفسیات، اور انسانیت شناسی کے ان پہلوﺅں پر کس حد تک توجہّ دیتے ہیں، جن کے بغیر انسانی معاشرت میں جینا آسان نہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی ماﺅنٹ بیٹن خاندان سے کچھ ایسا محبت کا رشتہ جوڑا تھا کہ اس پر آج بھی چٹ پٹی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ اسی قسم کے تعلّقات کی بناء پر 1947 میں کشمیر کی حدود کو چپکے چپکے تبدیل کردیا گیا تھا۔ تاہم ، ہم یہ سفارش نہیں کرسکتے کہ پاکستانی نہروانہ محبت کا اظہار کریں جو شرع سے بہت دور ہوگی۔ اور نہ ہی ان سے اس قسم کی خط و کتابت کریں، جیسی کہ سندھ کی دل کش وزیرہ سسی پلیچو کے ساتھ ایک اہل کار نے اپنے دل کے بہکانے پر کر ڈالی، جس کا نتیجہ اس کی گرفتاری اور الزام تراشی وغیرہ میں نکلا، اور اب حراست اور پولیس کی بد سلوکی سے اس کے دماغ کے دریچے وا ہورہے ہیں، اور ایک نئی تاریخِ جنوں لکھی جارہی ہے۔

بہر حال، ہیلیری کلنٹن نے 63 برس کی عمر میں بھی جس طرح سارے پاکستان میں ترت چلت پھرت کا مظاہرہ کیا، اس سے ہمارے جوان سے جوان اربابِ حکومت بھی حیران پریشان رہ گئے۔ ہیلیری کے بارے میں تو ہم نے چک لالہ میں چند قدم کی چہل قدمی تجویز کی تھی، مگر یہ تجویز انہیں کچھ ایسی بھائی کہ وہ میلوں چلیں، اور اپنی صحت بنائی۔ جب سابقہ سکریٹری آف اسٹیٹ، کنڈولیزا رائس، پاکستان آئیں تو انہوں نے پاکستانی پانی تک کا ایک بھی قطرہ نہ پیا۔ یا تو پیاسا رہنا پسند کیا یا اپنے ساتھ لائی ہوئی ’بوتلوں‘ پر گزارا کیا۔ اب ہیلیری کلنٹن نے کیا کھایا پیا، ان تفصیلات کا انتظار رہے گا۔ اپنی پرکشش شخصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہیلیری کلنٹن نے اسلام آباد اور لاہور کے شہریوں کے دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ چند دلوں کو جیتنے کے باوجود وہ پاکستانیوں کے اذہان پر چھانے اور انہیں تسخیر کرنے میں ناکام رہیں۔ تاہم جس طرح وہ پاکستان میں سیکیوریٹی کے خطرات کے باوجود گھومتی پھرتی رہیں وہ ایک قابل ستائش امر ہے، باالخصوص ایک ایسے وقت میں جب کہ ہمارے کئی اہم سیاستدان دم سادھے، دم دبائے، آنکھیں میچے، سر ریت میں چھپائے ، بلوں میں روپوش ہیں۔ وہ جن لوگوں سے ملیں، ان میں صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، مسلم لیگ کے چند رہنما، چند طلبائ، اور قبائلی ’دوست‘ افراد شامل رہے۔ مگر وہ جن افراد سے دور رہیں، یہ ایک دل چسپ امر ہے۔ سب سے پہلے تو کراچی میں بانی ءپاکستان، قائد اعظم، محمد علی جناح ہی اپنے عظیم الشان مزار پر ان کا اسی طرح انتظار کرتے رہے جس طرح وہ نئی پاکستانی نسل کا کرتے ہیں۔ شاید ہیلیری کلنٹن کو کسی نے یہ بتادیا تھا کہ اب قائد کے مزار کے احاطہ میں کسی خاتون کا جانا آنا خطرے سے خالی نہیں، ایک مظلوم پاکستانی لڑکی ابھی تک وہاں کے اہل کاروں کی جانب سے بے آبرو کیے جانے کے بعد انصاف کی منتظر ہے۔ اسی لیے ہیلیری اپنی جوان بیٹی چیلسی کو اپنے ساتھ نہیں لائیں، جب کہ ہمارے رہنما اپنی تمام اولاد کو چین وعرب کی سیر کراتے رہتے ہیں۔ تاہم، کلنٹن خاندان نے اپنی اس اکلوتی بیٹی کو اسلام کے بارے میں ایک خصوصی کورس کرایا، جس کے منفی یا مثبت نتائج کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ کراچی میں متحدہ کا 90 بھی ان کی ایک نظر کا منتظر رہا ہوگا، اور اگر ہیلیری وہاں جا نکلتیں تو وہ اپنے گرم جوش اور منفرد استقبال کو دیکھ کر حیران رہ جاتیں۔ دوسری جانب یہ دیکھتے ہوئے کہ ہیلیری کلنٹن سب سے پہلے ایک کامیاب وکیل رہی ہیں، ان کا وکلاءبرادری کے ساتھ ملاقات کا پروگرام نہ ہونا محل نظر ہے۔ وکلاء تحریک ایک تاریخی کامیابی کے بعد اپنے جامے سے باہر ہے، اور ہر کس و ناکس پر تشدد کرنے پر آمادہ ہے۔ چنانچہ یہی خوف ہیلیری کو ان سے دور رکھنے کا باعث ہوسکتا ہے۔ اور اسی طرح انہوں نے چوہدری شجاعت ، اور دوسری جانب جماعت اسلامی کے گڑھ منصورہ کو ایک محبوبانہ کٹھور پنے سے نظر انداز کردیا۔ اگر وہ وہاں بھی جا پہنچتیں تو جماعت اسلامی سے تلخ و شیریں مکالمہ کرکے انہیں بھی قائل کرلیتیں، یا قائل ہوجاتیں۔ امریکہ کے خلاف سب سے زیادہ شور و غل تو جماعت ہی مچاتی ہے۔ اگر ہمارے فوجی سربراہ ان سے علیحدگی میں ملنے سے انکار کردیتے، اور وزیر اعظم کی موجودگی ہی میں ملتے تو شاید زیادہ مناسب ہوتا۔ تاہم ہیلیری کی اس ملاقات نے یہ ثابت کردیا کہ امریکہ فوج کو اب بھی ایک مقتدر اور ’علیحدہ‘ جماعت سمجھتا ہے۔ چونکہ ہماری فوج اس وقت ایک اہم اور سنجیدہ قسم کے خون خرابہ والی مہم میں مبتلا ہے، ان کا ہیلیری سے مل کر فوجی صلاحیت میں اضافے کے سلسلہ میں بات چیت کرنا کسی حد تک جائز نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک ملنے والی ایسی فوجی امداد اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ہی رہی ہے۔ گنے چنے شبی چشمے (نائٹ وژن)، پرانے ردّی روسی ہیلی کاپٹرز وغیرہ۔ جس وقت ہیلیری پاکستان کا قصد کررہی تھیں، امریکی اور بھارتی جدید تاریخ کی ایک بڑی مشترکہ فوجی مشق جاری تھی، جس کے بارے میں پاکستانی میڈیا لب کشائی نہیں کررہا تھا۔ ہماری فوج کے پاس جو امریکی اسلحہ ہے اس کے مقصدء استعمال اور اس میں تبدیلی ، بہتری، اور اضافہ تک تو امریکہ بہادر کو گوارا نہیں، تو پاکستانی امریکہ پر کیسے یقین کرلیں۔

جاسوسی طیارہ کا واقعہ(1962)،1965 (کشمیر پر جنگ)، 1971(مشرقی پاکستان پر پاک بھارت جنگ) , 1989 (افغانستان میں روسیوں کی پسپائی، اور امریکیوں کا فرار)، 1990(عراقی جنگ)، 2001 ( 9/11) اور 2003 (عراقی جنگ)کے اہم واقعات اور حوادث کے پس منظر میں اگرچہ زیادہ تر پاکستانی امریکہ کو ایک ناقابل اعتبار ساتھی، اور ایک دوست نما دشمن سمجھتے ہیں، پھر بھی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی سابقہ شہرت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہیلیری کا اس نکتہ پر حیرت کا اظہار، کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستانیوں کو یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب القاعدہ نے پاکستانی قبائلی علاقوں میں نفوذ کرلیا، اور ان کے چیدہ چیدہ رہنما کہاں ہیں، پاکستانیوں کے لیے لائقِ فکر ہے - اسی طرح ہیلیری کلنٹن کا پاکستانی ٹیکسیشن نظام پر تنقیدی پیغام بھی بہت اہم ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ آج کل جرمنی کے چند کلیدی سرمایہ دار یہ مہم چلا رہے ہیں کہ ان سے زیادہ ٹیکس لیا جائے۔۔۔ پاگل، اور مجنوں جرمن لوگ۔ پاکستانیوں سے سبق لیں، ہم سب سے زیادہ آمدنی رکھنے والے زرعی شعبہ سے اس لیے ٹیکس نہیں لیتے کہ یہ ’وہی تو ہیں، جو میرا دل چرائے بیٹھے ہیں‘، اور پاکستان کا سب کچھ لوٹ کر پارلیمنٹ میں بھی نقب لگائے ہوئے ہیں۔ ہیلیری کلنٹن اس امر پر اظہارِ حیرت کررہی تھیں کہ جناب وزیرِ اعظم پاکستان کس طرح بخیر و خوبی ایوان کو اتحاد اور یکسوئی سے چلا رہے ہیں۔ انہوں نے موجودہ وزیر اعظم کو سیاسی جادوگر بھی قرار دیا۔ بس یہاں ہیلیری کلنٹن کا بھول پنا ظاہر ہوتا ہے۔ اگر وہ ایوان کی پہلی تقریر سن لیتیں یا پڑھ لیتیں تو انہیں اس جادوگری کے منتر سمجھ میں آجاتے۔ گندم کی قیمت کا تعین اور ہوش ربا اضافہ، مثال کے طور پر! وہ کون سا موقع تھا قیمتوں میں اضافہ کا، اور اس کا مطالبہ اور اس پر تحقیق کس نے کی تھی۔ اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ اور نقصان کس کو ہوا۔ عوام کو تو اس کے بعد آٹا ملنا ہی بند ہوگیا۔

ہمارے سابق سکریٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خان نے یہ انکشاف کرہی دیا ہے کہ ہیلیری کا یہ دورہ بہت پہلے سے طے شدہ تھا، اور اس میں حالیہ اتھل پتھل کا اسی حد تک ہاتھ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے دورہ کے اہداف کو وقت کی ضرورت کے مطابق تبدیل کرلیا ہو۔ ورنہ ان کے اس پکنک نما دورہ کو پاکستانی نقطہ نظر سے مزید مفید بنایا جاسکتا تھا۔ بری امام اور بادشاہی مسجد میں خرچ کیے جانے والے وقت کو بھی عوامی اور رسمی ملاقاتوں کے لیے مخصوص ہونا چاہیے تھا۔ اس قسم کے ذاتی دوروں کے لیے آئندہ وہ اپنی چھٹّیوں میں تشریف لائیں تو بہتر ہے۔ اسی طرح حفظِ مراتب کا تقاضہ تھا کہ کم از کم صدر پاکستان ان کے لیے ضیافت کا اہتمام نہ کرتے۔ قارئین کرام، اب جہاں تک ہماری خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس ، المعروف آئی ایس آئی کا معاملہ ہے، تو یقینا اس میں تعین کیے گئے افراد عارضی ڈیپوٹیشن پر ہونے کے بجائے مستقل حیثیت میں ہوں تو بہتر ہے۔ اسی طرح اس کا سربراہ ضروری نہیں کہ ایک فوجی ہی ہو۔ وہ ایک کامیاب جاسوس، ایک کامیاب تجزیہ کار، جدید ٹیکنولوجی سے واقف، ایک بہترین منیجر اور کو آرڈی نیٹر، جری، بے خوف، اور ایک پر اعتماد، محب وطن پاکستانی ہو، اور بس۔ راما (ریسرچ اینڈ انٹیلی جنس ملّی افغان)، را، موساد، سی آئی اے، اور خاد وغیرہ سے کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے آئی ایس آئی کا ایک مستقل اور فعّال ماہر ترین عملہ سے آراستہ ہونا اشد ضروری ہے۔

چونکہ ہماری موجودہ حکومت کے کرتا دھرتاﺅں نے کیری لوگر بل کے وضاحتی بیان پر نہ جانے کیوں خود اپنے دستخط بھی ثبت کردیے ہیں، اب یہ ایک یک طرفہ دستاویز نہیں رہی، بلکہ اس سے کچھ آگے کی اثر انگیزی کی حامل ہوگئی ہے, اور تاریخ ایسے افراد سے حساب ضرور لے گی جنہوں نے عوامی نمائندگان کے ایوان کو نظر انداز اور دانشورانہ اور عوامی رائے کو پامال کردیا۔ تمام امریکی اہل کاروں کی اس قانون کے نفاذ کے لیے تگ و دو یہ صاف ظاہر کررہی ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں اس خطہ میں امریکی منصوبہ بندیاں مالی دشواریوں کی وجہ سے سست روی کا شکار ہوجاتیں۔ مثلاً اسلام آباد اور پشاور میں مضبوط فوجی قلعوں کا قیام۔۔۔۔ وغیرہ۔ اب امریکی اس ضمن میں چین کی بنسی بجا رہے ہیں، اور پاکستانی حکام اس کی مدھر تانوں کے زیر اثر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
٭
- Saturday, 31 October 2009
اگر کسی قوم کے رہنما خود روشن خیالی سے عاری ہوں تو ان کی ماتحت بھی ہمیشہ تاریکی میں ہی رہیں گے۔۔۔
( ایک چینی کنگ فو کہاوت)
Justuju Media (c) 2009 All Rights Reserved
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
This is a widely syndicated Column. No editing is allowed. It must be published "as is". The intellectual property rights are asserted under the Pakistani and International Copyrights laws.
The Justujumedia hereby grants a fair usage license for publishing this piece without any changes. In case you make some profit out of publishing this material you are urged to consider sharing that with us

No comments:

Google Scholar